زرد بیج ہوں اور سبز ہونا چاہتا ہوں


ٹوکیو سے ٹورنٹو تک کی یونیورسٹیز میں اعلیٰ ترین سطح پر مکالمہ جاری ہے کہ تیزی سے پھیلتے ٹیکنالوجی کے انقلاب کے اثرات دنیا پر کیا ہوں گے۔ اس بات پر تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ بھاپ کے انجن کی ایجاد کے بعد پرانی معاشی ترتیب کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی، ایک نیا معاشی نظام نمودار ہوا جس کی ضروریات اور جبر سے دنیا بھر کی سلطنتیں اور معاشرے شدید متاثر ہوئے۔ جنگیں تو ہمیشہ سے لڑی جاتی رہیں مگر صنعتی انقلاب کے بعد جس نوعیت کی تباہی انسانوں پر نازل ہوئی ماضی میں اس طرح کی مثال سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔

دنیا میں طاقت کا نظام بدل گیا اور اقتدار کا سرچشمہ سائنسی ایجادات سے پھوٹا۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم، روس اور چین میں برپا ہوئے خونی انقلاب اس حقیقت کی سادہ مگر بھیانک مثالیں ہیں۔ دوسری طرف صنعت کے بطن سے جنم لینے والے اس انقلاب کی وجہ سے روایتی پیشے، ہنر، کاروباری مراکز یا پیسہ کمانے کے طریقے بدل گئے اور اس تبدیلی نے ہر معاشرے کو بے چینی اور خلفشار کا شکار کر دیا۔ پیسہ کمانے کے طور طریقے بدلنے سے دنیا کے معاشروں میں روایتی عزت دار قبائل، خاندان اور افراد کی سماجی حیثیت شدید متاثر ہوئی اور اثر رسوخ صنعت کار لے اڑے۔

ان حقائق پر اتفاق کرتے ہوئے کسی کے لئے ممکن نہیں کہ وہ شدید تبدیلی کی زد میں آئی آج کی دنیا کے حالات اور اس کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نہ ہو۔ بارش کی مانند برستی نت نئی ایجادات اور رنگ برنگے ایپس، پیسہ کمانے کے روایتی طریقوں کو توڑ رہے ہیں اور اس کی شدت ظاہر ہے ان معاشروں میں کہیں زیادہ دیکھی جا رہی ہے جہاں صنعتی ترقی عروج پر تھی اور ہے۔ 1980 اور 90 کی دہائی میں مغرب اور مشرق کے بازاروں اور محلوں میں قائم ویڈیو سنٹر ہوتے تھے، دکانیں وی سی آر نامی ایجاد سے بھری ہوتی تھیں اور فلمیں کرایے پر دستیاب ہوتی تھیں۔

اس ایجاد نے، فلم سٹوڈیوز اور سینما گھروں کے کاروبار کو شدید بحران کا شکار کر دیا، اس حال نے سینما سے جڑے کاروباری حلقوں کو مجبور کر دیا کہ وہ روایتی سینما گھروں کو توڑیں اور جدت کے ساتھ مارکیٹ کا مقابلہ کریں اور ہمارے دیکھتے دیکھتے بحران کی زد میں آئی اس صنعت نے اپنی ساخت میں جوہری تبدیلیاں کیں، اور انہی تبدیلیوں کی وجہ سے وہ آج نئی آب و تاب سے چمک رہے ہیں، پرانے ڈھانچے پر ضد کرتے تو تاریخ کا حصہ بن جاتے۔

ویڈیو سنٹر کی جگہ آج نیٹ فلیکس ہے جس کی شروعات دراصل ڈی وی ڈیز کے کرائے اور فروخت سے ہی ہوئی تھی مگر جب یہ سہولت وہ آن لائن لے کر آ گئے تب سے ترقی کی ایسی سیڑھی چڑھی کہ آج دنیا بھر میں استعمال ہونے والی انٹر نیٹ کی تمام سٹریمنگ، دوبارہ لکھتا ہوں، تمام سٹریمنگ کا پندرہ فیصد صد صرف نیٹ فلیکس کے لئے استعمال ہوتا ہے، یہ ایک کمپنی آج دنیا بھر میں دہائیوں سے قائم پروڈکشن کمپنیوں، ٹی وی نیٹ ورکس کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن کر کھڑی ہو رہی ہے۔

