وجیا نگر کا انجام


تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ، کوئی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتا۔ وجیا نگر کا درد ناک انجام اس کی گواہی ہے۔ یوں تو جنگ و جدل سے دنیا کی تاریخ بھری ہے۔ یورپ بیسویں صدی کی دو عظیم جنگیں اور اس کے خوفناک نتائج بھگت چکا لیکن برصغیر پاک و ہند میں ایسی مخلوق بستی ہے کہ اسے کسی انجام سے ڈر نہیں لگتا۔ دونوں طرف سے جنگ کی باتیں یوں کی جاتی ہیں جیسے یہ کوئی کھیل ہے۔

وجیا نگر کے ساتھ بہمنی سلطنت نے وہی کیا جو طاقتور کے ظلم و ستم سے تنگ چھوٹی ریاست کرتی ہے۔ کیا حسن اتفاق ہے کہ وجیا نگر ہندو اور بہمنی سلطنت مسلمان حکمرانوں کے تحت انتہائی طاقتور اور مضبوط ملک تھے۔ دونوں ملکوں میں مذہبی جنگیں نہ تھیں کیوں کہ ہندو مسلم آبادی دونوں طرف مل جل کے رہتی۔ آگے پیچھے بننے والے دونوں ملک صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے، اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے تین سو سال برسر پیکار رہے انھی جنگوں کے باعث دونوں ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ یاد رہے ہندوستان اور پاکستان کو بنے صرف ستر سال ہوئے ہیں۔

سلاطین دہلی کے بعد اور 1526 عیسوی میں بابر کی پانی پت والی جنگ سے پہلے جب چتوڑ، میواڑ اور راجپوتانے کے مضبوط رجواڑے/ ریاستیں رو بہ زوال تھیں وجیا نگر اور بہمنی سلطنت عروج پر تھیں وجیا نگر کے حکمران تخت دہلی پر نظریں جمائے بیٹھے تھے۔

دونوں ریاستیں معدنی دولت سے مالا مال دو آبہ رائے چور میں دریائے ٹنگا بدرا اور دریائے کرشنا کے ذرخیز وسیع و عریض خطے میں واقع تھیں۔ رقبے میں یہ ہمارے ملک سے کئی گنا بڑے علاقے ہیں۔

وجیا نگر کی بنیاد راجا ہری ہرا نے 1336 عیسوی میں رکھی۔ اس علاقے کی تاریخ وہاں قیام پذیر ایک پرتگالی سیاح ڈومنگو پائز Domingo paes اور ایک اطالوی سیاح فر ناؤ نونی Fernao Noni کے مرتب کردہ سفر نامہ ”سلطنت گم گشتہ A Forgotten Empire“ میں اس کے جو حالات درج ہیں، وہ کسی کو ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔

ڈو منگو پائیز کے مطابق ”یہ روم سے بڑا شہر ہے جو باغات اور جھیلوں سے بھرا ہے۔ یہاں ایک لاکھ سے زیادہ محلات نما گھر ہیں“۔ ایک اور پرتگالی سیاح دو آرتے بار بروسا کے مطابق Doarte Barbaros ”وجیا نگر کا بادشاہ خوب صورت محلات میں رہتا ہے۔ جن میں متعدد دربار ہیں۔ اس کے علاوہ امرا کے اپنے دربار ہیں۔ شہر کے تمام گھروں کی چھتیں سبزے سے ڈھکی ہیں گلیاں اور بازار شفاف اور کشادہ ہیں“۔

پندرھویں صدی عیسوی کے عظیم ایرانی مورخ عبدرزاق کہتے ہیں ”وجیا نگر ایک ایسی ریاست تھی جو آنکھ نے دیکھی، نہ کانوں نے سنی۔ زمین پر کوئی ایسی جگہ ہی نہیں جو اس کی مثال ہو۔ پورے شہر میں دریا جھیلیں ندیاں نا لے یوں گذرتے، جیسے پہاڑوں سے برف پگھل کر گذر رہی ہو“۔

عبدالحمید لاہوری بات کو سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں ”یہ شہر فتح ہو ہی نہیں سکتا سوائے یہ کہ زلزلہ یا سیلاب یا قحط یا طاعون اسے تباہ کر دے“۔ ایسے شہر کے بارے میں سو چیے جو پانچ طاقتور ترین ریاستوں کا دار الحکومت ہو، جن کی ترتیب یوں تھی۔

