پیسہ ہی تو بولتا ہے


\"ershad

امریکہ کےساتھ تعلقات کی کشیدگی کا ذمہ دار حسین حقانی کو قرار دے کرمشیر خارجہ سرتاج عزیز نے سب کو چونکا دیا۔ حسین حقانی پریہ کوئی نیا الزام نہیں کہ وہ ملکی مفادات کے خلاف سرگرم ہیں۔ انہیں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں امریکہ میں نہ صرف سفیر کے عہدے سے فارغ کرایا گیا بلکہ پاکستان میں میمو گیٹ سیکنڈل کے حوالے سے ان پرمقدمہ بھی قائم ہوا۔ الزام تھا کہ وہ پاکستان کے سفیر ہونے کے باوجود ملکی مفادات کے خلاف اقدامات کے مرتکب ہوئے۔

فوج کے ترجمان عاصم باوجوہ کا کہنا ہے کہ دنیا نے پاکستان کو دہشت گردوں کے مقابلے کے لیے تنہا چھوڑ دیاہے۔ قبل ازیں ایسے ہی بیانات دیگر سرکردہ سرکاری شخصیات بھی جاری کر چکی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ پاک امریکہ تعلقات میں گہری دراڑ پڑھ چکی ہیں اور اگلے چند ماہ میں واشنگٹن اور اسلام آباد میں کشیدگی بڑنے کےامکانات ہیں۔ حکومت اورعسکری قیادت دونوں مشترکہ طور پر امریکہ کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ ماضی میں بالخصوص پیپلزپارٹی کے عہد میں عسکری لیڈرشپ امریکہ کو آنکھیں دکھاتی تھی تو سویلین لچک دارانہ رویہ رکھتی تھی تاکہ دوستی کی ڈور ٹوٹ نہ جائے۔ اب دونوں کی جانب سے ایک جیسے رویئے کا اظہار کیا جارہاہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک ہی صفحے پر ہیں اور امریکہ کے ساتھ سخت سودا بازی کے موڈ میں بھی ہیں۔ پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی نے بھی اقوام متحدہ میں بلوچستان میں امریکہ ڈرون حملے کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ پاکستان ایسے اقدامات کو برداشت نہیں کرے گا۔

حسین حقانی گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کی خارجی اور داخلی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے دوکتابیں بھی لکھی ہیں لیکن اب واشنگٹن میں ان کے نقطہ نظر کو جو پذیرائی مل رہی ہے یہ محض ان کی ذاتی کامیابی یا قابلیت نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں کارفرما بے شمار دیگر محرکات بھی ہیں جن کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پرالقاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے بعد طالبان کے امیر ملامنصور اختر کا پاکستان میں پایا جانا اور پھر امریکیوں کے ہاتھوں ہلاک ہونا غیرمعمولی واقعات ہیں جن کی کوئی توجہیہ پیش نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس نوع کے واقعات نے پاکستان کے امیج کو زبردست دھچکا لگایااور اسے عالمی سطح پر بے اعتبار کیا۔

حسین حقانی اور ان جیسے پاکستان کے نقادوں کو امریکی نظام حکومت بالخصوص پالیسی بنانے والے اداروں میں زبردست اہمیت حاصل ہے۔ امریکہ کے نظام حکومت اور پالیسی سازی کے عمل میں ہمیشہ سے دانشوروں اور صاحب الرائے افراد کو بہت پذیرائی دی جاتی ہے۔ انہیں کانگریس اور سینیٹ کی کمیٹیوں میں مدعو کیا جاتا ہے جہاں ان کی رائے سنی جاتی ہے۔ چند سال قبل F16 طیاروں کی فروخت پر بھی اس وقت بڑی لے دے ہوئی تھی جب خفیہ اداروں نے انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کی امریکی سفیر کے ساتھ ایک گفتگو مخصوص صحافیوں کو لیک کی، جس میں عاصمہ جہانگیر نے امریکی سفیر سے کہا تھا کہ چونکہ پاکستان میں پرویز مشرف نے مارشل لاء لگارکھا ہے لہذا اسے F16 لڑاکا طیا رے نہ فروخت نہ کیے جائیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو بے بھی کئی مواقعوں پر امریکی کانگریس کو خطوط لکھے جن میں پاکستان کی امداد روکنے کے مطالبات کیے گئے ہیں بالخصوص اسی کی دہائی میں پاکستان میں قائم جنرل ضیا ءالحق کی حکومت کو اسلحہ اور مالی امداد کی فراہمی کو روکنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا۔