ایما زون اس کے علاؤہ دوسری مثال ہے جس کی بھارت میں ہونے والی پروڈکشن نے وہاں کی مارکیٹ کے ریٹ بدلنے شروع کر دیے ہیں۔ اوبر، دنیا کی سب سے بڑی کیب کمپنی ہے جس کی اپنی ایک گاڑی نہیں۔ گوگل نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو غیر متعلق کر کے ان کا روزگارکھا لیا اور ابھی مزید نگلنا ہے۔ انسٹا گرام اور فیس بک نے دنیا بھر کے ایڈورٹائزنگ سمیت تمام نشریاتی اداروں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے سیاسی منظر میں جاری دنگل دراصل اسی تبدیلی کا سیاسی چہرہ ہے۔

اب ذرا پاکستان کی جانب آئیں، سچی بات ہے کہ باقی دنیا کے ساتھ ہمارا تعلق مجبوری کا ہی ہے ورنہ ہم تو اپنی بسائی ایک خوابی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں، یہاں ہماری اپنی ہی ایک تاریخ ہے اور اپنا ہی حال جس پر ڈگمگاتے ہوئے ہم ایک نیا مستقبل چاہتے ہیں۔ اپنا کوئی تعلق نہ تو صنعتی ایجادات سے تھا اور نہ ہی اس وقت ابھرتی ٹیکنالوجی سے ہمیں کوئی واسطہ ہے، ہم نے صنعتی دور کی ایجادات کو اسلام کے خلاف سازش سے تعبیر کیا، تصویر حرام، ایکسرے حرام، انتقال خون حرام، سپیکر حرام، الٹراساؤنڈ حرام، بچوں کی پیدائش کی پلاننگ حرام، چھاپہ خانہ حرام، حتیٰ کہ سعودی عرب میں تیل نکالنے تک کے لئے عرب قبائلی سردار کھڑے ہو گئے کہ جب قرآن و حدیث میں حجاز مقدس کھود کر تیل نکالنے کا ذکر نہیں تو پھر کافروں کو زمین کھودنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے، مگر تبدیلی کا جبر اتنا وزنی تھا کہ محض چند دہائیوں میں ہمارے قدم اکھڑ گئے اور وقت کے ساتھ سو جوتے کھا کر بادل ناخواستہ ہمیں نئی دنیا کا حصہ بننا پڑا۔

دل چھوٹا نہ کریں کہ جہالت اورجذباتیت پر صرف ہماری اجارہ داری ہی نہیں افریقہ کے کرسچن معاشرے ہندوستان کے ہندو، مشرق بعید کے بدھ مت، سب نے آتی صنعتی طاقت کو روکنے کی بھرپور کوششیں کیں اور منہ کی کھا کر اب سکون میں ہیں۔ ہماری مصیبت مگر کچھ ایسی ہے کہ دنیا کہیں رک نہیں رہی، مشکل سے ہم خود ساختہ حرام اشیا کو حلال بنا کر بیٹھے ہی تھے کہ نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔ ظاہر ہے کہ اس تازہ انقلاب میں اپنا حصہ تو استعمال ہونے یا گاہک بننے تک ہی ہے، نئے دور کی صورت گری میں ہمارا کوئی کردار سرے سے موجود ہی نہیں تو اس کے نتیجے میں آتی تبدیلیوں کی فکر ہم کیا کریں گے۔ نتیجہ صاف ظاہر ہے کہ تبدیلی تو نہ پہلے رکی تھی اور نہ اب رکے گی اور ہم ابھرتے راستوں پر قلابازیاں کھاتے، بددعائیں دیتے، کوسنے دیتے، ادھر ادھر گرتے پڑتے، تبدیلی کے جبر کی ٹھوکریں کھا کر پھسلتے چلے جائیں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2