1۔ وجیا نگر۔ جو کیپٹل سٹی اور بڑی ریاست تھی۔
2۔ دیو گیری۔ یادیوز آف دیو گیری (مہا بھارت فیم یادیو)
3۔ مدورائے۔ پانڈو آف مدورائے ( یہ یادیو کے مخالف پانڈو)
4۔ وارنگل۔ کاکاکٹیہ راجپوت لڑاکا جنگ جو قوم
5۔ تلنگانہ۔ نام ہی کافی ہے۔ انگریزوں نے پہلی دیسی فوجی بھرتی یہاں سے کی۔ ان کو دیکھ کر لوگ کہتے تلنگے آ گئے)

ان پانچ ریاستوں کو وجیا نگر کہا جاتا۔ یہ خطرناک اکٹھ ہم سایہ ریاستوں کے لیے خطرناک تھا۔

وجیا نگر کے وجود میں آنے کے گیارہ سال بعد 1347 عیسوی میں نسبتہََ چھوٹی کم زور ریاستوں نے بہمنی سلطنت کے نام پر اتحاد کر لیا۔ اس کا بانی سلطان تغلق کی فوج کا ایک ترک بھگوڑا جرنل علاؤ الدین بہمن شاہ تھا جس نے اپنے نام سے بہمنی سلطنت کی بنیاد رکھی جس میں پانچ ریاستیں درج ذیل ہیں۔

1۔ بیجا پور۔ برید شاہی آف بیجا پور
2۔ احمد نگر۔ نظام شاہی آف احمد نگر (حیدرآباد)
3۔ گولکنڈہ۔ قطب شاہی آف گولکنڈہ (حیدرآباد)
4۔ بیرار۔ عماد شاہی آف بیرار
5۔ بیدر۔ حسن آباد گل برگہ

ان کو دکن شاہیاں کہا جاتا، ان کا اتحاد بہمنی سلطنت کہلایا جو وجیا نگر کے شدت پسند ہندو راجاؤں کے ردعمل میں بنی۔

وجیا نگر کا بانی راجا ہری ہرا اپنی خون آشامی کے لیے مشہور تھا، اس کا بیٹا بکا ریڈی باپ سے چار ہاتھ آگے نکلا۔ ہری ہرا 1356 عیسوی میں مرا اور بکا ریڈی 1377 میں، پھر اس کا بیٹا ہری ہرا دوئم، راج ادھیراج ہوا؛ اس نے سری لنکا پر چڑھائی کر دی قتل عام کی انتہا، دوسری طرف جنوب میں کاندو ویدو اور کونکن تک چڑھ دوڑا 28 سالہ ظلم و ستم کا خاتمہ اس کی موت پر ہوا، تو بیٹوں میں جنگ تخت نشینی بپا ہوئی۔ ان میں سے دیو رایا اول فاتح ہوا اس نے بہمنی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا دوسری طرف کیرالا پر چڑھ دوڑا۔

ایک دوسرے سے جنگوں کا صدیوں پرانا سلسلہ دونوں ریاستوں کو اسی دیو رایا کے پوتے ترملا دیو رایا تک لے آیا اور 1565 عیسوی میں جنگ ٹالی کوٹا میں بہمنی سلطنت کی متحدہ افواج نے وجیا نگر کو برباد کر دیا۔

1567 عیسوی میں جنگ ٹالی کوٹا کے دو سال بعد ایک اطالوی سیاح سیزاری فریدرکی Cesari Frederici وجیا نگر کی تباہی دیکھنے پہنچا۔ اس کا کہنا تھا کہ ”وجیا نگر پوری طرح تباہ نہ تھا، کئی گھر سلامت تھے لیکن خالی، ان میں جنگلی چیتوں اور خون خوار درندوں کا بسیرا تھا“۔

آج ہندوستان وجیا نگر کے ہری ہرا دیو رایا جیسے حکمران کے قبضے میں ہے، جو آنے والے الیکشن کو جیتنے کے لیے بنارس کو وارنسی الہ آباد کو پریا گنج دہلی کو اندرا پرستھا (خوش ونت سنگھ زندہ ہوتا تو ہنستا اس نے اپنے مشہور ناول ”دلی“ میں اس کے نام بدلنے والوں کے انجام لکھے ہیں، دلی دلی ہی رہا نام بدلنے والے نہ رہے) لکھنو کا لکشمن پور آگرہ کا آگیتا پوری احمد آباد کا بھگیا نگر۔ تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے اپنے چہرے جھلس جاتے ہیں۔
وجیا نگر کے انجام میں پاک و ہند کے لیے بہت سبق چھپے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).