داد کا تو حق بنتا ہے


منظر کیا تھا بس چہارسو ادائے دلبرانہ، حسن، پاکیزگی اور عظمت کی آمیزش تھی۔ میں اس منظر کو اگر صرف خوب صورت کہوں تو شاید خود کو کبھی معاف نہ کر پاؤں یا اگر آپ اس کو صرف خوب صورت کہیں گے تو لازمی بات ہے میں آپ کو مورود الزام ٹھہراؤں گا۔ خوب صورت منظر کا سن کر اگرآپ کے ذہن میں اونچے اونچے برفیلے پہاڑ، بہتے دریاؤں کے اُوپر سفید بادلوں کی مسحور کن حرکت، سرسبز وادیاں، جنگلوں کی خاموشی اور اُس میں پرندوں کی چہچہاہٹ، موسم بہار کی رنگینیوں میں ملبوس خوب صورت کلیوں کی خوب صورت مہک، انسانوں کے بلند و بالا قہقہوں میں لپٹی زیست کی بناؤٹی خوشیاں، مصنوعی چیزوں سے پیدا ہونے والے مصنوعی سکون کی جھلک یا سرشام ڈوبتے سورج کے عین سامنے دو دلوں کے تیز دھڑکنوں کا شور آئے تو آپ غلط ہیں۔

میری نگاہیں نہ اُٹھتی تو شاید میں دل موہ لینے والے اس جادوئی منظر سے محروم رہ جاتا جس میں ایک نھنا بچّہ پاکستان پاکستان کی صدائیں لگا رہا تھا۔ میں شاید سامنے موجود جیتے جی اور چلتے پھرتے پاکستان کو نہ دیکھ پاتا لیکن جیسے ہی نگاہوں نے اٹھنے کا حوصلہ کیا میرے سامنے معصومیت بر سر عام ماحول کی رنگینیوں میں صداقت، محبت اور عظمت کا اضافہ کر رہی تھیں۔ صداقت، محبت اور عظمت یہ تینوں جب مل جاتے ہیں، تو انسان کو عام انسان نہیں بلکہ پیکر خاص بنا دیتی ہے۔ یہ تین خصلتیں انسانوں ہی پر جچتی ہیں اور یہاں پر بھی ایک انسان ہی کی وجہ سے اس منظر کی خوب صورتی کو چار چاند لگ رہے تھے۔

وہ عمر میں تو بہت چھوٹا ہے لیکن عادتیں بڑے بڑوں سے بھی بڑی ہیں۔ میں بہت سالوں سے یہی سمجھتا رہا ہوں کہ اچھی عادتیں اور فعالیت کامیابی کے ماتھے کا جھومر ہیں اور آج اپنے سامنے اِن دونوں کو دیکھ کر میں حقیقت میں حیران تھا اور اپنی اس سوچ کو کہ عظیم بننے کے لئے عمر کی قید ضروری ہے محو کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔

آپ اگر پاکستانی ہیں اور حقیقیت میں پاکستان ہی سے محبت رکھتے ہیں تو یقیناً آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں اس منظر میں گیارہ سالہ بچے حماد صافی کو دیکھ رہا تھا جو نہ تو کبھی تھکتا ہے اور نہ حوصلہ ہارتا ہے، بس کھیلنے کودنے کی اس عمر میں صبح شام پاکستان پاکستان کی صدائیں لگا رہا ہے۔

میرے دوست اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیوں میں ایک چھوٹے سے بچے سے اتنا متاثر ہوں تو میرا جواب ہوتا ہے کہ پاکستان ہی وہ واحد وجہ ہے جو مجھے حماد صافی سے متاثر ہونے پر مجبور کر دیتی ہے۔

پاکستان سے محبت اُس کی نس نس میں بھری ہوئی ہے اور اپنی عمر سے بڑے لوگوں کو وہ اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے کہ پاکستان ہی ہمارا وہ واحد سرمایہ ہے جس پر ناز کرکے اور جس سے محبت کرکے ہم دوبارہ فاتح عالم بن سکتے ہیں۔ پاکستان ہمیں کیا دے رہا ہے یہ سوچ کر بڑے بڑے صاحب عقل لوگ گلوں شکوں کا ایک انبار لگا دیتے ہیں لیکن ہم پاکستان کو کیا دے رہے ہیں اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔

یہاں سیاستدانوں سے لے کر ایک عام کلرک تک ہر ایک اس سوال کا جواب ہمیشہ ٹالتا ہی رہے گا، کیوں کہ ہمارے پاس پاکستان کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں۔ ہم دے بھی کیا سکتے ہیں محبت کے سوا اور اُس میں بھی الفاظ کی ایسی کنجوسی کہ اللہ معافی دیں۔

میں حماد صافی سے بہت دفعہ ملا ہوں اور جب بھی ملتا ہوں ایسا لگتا ہے، جیسے یہ بچہ ابھی ابھی اچانک کھیل کود سے فارغ ہو کر آیا ہے، لیکن یہ دیکھ کر میری حیرانی کی انتہا نہیں رہتی، کہ جب وہ بولنا شروع کردیتا ہے، تو ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے کوئی بزرگ اپنی پوری زندگی کے تجربات اور حوادث کا تذکرہ کر رہا ہو۔ وہ جب بھی بولتا ہے تو پاکستان کے بارے میں بولتا ہے اور بولتے وقت اتنا جذباتی ہو جاتا ہے کہ چہرے کے اتار چڑھاؤ میں واضح فرق آ جاتا ہے۔