پاکستان کاایک بڑا اور سنجیدہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثر پالیسی سازادارے اور رائے عامہ ہموار کرنے والی شخصیات مختلف امور پر جذباتی رائے دیتی ہیں۔ غیرمقبولیت کے خوف سے مسائل کی تہہ میں جاکر بے لاگ تجزیہ کرنے سےکتراتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سارے مسائل نے اس کی داخلی کمزوریوں، متضاد اوربسااوقات باہم متحارب پالیسیوں کی وجہ سے بھی جنم لیا ہے جن پر کم ہی بحث و مباحثہ ہوتاہے کیونکہ ریاستی ادارے اور ان کے ہمنوا آزادی سے بحث و مباحثہ کرنے والوں کو نہ صرف غیر موثر بنا دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات ان کی تحقیر بھی کی جاتی ہے۔ اس لیے عافیت اسی میں سمجھی جاتی ہے کہ مکھی پر مکھی ماری جائے اور ریاستی سیاسی فکر کے اردگرد ہی رہ کرآزادی صحافت کا پرچم بلند کیا جائے۔ اس طرزفکر نے معاشرے کو زبردست جمود کا شکار کیا ہے ۔ چنانچہ سیاسی اوراسٹرٹیجک سوچ کی تشکیل نو کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔ خاص کر گزشتہ تین سالوں سے اردوزبان میں لکھنے والوں میں آزادانہ اور متبادل نقطہ نظر رکھنے والوں کے لیے گنجائش بہت کم ہوئی ہے۔

بھارت کی سیاسی اور سفارتی کامیابیوں کا بھی ٹھوس تجزیہ کم ہی کیا جاتاہے بلکہ اکثر امریکہ اور بھارت کی دوستی یا پھر ایران اورافغانستان کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو پاکستان کی مخالفت کے تناظر میں دیکھا اور پرکھاجاتاہے۔ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاتاہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں بھارت نے جس تیز رفتاری سے ترقی کی، اس نے دنیا کو اس ملک کی طرف متوجہ کیا ہے۔ وہ افغانستان اور ایران میں کئی ایک میگا منصوبوں پر اربوں روپے صرف کررہاہے۔ افغانستان اور ایران چاہتے ہیں کہ بھارت ان ممالک میں مزید سرمایہ کاری کرے اور دیگرتعمیراتی منصوبے بھی شروع کرے۔ پاکستان کے پاس ایران اورافغانستان کوپیش کرنے کے لیے ایک اقتصادی راہداری تھی جو وہ دینے کو تیار نہیں۔ چنانچہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں نے ایران کے ذریعے ایک متبادل راہ تلاش کرلی ہے۔

وزیراعظم نریند مودی کی حکومت کا بنیادی ایجنڈا معاشی ترقی اورعالمی سطح پر بھارت کو ایک اہم ملک کے طور پر متعارف کرانا ہے لہذا انہوں نے امریکہ کے ساتھ غیر مشروط دوستانہ تعلقات قائم کرلیے ہیں۔ حتی کہ اپنے دیرینہ حلیف روس کے خدشات اور تحفظات کی بھی پروا نہیں کی اور ایشیا میں امریکہ کو کلیدی حلیف ملک کے طور پر اپنی خدمات پیش کردی ہیں۔ چنانچہ اس وقت ان کی دوطرفہ تجارت کا حجم ایک سو ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جب کہ اگلے کچھ برسوں میں پانچ سو ارب ڈالر تک پہنچنے کے امکانات بتائے جارہے ہیں۔

پاکستان کوخطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ ہمسری کے لیے اپنی اقتصادی ترقی پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان کی قتصادی اشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ خاص طور چین کے ساتھ شروع ہونے والے منصوبوں نے معاشی سرگرمیوں کی رفتار تیز کردی ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری اور داخلی استحکام برقرار رہا تو اگلے چند برسوں میں پاکستان خطے کا ایک خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ اسی وقت اس کی سفارت کاری زیادہ موثر اور مضبوط ہوگی جب وہ امداد لینے والے ممالک سے نکل جائے گا۔ حسین حقانی کی طرح کے لوگوں کی رائے کو عالمی طاقتیں اور دارلحکومت کوئی اہمیت نہیں دیں گے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ Money talks یعنی پیسے بولتا ہے۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments