پا کستان آرمی ایک سویلین کی نظر میں


میرا پاکستان آرمی سے تعارف سکول کے دور سے ہے، کیونکہ میں نے سکول اور کالج میں تعلیم پاکستان آرمی کے تعلیمی اداروں سے حاصل کی اور یہ بات میں بڑے فخر سے کہتا ہوں، کہ پاکستان آرمی کے تعلیمی اداروں میں جو عزت مجھے ایک سویلین کے کوٹہ پر ہونے کے باوجود ملی، وہ اس وقت کسی حاضر سروس جنرل کے بیٹے کو بھی نہیں ملی ہو گی۔ چاہے وہ سکول یا کالج کے بہترین طالب علم کا انتخاب ہو، کلاس میں اول پوزیشن کی دوڑ ہو، غیر نصابی سرگرمیاں ہوں، کلاس مانیٹر کا انتخاب ہو میں ہمیشہ لیڈ کرتا ہوا نظر آتا تھا۔

مجھ پر میرے اساتذہ اور پرنسپل کو اتنا اعتماد تھا کہ جب میں میٹرک کر کے جا رہا تھا اور میری بہنوں نے اسی سکول میں اپلائی کیا ( آرمی سکولوں میں سویلین کوٹہ بہت کم ہوتا ہے اور سویلین کوٹہ پر داخلہ ملنا بہت مشکل امر ہوتا ہے ) تو مجھے اپنے کرنل پرنسپل صاحب کے وہ الفاظ آج بھی یاد ہیں، کہ اگر یہ احمد عثمان کی بہنیں ہیں تو ہم انھیں ضرور اکوموڈیٹ کریں گے۔ یہ الفاظ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھے۔ یوں جہاں سکول اور کالج پاکستان آرمی کا تھا وہاں دوست بھی سارے پاکستان آرمی کی فیملیز سے تعلق رکھتے تھے اور پھر الفا براؤ چارلی جیسے ڈراموں نے سونے پر سہاگہ کا کردار ادا کیا، اور پاکستان آرمی سے محبت بڑھتی چلی گئی اور جب انٹرمیڈیٹ میں سب دوست آرمی میں جانے کے لیے آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ دینے کی تیاریاں کر رہے تھے۔

تو میرا پاکستان آرمی سے پہلا اختلاف پیدا ہوا میں اپنی کلاس میں واحد طالب علم تھا جس نے آئی ایس ایس بی کا ٹیسٹ نہیں دیا کیونکہ میں اس وقت اپنے آپ کو بہت تیس مار خان سمجھتا تھا۔ اور میرا موقف تھا کہ میری صلاحیتیں ایک جنرل کے لیول کی ہیں تو میں پہلے کیوں سیکنڈ لیفٹینٹ بنوں۔ ہاں جس دن پاکستان آرمی نے کاکول کے دو سال سے مجھے استشنا دیا اور ڈائیریکٹ جنرل کی پوسٹ پر منتخب کیا تو میں ضرور جوائن کروں گا۔

لہذا ہمارا نامعقول موقف پاکستان آرمی کو کبھی قبول نہ تھا اور دوسری طرف ہم ایک سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طور پر آرمی کو کسی بھی طور پر جوائن کرنے پر راضی نہ تھے۔ لہذا بات نہ بن سکی اور بعد میں اس بات کا احساس ہوا کہ اپنے آپ کو جنرل سمجھنے کی خوش فہمیاں جو ہم نے پالی ہوئی تھی وہ ایک بے وقوفانہ طرز عمل تھا اور عملی زندگی میں آنے کے بعد دماغ ٹھکانے پر آ گیا۔ جہاں یہ بات عقل میں آئی کہ سیکنڈ لیفٹینٹ بنے بغیر جنرل نہیں بنا جا سکتا وہاں یہ عقدہ بھی کھلا کہ پاکستان آرمی میں نہ جانے کے باوجود میں پروفیشل زندگی میں جس فوجی انداز سے ڈسپلن اختیار کرتے ہوئے اپنے ٹارگٹ حاصل کرتا ہوں تو میرے کولیگ مجھے مذاقا یہی کہتے ہیں کہ ہمیں تو لگتا کہ ہم کسی آرمی والے کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

