مودی سرکار کو ریاستی انتخابات میں تین بار طلاق!!!


یہ وہ جملہ ہے‘ جس کے ذریعے نامور بھارتی دانشور اور کانگریسی سیاستدان ششی تھرور نے ایک ٹویٹ کے ذریعے حالیہ ریاستی انتخابات کا احاطہ کیا ہے اور ظاہر ہے‘ اس جملے کے کئی سیاسی اور مذہبی پہلو ہیں‘ جن کو سامنے رکھتے ہوئے تھرور صاحب نے طنزیہ انداز میں یہ تبصرہ فرمایا۔ پانچ ریاستوں میں ہوئے مرحلہ وار انتخابات کے نتائج بھی اس جملے کی تصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ہندوتوا کے تابع جارح مزاج مودی کے نعرے جنتا کو متاثر نہ کر سکے۔ انتخابی مہم کے ہنگام جہاں کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتیں اپنے اپنے ایجنڈے کی ترویج اور تعمیر و ترقی کے پلان عوام کے سامنے رکھ رہی تھیں‘ وہیں بے جی پی روایتی نعرہ بازی اور مذہبی زاویے پر ہی انحصار کئے ہوئے تھی۔

مدھیا پردیش اور راجستھان میں انتخابی لطائف میں بی جے پی کے حوالے سے ایک لطیفہ یہ بھی تھا کہ ہمارے پاس رام مندر کا خواب ہے۔ تمہارے پاس کیا ہے؟ جواب میں جنتا نے خواب کی بجائے حقیقت کا ادراک کر لیا۔ بھارتی سیاسی پنڈتوں کے مطابق یہ سلسلہ یہاں رکنے والا نہیں‘ بلکہ چند ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں مودی سرکار کا زوال نوشتہ دیوار ہے۔ بھارتی سینا پتی کو بھی نوید ہو کہ اب کی بار ان کے ہاں جنتا نے ہٹ دھرمی کی بجائے سیکولر جماعت کو پسند کیا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ حالیہ ریاستی انتخابات پانچ ایسی ریاستوں میں ہوئے ہیں‘ جو بھارت کے طول و عرض میں مختلف جغرافیائی مقامات پر واقع ہیں۔ وسطی بھارت کی قدیم ریاست مدھیا پردیش حکمران بے جی پی کے لئے بھیانک خواب ثابت ہوئی ہے۔ یہاں دونوں جماعتوں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ آخری لمحات تک کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کرسکی ‘لیکن پھر رات گئے کانگریس نے میدان مار لیا۔

مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی یہاں چند ایک سیٹوں کے باوجود اہم رہی ہے‘ لیکن اب کے بار اس کے حصے میں بھی محض دو سیٹیں آئیں ہیں۔ مایا وتی اور پانچ آزاد امیدواروں نے کانگریسی حمایت میں رنگ بدل لئے ہیں۔ بھارتیا جنتا پارٹی کو چھپن سیٹوں کے خسارے کے ساتھ ایک سو نو سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کانگریس یہی چھپن سیٹیں اپنے ووٹ بنک میں ڈالتے ہوئے مجموعی طور پر ایک سو چودہ سیٹیں لے کر سر فہرست ہے۔

یہاں حکومت سازی کیلئے دو سو تیس کے ایوان میں ایک سو سولہ کا مجموعہ درکار ہے۔ مدھیا پردیش میں بی جے پی کے شیوراج سنگھ چوہان ریکارڈ چوتھی بار وزیر اعلیٰ بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ گزشتہ انتخابات میں بی جے پی نے دو سو تیس میں سے ایک سو پینسٹھ سیٹیں حاصل کیں تھیں۔ اس لحاظ سے یہاں بی جے پی کو خاصا دھچکا لگا ہے۔

اس کے برعکس کانگریس یہاں حیرت انگیز نتائج حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اس ریاست میں مودی جی اور راہول گاندھی بذات خود انتخابی مہم میں شریک ہوئے۔ دونوں نے اپنی عوامی تقاریر میں ایک دوسرے کو خوب لتاڑا ۔ بی جے پی کے نتائج کو دیکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے رہنما عمر عبداللہ بھی خاموش نہ رہ سکے اور ٹویٹ کرتے ہوئے اشاروں میں بی جے پی کے لتے لیتے رہے۔ انہوں نے لکھا کہ مدھیا پردیش میں دیگر لوگ نتائج کو دیکھ کر خاصے خوش ہوئے ہوں گے۔

رہی بات پاکستان کے ساتھ واقع بھارتی ریاست راجستھان کی ‘تو یہاں مودی جی کی پارٹی کو سب سے بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایک سو ننانوے کے ایوان میں بی جے پی نے گزشتہ انتخابات میں واضح اکثریت کے ساتھ ایک سو باسٹھ سیٹیں جیتیں تھیں۔ حالیہ انتخابات میں بی جے پی نواسی کے خسارے کے ساتھ صرف تہتر سیٹیں ہی نکال سکی۔

اکیس سیٹوں تک محدود ہوئی کانگریسی اتحاد نے البتہ یہاں سب کو حیران کر تے ہوئے نواسی مزید سیٹیں جیت کر مجموعہ سو تک لا کھڑا کیا ہے۔ یہاں حکومت سازی کیلئے سو سیٹیں درکار ہوتی ہی ‘لہٰذا کانگریسی اتحاد بآسانی حکومت سازی کا عمل مکمل کرلے گا۔

مندروں اور گھنے جنگلات سے بھری وسطی بھارت کی ریاست چھتیس گڑھ کا انتخابی عمل بھی حکمران بے جی پی کیلئے ڈراونا خواب ثابت ہوا۔ یہاں نوے کے ایوان میں کانگریس تن تنہا اڑسٹھ کے مجموعے کیساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔

کانگریس کو حالیہ انتخابا ت میں گزشتہ معرکے کی نسبت انتیس سیٹیں زیادہ ملی ہیں۔ ریاست کے تین بار وزیر اعلیٰ رہنے والے رامن سنگھ اور بی جے پی کو چونتیس سیٹوں کے خسارے کے ساتھ صرف پندرہ سیٹیں ہی مل سکیں۔

ایگزٹ پولز میں یہاں کانٹے کا مقابلوں کی پیش گوئی کی گئی تھی ‘لیکن کانگریس نے پندرہ برسوں بعد صوبے میں واضح اکثریت حاصل کرکے تمام سیاسی پنڈتوں کو حیران کر دیا۔ یہاں مایا وتی کی بہوجن سماج پارٹی نے کانگریسی باغی اجیت جوگی کیساتھ اتحاد انتخابی اتحاد کیا تھا ‘لیکن یہ اتحاد بھی کانگریس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا۔

آٹھ اضلاع پر مشتمل شمالی بھارت کی نسبتاً چھوٹی ریاست میزورام؛ البتہ کانگریس کے لئے زور کا جھٹکا ثابت ہوئی۔یہاں کانگریس مسلسل تیسری بار حکومت بنانے کیلئے پر تول رہی تھی‘ لیکن پانچ بار ریاست کے وزیر اعلیٰ رہنے والی کانگریسی رہنما لال تھا۔ان کو دونوں نشستوں پر اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

ریاست کی مجموعی طور پر چالیس صوبائی نشستوں پر کانگریس نے پچھلے انتخابات میں چونتیس سیٹیں جیت کر حکومت بنائی تھی۔ اس بار وفاق میں بی جے پی کی حامی میزو نیشنل فرنٹ نے کانگریس کو مکمل طور پر پچھاڑ دیا ہے۔

دو ہزار تیرہ میں صرف پانچ سیٹیں جیتنے والی ایم این ایف نے حالیہ انتخابات میں مجموعی طور پر چھبیس سیٹیں جیت کر حکومت سازی کے لئے مطلوبہ تعداد پوری کر لی ہے۔ کانگریس کے ہاتھ صرف پانچ سیٹیں ہی لگیں۔ یہاں ایم این ایف چھبیس ‘ کانگریس پانچ ‘ بی جے پی ایک اور دیگر نے آٹھ سیٹیں حاصل کیں ہیں۔

میزورام شمال مشرقی بھار ت میں واحد ریاست تھی‘ جو کانگریسی تصور کی جاتی تھی۔ ادھر جنوبی ریاست تیلنگانہ میں حیدرآباد سے مجلس اتحاد المسلین کے سربراہ اویس الدین ریاستی دارالحکومت حیدرآباد سے مسلسل پانچویں بار جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں‘ اویس الدین نے بی جے پی کے ٹکٹ پر سید شہزادی کو اسی ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ سید شہزادی نے اپنی مہم کے دوران دھواں دار اندازِ تخاطب کے ذریعے اویس الدین اور دیگر کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

تیلنگانہ میں چندرشیکر روا کا اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ بروقت اور مؤثر دکھائی دیا ہے‘ کیونکہ تیلنگانہ راشٹرا سمیتھی نے کانگریس اور چندرابابو نائیڈو کے اتحاد کو یکسر پچھاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ریاست کی مجموعی طور پر ایک سو انیس سیٹوں پر چندراشیکھر کی پارٹی اٹھاسی سیٹیں لے کر بازی لے چکی۔ کانگریسی اتحاد کے حصے میں اکیس اور بے جی پی صرف ایک سیٹ تک محدود ہوئی ہے۔ کانگریسی اتحاد کو سولہ اور بی جے پی کو چار سیٹوں کا خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔ اسی طرح تیلنگانہ راشٹرا سمیتھی کو پچیس سیٹیں اضافی ملی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی نے تیلنگانہ سمیتھی کو انتخابات سے پہلے بار ہا کہا کہ وہ مجلس اتحاد المسلین کی حمایت چھوڑ دے ‘تو اسے بی جے پی کی مکمل حمایت مل سکتی ہے۔ بی جے پی کو ؛البتہ اس بابت کامیابی نہ مل سکی۔

مذکورہ بالا نتائج کو دیکھتے ہوئے ہم یہی کہیں گے کہ ہمارے یہاں تو عوام ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو کئی دہائیاں پہلے مسترد کر چکے‘ جو لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کا نعرہ لگایا کرتی تھیں‘ لیکن بھارتی جنتا کے ہاں یہ شعور دو ہزار اٹھارہ میں مودی جی کی سیوا سے مستفید ہونے کے بعد آیا ہے۔

(بشکریہ روزنامہ دُنیا)

اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami