انڈے اور کٹے


ٹھنڈے دسمبر میں وزیراعظم عمران خان کا انڈوں اور مرغیوں کا آئیڈیا بہت ہی ہٹ جارہا ہے۔ سوشل میڈیا بھی گرم انڈوں اور مرغیوں کی تعریفوں اور ”جگتوں“ سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے جبکہ حد تو یہ ہوئی ہے کہ اراکین پارلیمنٹ بھاری مقدار میں انڈے پارلیمنٹ کے اندر لے جاتے ہوئے پکڑے گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر سے تین درجن انڈے جبکہ تحریک انصاف کے ایم این اے افضل ڈھانڈلہ سے 10 درجن انڈے پکڑے گئے ہیں بتایا جارہا ہے کہ قومی اسمبلی کے اندر فریقین ایک دوسرے پر انڈوں کی کارپٹ بمباری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔

مسلم لیگ (ن) کے اراکین قومی اسمبلی میں انڈے لے جا کر یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کرسکتے تھے کہ پارلیمنٹ کی سکیورٹی بہت ہی کمزور ہے اور اگر انڈے اندر جاسکتے ہیں تو ”بارودی انڈے“ بھی اندر لے جائے جا سکتے ہیں۔ تاہم پولیس کی بروقت کارروائی نے حکومت اور اپوزیشن کے ارادے خاک میں ملا کر سکیورٹی سخت ہونے کا ثبوت دیا ہے حالانکہ یہ سکیورٹی اگر مزید معمولی سی بھی سخت ہوتی تو انڈے ٹوٹ بھی سکتے تھے۔ دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے اراکین سے انڈوں کی برآمدگی ریڈ زون میں انڈوں کی آمدوفت کے لئے بھی مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ ریڈ زون میں پارلیمنٹ کے علاوہ ایوان صدر، سپریم کورٹ، پاک سیکرٹریٹ اوروزیراعظم سیکرٹریٹ سمیت وزارت خارجہ اور بیسوں اہم دفاتر اور سفارتخانے موجود ہیں لہذا کوئی بھی دل جلا کر کسی بھی وقت اپنی ناپسندیدہ ترین شخصیت کو انڈوں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس لئے اب انڈوں سے بھری کوئی بھی گاڑی ریڈ زون میں داخلے سے پہلے ماڈل پولیس کی ماہرانہ تفتیش کا شکار ضرور ہوگی اور ایک طرح سے وفاقی پولیس کو مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے اراکین کے درمیان ہونیوالی ”انڈہ لڑائی“ سے فائدہ بھی ہوا ہے کیونکہ انڈوں سے بھری کسی بھی گاڑی کو پولیس پارلیمنٹ پر حملے کی کوشش قرار دے کر دسمبر، جنوری اور فروری تک کے لئے سردی کا توڑ تلاش کرسکتی ہے۔ وفاقی پولیس کوتھوڑا ہوشیار بھی رہنا پڑے گا، انڈوں سے بھری گاڑیوں پر ”انڈہ ٹیکس“ لگانے سے پہلے ہر ناکے پر ایک ماہر کانسٹیبل بھی تعینات کروالیں جو انڈے ہاتھ میں پکڑ کر فوری بتا سکے گا کہ یہ گندے ہیں یا صاف ہیں۔

عمران خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ جو بھی بات کرتے ہیں اسے شہرت کی بلندیاں نصیب ہوجاتی ہیں۔ یوٹرن پہلے ہمارے ہاں گالی کی حیثیت رکھتا تھا لیکن اب مہاتیر محمد جیسے قدر آور لیڈر کو بھی یوٹرن کے حق میں بولنا پڑ گیا ہے اور انہوں نے بھی تصدیق کی ہے کہ یوٹرن لینا عقل مندی ہوتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ”مرغی انڈے ویژن“ کا فی الحال مذاق اڑایا جارہا ہے حالانکہ پنجاب میں اپوزیشن لیڈر میاں حمزہ شہباز اسی کاروبار کے ذریعے اربوں روپے کما رہے ہیں۔ پنجاب میں جب خادم اعلیٰ کی حکومت تھی تو اس دوران مرغیوں اور انڈوں کی ”سٹاک ایکسچینج“ انہی کی خادم ہوا کرتی تھی۔

پولٹری سے وابستہ چھوٹے سرمایہ کار ایک ہی دن میں جمع پونجی لٹا بیٹھتے تھے اس کے علاوہ ”کٹوں“ اور ”بچھڑوں“ کا کاروبار بھی میاں حمزہ شہباز شریف کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کی لائیو سٹاک پالیسی کے پنجابی ترجمے کا مذاق اڑایا گیا ہے حالانکہ بڑے بڑے سرمایہ دار اور زمیندار اس کاروبار سے وابستہ ہیں البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ عمران خان وقت بے وقت ”کٹا“ کھولنے میں بھی بلند مقام رکھتے ہیں۔

