خود سے محبت


سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ اپنے آپ کو کیسے ڈھونڈا جائے؟ اپنے سے دوستی کیسے کی جائے؟ اپنے سے تعلق کیسے بنتا ہے؟ میرا خیال ہے یہ سوالات غلط ہیں۔ صحیح سوال یہ ہے کہ آپ کب کیسے اور کہاں کھوگئے؟ اور اپنے سے تعلق کب اور کیسے ٹوٹا؟ اپنا آپ کھوجانے سے کیا مراد لی جائے؟ ذہنی صحت کے محققین کے مطابق اپنے کو کھونے کا عمل ہمارے پیدا ہوتے ہی شرو ع ہو جاتا ہے۔ ہم پیدا ہوتے ہی سیکھ لیتے ہیں کہ اگر ہم کو زندہ رہنا ہے تو دوسروں پر انحصار کرنا ضروری ہے اور ان پر انحصار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں سے ایک خاص قسم کا تعلق لگاؤ اور جڈت قائم کی جائے۔ ایسی جڈت کے لیے ضروری ہے کہ اپنی خوشی اور مرضی کے بجائے دوسروں کی خوشی اور مرضی سے کام کیے جائیں۔ اور ان کے مطابق اپنے کو ڈھال کر ان کا پسندیدہ بنا جائے تاکہ وہ خوش ہوکر ہم سے تعلق لگاؤ یا جدت قائم رکھ سکیں۔

ایسا کرنے میں ہم سب سے پہلے اپنی ماں کو خوش کرنے میں اپنا آپ تبدیل کرتے ہیں۔ جیسے اگر ماں اپنی زندگی میں کسی وجہ سے خوش نہیں تو بچہ ماں کا دکھ بانٹنے کے لیے دکھی ہوجاتا ہے یا اس کو خوش کرنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتا اور اپنے اوپر خوشی طاری کرلیتا ہے۔ اور اپنی ماں سے جڈت کے لیے اپنے جذبات کو پیچھے دھکیلنا دبانا تبدیل کر نا یا کم از کم نظر انداز کرنا سیکھ لیتا ہے۔ جس سے اس کے اپنے ذات کا احترام اپنے پہلے بنیادی تعلق کے لیے قربان ہو جاتا ہے۔

اور پھریہی سبق اور رشتوں اور تعلقات میں دہراتا رہتا ہے۔ جیسے باپ پھر بہن بھائی پھر استاد اور پھر معاشرہ پھر شریک حیات پھر بچے۔ یعنی سب سے جڈت کے لیے ان کی خوشی کے لئے حاضر اور اپنی اصلیت سے دور۔ Compromising Authenticity for Attachment سوائے دوست کے جو کچھ حد تک ہماری اصلیت کی وجہ سے ہی ہمارے قریب آتے ہیں اور اس کو تبدیل کرنے کی کوشش بھی کم ہی کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کی خوشی کے لئے اپنے کو اتنا بدل دیتے ہیں کہ اپنا آپ بھول جاتے اور کھو دیتے ہیں۔ یعنی کہ لوگوں کو خوش کرنے کے چکر میں اپنی اصلیت کھو جاتی ہے۔ اور جب آپ اپنے آپ کو اور اپنی اصلیت کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو ہر جکہ ڈھونڈ تے ہیں سوائے وہاں جہاں آپ نے کھوئی تھی۔ یعنی دوسروں پر انحصار اور اس کے لیے اپنی زیست کی اور اپنی اصلیت کی قربانی۔

اب چونکہ ہم بچے نہیں رہے اور بالغ ہیں تو دوسروں پر اتنا انحصار نہیں کرتے جتنا پہلے کرتے تھے۔ مگر ہم اپنی زندگی اب بھی ان ہی تجربات کی روشنی میں اور ان ہی اسباق کو دوہرا دوہرا کر گزار رہے ہیں ’جو کہ ہم نے زندگی کی ابتدا میں سیکھے تھے۔ چونکہ اب ہم اپنے پر انحصار کر سکتے ہیں تو ہم کودوسروں کے بجائے اپنے سے تعلقات بہتر بنانے چاھئیے۔ ایسے کام کرنے چاھئیے جو ہم کو خوش کریں۔ اپنے کو ڈھونڈنے کا آسان طریقہ اپنے کو خوش کرنے میں ہے۔ اپنے کو خوش کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے ساتھ وہ کریں جو آپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کے لیے کریں۔ جیسے آپ خود اپنے ساتھ وقت گزاریں۔ اپنی خواہشات کا اپنے جذبات کا خود خیال رکھیں۔ اپنے کوخود اہمیت دیں۔ اپنا احترام خود کریں۔ ایسے کام کریں جو آپ کو خوشی دیں۔ جیسے میرے لئے لکھنا۔

ویسے جو ہم اپنے کو تنہا سمجھتے ہیں ’وہ ہم ہیں نہیں۔ ہم دو ہیں۔ ۔ اک جو کر رہا ہے اور دوسرا جو اس کو کرتا دیکھ رہا ہے۔ ایک فاعل دوسرا شاہد۔ اگرہمارے اندر کا فاعل اور شاہد دونوں میں صحتمندانہ تعلق قائم ہوسکے اور وہ ایک دوسرے کو اہمیت اور احترام دیں سکیں۔ ایک دوسرے کے جذبات اور خواہشات کا خیال رکھ سکیں تو ہم دونوں اپنے ساتھ خوش رہ سکتے ہیں۔ اگر شاہد فاعل کو تبدیل کرنے کی نظر سے دیکھنے کے بجائے دوست بن کر دیکھے۔

جو کرنے والا ہے وہ کرتا رہے اور جو دیکھ رہا ہے وہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا رہے۔ تو ہم اپنے کو دوبارہ ڈھونڈنے میں اپنی اصلیت جاننے میں اور اپنے سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہو جائیں گیں۔ ویسے بھی اپنا آپ کھوجانے سے مراد ہمارے اندر فاعل اور شاہد کے درمیان تعلق کا فقدان ہے۔ یا تو شاہد خاموش رہتا ہے یا فاعل کے خواہشات کو نظر انداز کرتے ہوئے ’خوف کی وہی زبان بول کر فاعل کی حوصلہ شکنی کرتا رہتا ہے جو سب بول رہے ہوتے ہیں۔ اور پھر فاعل شاہد کی نصیحت اور تقریر سے تھک کر اس کو سننا چھوڑ دیتا ہے۔ اور دونوں ایک دوسرے سے اجنبی ہوجاتے ہیں اور ہم کھو جاتے ہیں۔

اگر ہمارا بنیادی تعلق جوکہ اپنے آپ سے ہے وہ صحتمندانہ ہو جائے توہم دوسرے تمام تعلقات کو اس ہی تجربے کی بنیاد پر بہتر بناتے چلے جائیں گیں۔ اور ہم دوسروں کی خوشنودی کے لیے اپنے آپ کو تبدیل نہیں کریں گے اور اپنی اصلیت اور زیست کے قریب سے قریب تر ہوتے چلے جائیں گے۔
میری اندر کی فاعلہ نے شاہدہ کے لیے گلدستہ لا نا اور شاہدہ نے فاعلہ سے آئی لوو یو کہنا سیکھ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).