ہارن بجانے کے لیے ہے اذیت رسانی کے لیے نہیں!


آج تو حد ہی ہو گئی تھی۔ میرا بھی صبر کا پیمانہ لب ریز ہو گیا تھا۔ انسانیت، تہذیب، شایستگی، مروت، لحاظ، شرافت، زبان کی حرمت؛ سب مستحسن اقدار و روایات کو بالائے طاق رکھنے کو جی چا ہتا تھا۔ ہوا یہ کہ ابھی چند ہی لمحے قبل والد صاحب کو رات بھر کے جگ رتے کے بعد دو گھڑی کے لیے آنکھ لگی تھی۔ وہ خاصے عرصے سے بہت سی بیماریوں کی یورش کا ہدف تھے اور رات بھر کھانسی کے پے در پے دوروں سے نڈھال رہتے تھے۔ آج بھی نمازِ فجر کے بعد جونھی ان کی آنکھ لگی، گلی میں پریشر ہارن اور ساتھ بے ہنگم موسیقی کی تکلیف دہ اور اذیت ناک آواز نے کانوں کے پردے پھاڑنا شروع کر دیے اور والد صاحب کی آنکھ فوراً کھل گئی۔

میں نے طیش میں دروازہ کھولا تو دیکھا پک اینڈ ڈراپ والا ایک فیشن ایبل نوجوان کیری پہ بیٹھا تھا اور ساتھ والے گھر سے بچے کو لینے کے لیے مسلسل پریشر ہارن بجا رہا تھا۔ میں نے غصے پر قابو رکھتے ہوئے اس سے کہا کہ آپ کو اتنا بھی خیال نہیں کہ پاس پڑوس میں کوئی بزرگ بیمار ہو سکتا ہے۔ معصوم بچے سو رہے ہوتے ہیں، کوئی صاحب یا خاتون تلاوت کلامِ پاک میں یا کوئی طالب علم مطالعے میں مصروف ہو سکتا ہے اور آپ نہایت بد تمیزی اور بد تہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، مسلسل پریشر ہارن اور بے ہودہ موسیقی بجائے جا رہے ہیں؟ اس پر وہ نوجوان بھی طیش میں آ گیا اور بات تو تکار سے ہوتی ہوئی ہاتھا پائی تک پہنچنے ہی والی تھی کہ سامنے مسجد سے امام صاحب بھی آ گئے۔ انھوں نے درمیان میں پڑ کر معاملہ رفع دفع کروایا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں تہذیبی شعور بیدار ہو کر پروان چڑھنے میں صدیاں گزر جاتی ہیں۔ ماحولیاتی، فضائی اور آبی آلودگی کے بعد شور کی آلودگی دنیا بھر کا عمومی اور ہمارا خصوصی مسئلہ ہے۔ انسان میں سماعت کی صلاحیت بیس سے بیس ہزار ہرٹز تک ہے۔ آواز اس حد سے متجاوز ہو جائے تو قوت سماعت متاثر ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ آج شور کی آلودگی جدید دنیا کے بڑے اور سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے۔

تمام ممالک اپنے تہذیبی پس منظر، تعلیم و تربیت کے معیار اور معاشی و اقتصادی وسائل کے مطابق حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مگر لگتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ مسائل کچھ زیادہ ہی شدت سے سر اٹھا رہے ہیں۔ خدا خدا کرکے مسجدوں اور دیگر عبادت گاہوں کے لاؤڈ اسپیکروں کے بے وقت اور بے تحاشا اور بے جا استعمال سے کسی حد تک جان چھوٹی تھی کہ ہارن بجانے کے شوقینوں نے جان آفت میں ڈال دی۔ کچھ ستم ظریفوں نے تو کتے بلیوں اور گدھوں گھوڑوں کی آوازیں ہارن میں فٹ کر رکھی ہیں۔ مہذب ملکوں میں تو کب کی ہارن بجانے پر پابندی لگ چکی ہے، کیوں کہ یہ دوسروں کے آرام، حقوق اور سماعتوں میں خلل ڈالتا ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے ہنوز دلی دور است۔

اسلام بھی آوازوں کے بے جا اور غیر ضروری استعمال کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ قرآن پاک میں گدھے کی آواز کو سب سے بری اور کرخت آواز قرار دیا گیا ہے۔ گاڑیوں کے ہارن بھی کسی نے ضرورت کے لیے ایجاد کیے تھے، مگر آج یہ ضرورت اذیت اور عذاب کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ خاص طور پر پک اینڈ ڈراپ والے ڈرائیور حضرات دوسروں کے آرام کا قطعی خیال نہیں رکھتے اور وقت بے وقت بیماروں، بزرگوں، بچوں اور مطالعہ کرنے والوں کو بری طرح زچ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی جائے تو مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ شور کی آلودگی طرح طرح کے جسمانی، دماغی، نفسیاتی اور روحانی عوارض کا باعث بن رہی ہے۔ مشہور ادیب، شاعر اور کالم نگار عباس اطہر نے بھی مشورہ دیا تھا کہ:
چپ چاپ گزر جا
یہاں ہارن بجانے کی اجازت نہیں

علامہ اقبال نے بھی شور کی اسی آلودگی سے بچنے کے لیے معروف نظم ”ایک آرزو“ لکھ کر شور سے بھاگ کر، کوہ کے دامن میں پناہ لینے کی خواہش کی تھی۔ ہمارے نبی محترم و مکرم نے بھی ارشاد فرمایا تھا کہ ”اس شخص کا اسلام سب سے بہتر ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).