آج کل سو روزہ کارکردگی کا کٹا بھی عمران خان کا ازخود کھولا ہوا ہے جس طرح چیف جسٹس آف پاکستان انصاف کی تیز فراہمی کے لئے ازخود نوٹس لیتے ہیں اسی طرح قومی سیاست پر نیا ایشو پیدا کرنے کے لئے وزیراعظم عمران خان ازخود کٹا کھولتے ہیں۔ حکومت میں شامل تمام وزراء اور مشیر حتیٰ کہ اپوزیشن پارٹیاں بھی پکار رہی ہیں کہ کسی بھی حکومت کی کارکردگی جانچنے کے لئے سو دن کی حد بہت کم ہے سو دن کی حد تک کسی ملزم کے خلاف ”حد“ مقرر کرنے کے لئے بھی کم ہوتی ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان نے سو روزہ کارکردگی کا ”کٹا“ کھول کر پوری کابینہ کے لئے ایک ایسی حد مقرر کردی ہے جس کے بعد سارے وزراء اور مشیر اب عوامی نمائندے کم ”ملزم“ زیادہ محسوس ہونے لگے ہیں۔

اسی طرح وزیراعظم نے وزراء کی تبدیلی اور مڈٹرم الیکشن کا کٹا کھول کر بھی سیاسی صفوں میں پریشانی پیدا کررکھی ہے۔ وزیراعظم کے دباؤ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے وزیر خزانہ اسد عمر کو ہٹائے جانے کی خبریں آئیں اور پھر شیخ رشید نے بھی وزیراعظم کی پیشکش سے پردہ ہٹا کر نیا کٹا کھول دیا۔ اگرچہ کابینہ کے 9 گھنٹے طویل اجلاس کے بعد یہ تمام کٹے باندھے جاچکے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان یا ان کا کوئی وزیر مشیر نیا کٹا کسی بھی وقت کھول سکتا ہے۔ ویسے بھی وزیراعظم نے کہا ہے کہ ہم کٹے کو کمزور نہیں رہنے دیں گے اور زمینداروں کو سہولتیں دیں گے تاکہ کٹے مضبوط ہوکر اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں۔

وزیراعظم نے اپنی وضاحت میں یہ بھی کہا کہ میری مراد بھینس کے کٹوں سے ہے ”ڑیلو کٹوں“ سے نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو ایک طرف بھینس کے کٹوں کو مضبوط کرنے کی فکر لاحق ہے جبکہ دوسری طرف بیورو کریسی میں موجود ”ڑیلو کٹوں“ نے بھی وزیراعظم اور ان کی حکومتوں کو پریشان کیا ہوا ہے۔ جو گزشتہ دس سال تک مسلم لیگ (ن) کی چھتری تلے سرکاری بھینس کا دودھ پی پی کر ”ہٹے کٹے“ ہوچکے ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت میں وہ پیٹ پر پتھر باندھنے کو تیار نہیں ہیں اسی لئے وہ بھی نت نیا کٹا کھول کر پی ٹی آئی کی حکومت کو پریشان کیے رکھتے ہیں۔

بہرحال عمران خان نے مرغی انڈوں اور کٹوں کی بات نیک نیتی سے کی ہے پی ٹی آئی والے اس کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والے اس سے ”دل پشوری“ کررہے ہیں۔ عمران خان کے انڈوں والے ویژن کا کمال یہ ہے کہ درجنوں انڈے کمال ہوشیاری سے پارلیمنٹ کے اندر پہنچانے کی کوششیں ہورہی ہیں حالانکہ کسی بندے کو مارنے کے لئے انڈوں کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ بندہ تو بات سے ہی مر جاتا ہے البتہ اراکین پارلیمنٹ اس معقولے سے مستثنیٰ ہیں۔

گزشتہ ایک ماہ میں وزیراعظم عمران خان کے ”یوٹرن پسند“ بیانات پر شاعروں نے خوب جوڑ توڑ کی شاعری کی ہے ان کے چند اشعار قارئین کی نظر ہیں۔

”دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے میرے گھر میں یوٹرن بنا لئے ”

ایک اور شاعر نے اس طرح طبع آزمائی کی ہے۔
”اپنی باتوں پہ وہ قائم نہیں رہتا تابش
اسکی ہر بات کو یوٹرن ہی سمجھا جائے ”

ایک اور دل جلے نے دل کی بھڑاس اس طرح سے نکالی ہے۔
”کرسی کی محبت میں اِن آشفتہ سروں نے
وہ یوٹرن بھی مارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے ”۔

ایک اورشاعر کا کہنا ہے کہ
”یوٹرن سے دوستی اچھی نہیں عمران
سو دن کی حکومت ہے کچھ تو خیال کر ”
اسی طرح مرغیوں اور انڈوں کو بھی سوشل میڈیا پر شاعروں نے تختہ مشق بنایا ہے۔ یہ شاعری بھی قارئین کو آئندہ کسی کالم میں پیش کی جائے گی۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat