بچوں کا مستقبل تباہ کرنے والے استاد


ہمارے معاشروں کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جہلاء کی ایک ایسی کھیپ پائی جاتی ہے جو نہ تو خود ترقی کے سیڑھیاں چڑھتے ہیں نہ دوسروں کو زینے چڑھنے دیتے ہیں۔ یہ ایسا ایک کمبخت طبقہ ہے جو صرف ایک قدم آگے کا سوچتے ہیں، اور دو قدم پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ان کو سمجھنے یا سمجھانے میں زندگی گزر جاتی ہے لیکن کچھ ہاتھ نہیں آتا، حیرت اور افسوس کی انتہا نہیں رہتی جب میں ان لوگوں کا رویہ، عمل اور کردار دیکھتا ہوں۔

یوں تو ملک بھر میں ایسے منفی کرداروں کی کمی نہیں ہے مگر بالخصوص ہمارے علاقوں (منگورہ، بحرین، کالام) ان موذی ذہنی مریضوں کی زد میں ہیں۔ ان کا عمل یہ ہے کہ علم و ادب، تہذیب و شائستگی اور ترقی و تمدن کے سلیقوں سے جینے کے بجائے بیہودگی، ناکاری، اور بدتہذیبی کو زندگی کا رنگ سمجھ کر معاشرے کے ہر اس شخص کے پیچھے دشنام، طنز و تفنگ کے توپیں لئے پڑ جاتے ہیں جو زندگی کو ایک ڈسپلن اور سلیقے سے جینے کی خواہش رکھتا ہو اور علم و عمل پر یقین رکھتا ہے۔

ایسوں کی یہ لوگ زندگی اتنی تنگ کر دیتے ہیں کہ بعض اوقات اچھے با عمل اور باکردار لوگوں سے جینے کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے اور زندگی میں آگے بڑھنے، کچھ کر دکھانے کی امنگ ہی ختم ہوجاتی ہے۔ یہ اپنے منفی رجحان کو پورے سماج پر نافذ کرنے کے لئے بسا اوقات فساد پھیلانے تک بھی جاتے ہیں۔ معاشرے کی رگ رگ میں مایوسی، انتشار، شکوک اور شدت کی لہریں دوڑاتے ہیں۔ یہ لوگ حسد اور بغض کے سوا کچھ بھی نہیں کرسکتے اور نہ کرنا چاہتے ہیں۔

یہ زندگی خدا کی نعمت ہے۔ خدارا کسی سے بھی اس عظیم نعمت کو چھیننے کی ہرگز کوشش نہ کریں زندگی ایک بار ملتی ہے، بار بار کی زندگی فلموں کی دنیا میں ہوتی ہے حقیقی زندگی میں سب کے ساتھ اچھے برتاؤ اور اعلیٰ اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ یہ کینہ، حسد، بغض انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتے، انسان کے جذبات کا احساس رکھیں۔ اچھا عمل کریں، اچھی زندگی جئیں اور دوسروں کو بھی ڈھنگ سے جینے دیجئے۔

سب انسانوں کو کچھ نہ کچھ کر دکھانے کے مواقع فراہم کرنے چاہیے نہ کہ ایک دوسرے کو گرانے اور ایک دوسرے کے پیٹ پیچھے سازشیں پھیلانا چاہیے، کسی کو اس قدر شاکڈ نہ کریں کہ اسے اپنی زندگی بوجھ لگنے لگے، اور وہ مایوسیوں کی اتھاہ گھڑوں میں گر کر علم و تعلیم اور ہنر سے محروم ہوکر اپنا مستقبل محنت مزدوری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ اور بدقسمتی سے اس میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے چند نام نہاد اساتذہ کا بھی ہے کیونکہ وہ سکولوں میں صرف ذہین بچوں پر فوکس کرتے ہیں اور کمزور بچوں کو مایوس کن مشورے دے کر ان منزل کھوٹی کر دیتے ہیں۔

میں کوئی انہونی باتیں نہیں کر رہا بلکہ میرے ساتھ جو ہوا وہی قلم بند کر رہا ہوں ”جب میں آٹھویں کلاس میں تھا تب ہمارے کلاس میں ایک لڑکا ہوا کرتا تھا جو ہم سے عمر میں بڑا تھا۔ بیچارے نے داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی۔ ایک بار ہمارے ایک نام نہاد استاد نے کسی بات پر طیش میں آکر اسے کہا اپنی اس داڑھی کو دیکھو اور ان بچوں کے درمیان بیٹھ کر سبق پڑھنا دیکھو، اگر کچھ شرم رکھتے ہو تو ایسا کرو سکول چھوڑ دو۔ پھر کیا تھا! دوسرے دن اس نے کسی سٹوڈنٹ کے زبانی جواب بھیج دیا کہ فلاں استاد کو کہو میرا سکول آج سے ختم۔ اور یوں بیچارے کا تعلیمی مستقبل تباہ ہوگیا۔

اللہ کا واسطہ دیتا ہوں ان ظالمانہ حرکتوں سے باز آجائیں۔ میں نام ظاہر کرنا مناسب نہیں سمجھتا مگر جنہوں نے میری دل آزاری کی ہے دست بستہ ہوکر التجاء کرتا ہوں کہ مجھے مایوس نہ کریں۔ خدارا میرا کیرئیر تباہ نہ کریں، اس سے آپ کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا مگر میں جو زندگی میں کچھ کرنے کا عزم رکھتا ہوں آپ کیوں مجھے اس سے محروم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).