میں پچھلے دنوں حماد کے مینٹر اور ٹیچرز سے ملا تو یہ سن کر میرے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں بمشکل ہی اسے صرف چھہ گھنٹے آرام اور کھانے پینے کے لئے ملتے ہیں باقی اٹھارہ گھنٹے کام کام اور بس کام۔

اسلام آباد میں اس کے ٹیچر مجھے بتا رہے تھے کہ سات دنوں میں سترہ سیشنز کے لئے یہ پورے پاکستان گھوم آیا ہے تو میرے ذہن کی انگڑائیوں نے ایک بھر پور سوال داغا۔ کیا حماد تھکتا نہیں؟

جواب آیا ”حماد پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کی جب بات آتی ہے، تو وہ آرام اور آسائشوں کو بھول جاتا ہے۔“

ہم میں کتنے ہیں جو کھلے عام پاکستان سے محبت کا بناؤٹی ہی سہی لیکن اظہار کرتے ہیں۔ ہم تو نجی محفلوں میں پاکستان سے جان چھڑانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہماری تاریخ سلطنت بابل کی طرح قدیم نہیں اسی لئے ہم یاد کر سکتے ہیں، کہ کتنے پاکستان کے حکمران آئے جنھوں نے اس ملک کی بقا کا سوچا۔ اگر سوچا ہوتا تو آج ہم یوں ڈگمگاتے نہ چلتے۔ حکمران مشکوک لگ رہے ہیں، ادارے چلانے والے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں اور نوجوانوں کو فرصت نہیں مل رہی، ایسے میں گیارہ سال کا یہ بچّہ اگر ہر فورم پر پاکستان کی بقا کی بات کرتا ہے تو کم از کم داد کا تو حق بنتا ہے۔

پاکستان سے محبت کے علاوہ جو سب سے اہم چیز جس نے مجھے متاثر کیا وہ اقبال سے انتہا کی حد تک اس کی عقیدت ہے۔ اقبالیات پر ملکہ حاصل کرنے کے لئے ایک پوری زندگی درکار ہوتی ہے لیکن گیارہ سال کے اس بچے نے اقبالیات پر اپنی گرفت اتنی مضبوط کی ہے کہ سنتے وقت انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ہم میں سے کتنے تعلیم یافتہ اور پی ایچ ڈی اسکالرز ہیں جو سیرت اقبال اور اقبالیات سے واقف ہیں؟ کیا اقبال اُس تاریک دور میں رحمت خداوندی نہیں تھے جس میں مغل سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور مسلمان سر چھپانے کے لئے در در کی خاک چھان رہے تھے لیکن ایسے میں اقبال کا قلم اور اُس کی سوچ آئی اور پھر ہمیں پاکستان جیسی رحمت نصیب ہوئی۔ ہمارے ارباب اختیار، اساتذہ اور تعلیم یافتہ طبقہ تو یہ کہہ کر جان چھڑالیتے ہیں کہ اقبال کا زمانہ نہیں رہا لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان اور اقبال لازم ملزوم ہیں۔

حماد صافی کے بارے میں چہ میگوئیاں بہت ہوتی رہتی ہیں اور بعض تو ایسے بھی مل جاتے ہیں جو ایسی ایسی باتیں جڑ دیتے ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانا مجبوری بن جاتی ہے۔ میں حماد پر کالم لکھنے پر مجبور اس لئے ہوا، تا کہ نئے دور کے نوجوانوں کو میرا یہ پیغام ملے کہ حماد کی طاقت یہی دو چیزیں ہیں پاکستان اور اقبال۔

نوجوان بھی اگر اقبال کو پڑھنا اور سمجھنا شروع کر دیں، تو پاکستان سے عقیدت اور محبت خود بہ خود شروع ہوجائے گی اور پھر کامیابی صرف تصوراتی شے نہیں رہے گی بلکہ حقیقیت کا روپ دھار لے گی۔

گیارہ سالہ اس بچے کو پاکستانی قوم سے اور کچھ نہیں چاہیے، بس پاکستان کے لئے کچھ کر گذرنے کا وعدہ چاہیے۔ خورشید ندیم صاحب کی ایک خوب صورت بات میں کبھی بھی نہیں بھلا سکتا، کہ بڑے لوگ اپنے عہد میں نہیں بلکہ تاریخ میں جینا چاہتے ہیں، اور حماد صافی کو دیکھ کر بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ تاریخ میں جینا چاہتے ہیں۔

ہم اس ننّھے فرشتے کو اور کچھ نہیں دے سکتے، بس شاباش ہی وہ لفظ ہے جس کی وجہ سے ہم اپنا حق ادا کرسکتے ہیں۔ ہم اتنے تنگ نظر تو نہیں بن سکتے، کیوں کہ تنگ نظری تو دشمنوں سے روا رکھی جاتی ہے اور ہمارا حماد تو پاکستان پاکستان کہہ کر ہمارے لئے فخر کا باعث بن رہا ہے۔ ہمیں داد دینی پڑے گی، کیوں کہ تاریخ کے چبھتے سوالات کا جواب دینے کی ہماری ویسے بھی طاقت نہیں اور اگر ہم یہاں بھی گو مہ گو کا شکار ہوئے تو پاکستان جوسب کچھ دیکھ رہا ہے، یقیناً ناراض بھی ہو گا اور ہمیں کبھی معاف بھی نہیں کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).