اگر سنگ میل ہی راستے کا پتھر بن جائے تو؟؟



مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار بیمار پڑے تو بہت سے لوگ عیادت کو آئے۔ ان میں ایک صاحب ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ مشورہ نہیں دیا کہ فلاں ڈاکٹر کو ضرور دکھائیے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہم دوسروں کے معاملات میں کس فراخ دلی سے دخل انداز ہوتے ہیں؟

بچے کوفلاں اسکول میں داخل کرائیے۔مکان فلاں آبادی میں تعمیر کیجئے۔ نقشہ فلاں معمار سے بنوائیے۔ اور اس طرح بنوائیے بیماری کے دوران جتنے مشورے ملتے ہیں ان سب پر عمل کیجیے تو آپ نہایت آسانی سے زندگی کا دورانیہ مختصر کر سکتے ہیں۔

کچھ احباب تو باقاعدہ نسخہ بھی تجویز کریں گے اور اصرار کریں گے کہ اپنے ڈاکٹر کو ایک طرف رکھیے بس یہ استعمال کیجیے۔ ان ہدایات پر عمل کرنے والوں کا حشر بھی دیکھا ہے۔ گائوں سے ایک بزرگ تشریف لائے ایک ڈاکٹر سے ان کے لئے وقت لیا۔ مقررہ وقت پر انہیں وہاں پہنچایا۔

انتظار گاہ میں کسی سے سنا کہ ٹیکسلا میں ایک زبردست حکیم ہے اور چند خوراکوں میں مریض شفا یاب ہو جاتا ہے‘ وہیں سے ٹیکسلا چلے گئے۔ وہاں کسی نے بتایا کہ حسن ابدال میں جو ڈاکٹر فلاں کلینک میں موجود ہے‘ اس کے آگے سب اطبا ہیچ ہیں۔ بزرگ وہاں تشریف لے گئے۔ صحت یاب تو کیا ہوتے‘ اب پیچ در پیچ تکالیف کے انبار تلے دبے ہیں۔

ایک صاحب لندن سے بائی پاس کرا کے آئے۔ اچھے بھلے تھے معمولی بخار ہوا کسی نے ایک گولی کھانے کو دی گولی کا نام تک معلوم نہ تھا۔ ایسا ردعمل ہوا کہ ہولی فیملی ہسپتال میں لائے گئے۔ جہاں جان ‘جان آفریں کے سپرد کر دی! یہاں تک تو پھر بھی ٹھیک ہے مگر معاملہ یہیں تک رہتا نہیں۔

ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ اس دخل اندازی کا سلسلہ مذہب تک جا پہنچتا ہے اور پھر بت پرستی تک! بت صرف اس مجسمے کو نہیں کہتے جو لکڑی یا پتھر یا مٹی یا پلاسٹک سے بنتا ہے۔ ایسے بت کو توڑنا آسان ہے مگر وہ بت جو شخصیات کی صورت میں نہاں خانہ دل میں جاگزیں ہیں‘ مشکل سے ٹوٹتے ہیں ۔اقبال نے انہیں بتانِ وہم و گماں بھی قرار دیا ہے مگر یہ وہم و گماں سے بڑھ کر اور صورتیں بھی اختیار کر لیتے ہیں۔

ایک صاحب تشریف لاتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ دینی رہنما کی تصنیف کردہ تفسیر چھوڑ جاتے ہیں پھر ایک ہفتہ بعد فون کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں پڑھی ہے کہ نہیں؟ ان کا پختہ ایمان ہے کہ چودہ سو برس میں اس سے بہتر تفسیر نہیں لکھی گئی پھر ڈاک میں ایک بھاری پیکٹ موصول ہوتا ہے۔ اس میں ان کے انہی پسندیدہ عالم دین کی تصانیف ہیں جو مفت ارسال کی ہیں۔ ساتھ ہی خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ انہیں پڑھیے!

ان کا اوڑھنا بچھونا اسی عالم دین کا ذکر‘ اس کی تفسیر‘ اس کی تصانیف ‘ اسی کی تقاریر‘ اسی کے ارشادات ہیں۔ اگر کہیں ان کی تقریر ہے تو وہ سو میل دور سے آ کر آپ کو وہاں لے جانے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ ایک اور نوجوان اطلاع دیتا ہے کہ اگر قرآن پاک کی الہامی عظمت سے آشنا ہونا ہے تو فلاں کا ترجمہ اور تفسیر ملاحظہ کیجئے۔ اللہ اللہ! یعنی اب تک قرآن پاک کی الہامی عظمت سے کوئی اور شناساہی نہیں ہوا‘ نہ کر سکا!

کسی کی مجلس میں تفہیم القرآن کے علاوہ کوئی اور کتاب پڑھی جاتی ہے نہ پڑھائی جاتی ہے کسی کے نزدیک مولانا شبیر احمد عثمانی کا ترجمہ ہی قابل اعتبار ہے۔ کسی کی زندگی کا مشن صرف مولانا احمد رضا خان کے ترجمہ قرآن کی تشہیر و تبلیغ ہے: ہر کوئی اپنے حصار میں بند ہے ایک دائرہ اپنے اردگرد کھینچا ہوا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کا سوچنا بھی کفر ہے۔

عقیدت قرآن پاک سے ہے نہ اس پر ایمان!عقیدت ہے تو تفہیم القرآن سے ہے یا بیان القرآن سے یا کنزالایمان سے یا البیان سے یا موضح القرآن سے۔ ایمان بھی اسی تشریح پر ہے جو اس میں بیان ہوئی ہے دستار باندھنی ہے تو اپنے پسندیدہ رہنما کی طرز پر۔ لباس پہننا ہے تو انہی کے انداز میں۔ بیان کرنا ہے تو ان کی نقالی کرتے ہوئے۔

بچے کا نام رکھنا ہے تو وہی رکھیں گے۔ یہ وہ راستے تھے جن پر چل کر منزل تک پہنچنا تھا مگر افسوس! یہی منزل بن گئے۔ آگے بڑھ ہی نہ سکے۔ خود ہی ایک جال بنا‘ پھر خود ہی اس میں پھنس گئے۔ خدا اس کا رسول‘ رسول کی سنت۔ قرآن پاک‘ اس کا پیغام سب پس منظر میں چلے گئے۔

سارے پیش منظر پر اپنے پسندیدہ عالم پسندیدہ رہنما‘ پسندیدہ پیر ‘ پسندیدہ مرشد‘ پسندیدہ مفسر ‘ پسندیدہ تنظیم کے سربراہ کا سراپا چھا گیا۔ تفسیر صرف ان کی‘ تقریر صرف ان کی! تشریح صرف ان کی! تصانیف صرف انہی کی پڑھنی ہیں اور مشن یہ ہے کہ ہر اپنے پرائے کو ان کی کتابیں پڑھوانی ہیں! بچوں کو‘ اہل خانہ کو‘ احباب کو‘ انہی کے حضور لے کر جانا ہے۔

یوں ہی تو متنبہ نہیں کیا گیا کہ ’’ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اور شریک بنا رکھے ہیں جن سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی کہ اللہ سے رکھنی چاہیے اور ایمان والوں کی تو اللہ ہی سے زیادہ محبت ہوتی ہے…‘‘ ذہنی پختگی کو ہم کب پہنچیں گے؟ جذبات اور فریفتگی سے کب رہائی ملے گی؟

کب ہم ایک خاص تفسیر کو‘ ایک خاص رہنما کی تصانیف کو‘ ایک مخصوص گروہ کو محض چراغ راہ قرار دیں گے‘ منزل نہیں سمجھیں گے! سب مفسرین نے ‘سب علما نے ‘سب مشائخ نے ‘اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ سب قابل احترام ہیں۔

ترجمہ یا تفسیر ‘کسی آیت کی ‘ کنز الایمان میں بھی اتنی ہی معتبر ہے جتنی موضح القرآن میں یا تفہیم القرآن میں! ہم کب لوگوں کو یہ کہنا شروع کریں گے کہ بھائی قرآن پاک کو سمجھو‘ خواہ کسی بھی تفسیر کی مدد سے !غلط کوئی بھی نہیں ! ہر زمانے میں ابھرنے والے مسائل کے نکتہ نظر سے علماء کرام نے تفاسیرلکھیں اور اپنا فرض ادا کیا۔

جب برصغیر میں عیسائی مشنریوں کا زور ہوا تو رحمت اللہ کیرانوی صاحب نے اس نقطہ نظر سے خدمات انجام دیں۔ دین سے واجبی واقفیت رکھنے والے جدید اذہان کے لئے تفہیم القرآن لکھی گئی۔

عشق رسول کے نقطہ نظر سے کنزالایمان تصنیف ہوئی۔ حرف آخر کوئی نہیں! یہ سب تو چشمے پر آ کر پیاس بجھانے والے ہیں۔ آتے ہیں چلے جاتے ہیں۔ چشمہ یوں ہی رہے گا۔ اب یہ اپنی اپنی ذہنی سطح ہے کہ چشمے کو چھوڑ کر چشمے سے فیض یاب ہونے والوں کے پیچھے چل پڑیں یہاں تک کہ چشمہ ہی گم کر دیں!!

شخصیت پرستی‘ بت پرستی کی سب سے زیادہ خطرناک شکل ہے اس لئے کہ اس پر مذہب کا لبادہ پڑا ہوا ہوتا ہے! ناصر کاظمی نے کہا تھا: ہزار رستے ہیں اہل دل کے بس ایک منزل ہے بوالہوس کی یہی تو ہے فرق مجھ میں اس میں گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ تبلیغی جماعت میں‘ ساری خامیوں کے باوجود ایک مستحسن بات یہ تھی کہ شخصیات کو اجاگر نہیں کیا جاتا تھا۔ ان کے اجتماعات میں مقررین کا نام تک نہیں بتایا جاتا تھا۔

مگر اب اس جماعت کو بھی ایک محترم شخصیت نے یوں سمجھیے ایک لحاظ سے ہائی جیک ہی کر لیا ہے۔ وہی اس کی شناخت بن گئے ہیں اور سارا تعارف ‘ پہچان‘ سلسلہ‘ دانستہ یا نادانستہ ‘ انہی کے گرد گھوم رہا ہے انہی کی شخصیت انہی کے انداز بیان‘ انہی کے انداز دستار‘ انہی کی نقل و حرکت کو دین سمجھا جا رہا ہیٖ : براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں اقبال کا شعر مشہور تو بہت ہوا ہے مگر کیا ہم اس پر عمل بھی کر رہے ہیں؟؟

بمصطفیٰ برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی ست

(بشکریہ روزنامہ 92)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).