مسلم لیگ ن کو کیا کرنا چاہیے


تو کیا مسلم لیگ ن اور اس کی قیادت نے سایسی عمل سے باہر رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جس طرح کے بیانات نواز شریف دے رہے ہیں کیا وہ شکست کا اعلا ن ہے، اگر مسلم لیگ ن کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کی اپنی غلطیاں اسے غیر مقبول بنا دیں گی تو جناب حکومت تو لٹھ لے کر اپنے ہی پیچھے پڑی ہی ہوئی ہے لیکن حکومت کی غلطیوں کا فائدہ مسلم لیگ ن کو کیسے ہو گا۔ اگر مسلم لیگ ن اسی طرح خاموش بیٹھی رہی تو خالی جگہ پر تو ہونی ہے، یہ فطری بات ہے۔ اگر نواز شریف نہی تو کوئی اور۔ یہ تو ہونا ہی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ میاں صاحب کو اس پر دو ٹوک بات کرنی چاھیے کہ وہ کیوں خاموش ہیں، ایک بہت بڑی تعداد کارکنوں کی ایسی ہے جو پچھلے کچھ عرصہ میں میاں صاحب کے بیانئیے کی وجہ سے اپنے ارد گرد موجود اپنے دوستوں تک سے ذاتی مخالفت شروع کر چکے ہیں، سایسی کارکنوں کے اس ریوڑ کو گلہ بان چاہیے اور وہ زیادہ دیر تک قیادت کے بغیر نہیں چل سکیں گے

اور لازمی طور پر کوئی بھی اس بیانئیے یا کوئی اور بیانئیے کے ساتھ آیا تو یہ سارا ریوڑ اس طرف چلا جائے گا کیونکہ لامحالہ انہوں نے اینٹی عمران سائیڈ، پر ہی جانا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ن کے کارپرداز الیکشن کے بعد کی صورتِ حال میں پارٹی پر توجہ کرتے، ایسا نہ کرنے کا نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ سوشل میڈیا میں مسلم لیگ ن کی سپورٹ میں کمی آئی میں ایسے بہت سارے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کو جانتا ہوں جو بڑے موثر طریقے سے پارٹی کہ دفاع کرتے تھے وہ آج کل خاموش ہیں اور مرکزی قیادت کی خاموشی مزید کارکنوں کو مایوس کر دے گی۔

یہ درست ہے کہ حالات کافی سخت ہیں اور جو بھی مسلم لیگ ن کے دفاع کے لیے آگے آتا ہے اس کے اثاثوں کی چھان بین شروع ہو جاتی ہے اب تازہ ترین شکار مریم اورنگزیب صاحبہ ہیں اور خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی گرفتاریوں کا۔ تعلق بھی ’وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے‘ والی تقریر کے ساتھ ہے۔

تاہم خاموشی اس مسلے کا حل نہیں ہے۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے پارٹی کی تنظیم نو کی جائے اور نچلی سطح پر تنظیم سازی پر توجہ دے کر کارکنوں کو عہدے دے کر متحرک کیا جائے، 28 جولائی کے فیصلے کے بعد جو بیانیہ میاں صاحب نے دیا اس کو بڑے لیول پر پذیرائی ملی اور عوام ان کے ساتھ کھڑے ہوئے پھر ہم نے دیکھا کہ جلسے میاں صاحب کے ہوں یا مریم نواز صاحبہ کے سوشل میڈیا کنونشن عوام نے بھر پور ساتھ دیا۔ لیکن یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اس وقت حکومت بھی مسلم لیگ ن کی تھی۔

اب حالات ہر طرح سے مخالف ہیں، اور اگر کوئی تحریک شروع کرنا پڑی تو موجودہ صورتِ حال کے مطابق پارٹی کے لیے تحریک چلانا بہت مشکل ہو جائے گا اب پارٹی کا کوئی رہنما بھی متحرک نہیں ہے، لے دے کے ایک مریم اورنگزیب صاحبہ ہی ہیں اب وہ بھی لگتا ہے نیب کی زد میں آنے والی ہیں۔

اگر تو میاں صاحب نے سیاست پر تین حرف بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر تو ٹھیک ہے ایسے ہی بیان دیتے رہیں لیکن یہ بظاہر کوئے صحیح فیصلہ نہیں لگتا، ان کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ ان کی سیاست کی وجہ سے ہی بنایا جا رہا ہے اور اسی سیاست نے ان کو اس مشکل دور سے نکالنا بھی ہے۔ حکومت کے اللے تللوں سے لگتا ہے کہ مہربان زیادہ دیر اپنی مہربانی جاری نہیں رکھ سکیں گے، اور آپ کی خاموشی کی وجہ سے کوئی اور ہہ خلا پر نہ کر لے۔

پارٹی تنظیم سازی اس وقت بہت ضروری ہے۔ اس پر توجہ دیجیے۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور سوشل میڈیا پر توجہ کیجیے۔ مسلم لیگ ن نے حکومت کے سو دن پورے ہونے پر وایئٹ پیپر شایع کیا لیکن اس کو میڈیا میں اتنی پذیرائی نہ مل سکی۔ حد تو یہ ہے کہ وہ کالم نویس بھی جو واضح طور پر مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑے ہیں وہ بھی موجودہ حالات پر لکھنے کی بجائے اپنی یاداشتوں پر کالم لکھ رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال فوری توجہ چاہتی ہے اور سنجیدگی کے ساتھ پارٹی پر توجہ دینی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).