بہرحال بات لمبی ہو گئی، یہ قصہ 2005 کا ہے۔ مشرف دور تھا۔ مجھ سمیت ساری عوام مشرف صاحب سے اکتائی ہوئی تھی۔ میں اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور پاکستان میں جمہوریت کا بڑا حامی تھا میری رہائش عسکری الیون کے پاس افشاں کالونی میں تھی، روز صبح قائد اعظم یونیورسٹی کی بس پر آنا جانا ہوتا تھا اسی طرح حسب معمول ایک خوشگوار صبح ہم قائداعظم یونیورسٹی کی بس پر جا رہے تھے کہ پشاور روڈ پر صدر کی طرف مڑنے سے کچھ پہلے ملٹری ہسپتال کے بالکل سامنے بس نے ایک زور دار بریک لگائی۔

بس کی کسی دوسری گاڑی سے لگنے کی آواز آئی اور جو پہلا منظر میں نے دیکھا کہ ایک پاک آرمی کی وردی میں ملبوس شخص جو رینک سے نان کمیشنڈ افسر لگ رہا تھا، سبز رنگ کی آرمی نمبر پلیٹ کی کیری میں سے باہر نکالا ہے اور آؤ نہ دیکھا تاؤ ایک زناٹے دار تھپڑ بس کے ڈرائیور کو جڑ دیا۔ اس وقت میں اپنے ایک ڈیفنس اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز میں پڑھنے والے دوست کے ساتھ محو گفتگو تھا جب وہ تھپڑ ڈرائیور کو لگا، تو ایک منٹ کے لیے ہمیں محسوس ہو کہ یہ تھپڑ ہمارے منہ پر آ کر لگا ہو، کجھ بے لگام جوانی، کچھ لیڈری کی خواہش اور کچھ مشرف دور کی تلخیاں اس ایک منٹ میں سب امڈ کر ہمارے دل میں آ گئی۔

ہم نے اپنے دوست کی آنکھوں میں دیکھا تو مجھے لگا جو کچھ میں محسوس کر رہا ہوں وہی میرا دوست محسوس کر رہا ہے۔ اور پھر دوسرے ہی لمحے ہم بس سے باہر تھے۔ ہم باہر نکلے اور اس آرمی کی وردی میں ملبوس شخص سے اپنے بس کے ڈرائیور کو تھپڑ مارنے کی وجہ پوچھی، جو اس نے یہی بتائی کہ یہ بس کا ڈرائیور اندھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ بس کے ڈرائیور نے بروقت بریک نہیں لگائی اور غلطی بس کے ڈرائیور کی ہی تھی ہم نے کہا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ یہ غلطی بس کے ڈرائیور کی ہی ہے۔ لیکن آپ نے تھپٹر کس حیثیت میں مارا، ظاہر ہے وہ اس کا خاطر خواہ جواب نہ دے سکا اب ہم نے کہا کہ تمھاری گاڑی ہم ٹھیک کروائیں گے۔ لیکن پہلے تمھیں ہمارے ڈرائیور سے تھپڑ کھانا ہو گا۔

اب معاملہ بڑھنے لگا جب ٹریفک سارجنٹ نے دیکھا کہ معاملہ یونیورسٹی کے طلبہ اور آرمی کا ہے تو وہ خاموشی سے وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ جو لوگ پنڈی کے محل وقوع سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ علاقہ بہت حساس ہے۔ آرمی کی کئی اہم تنصیبات وہاں موجود ہیں یہی وجہ ہے کہ وہاں ملٹری پولیس بھی موجود رہتی ہے۔

لیکن ملٹری پولیس کے دو اہلکاروں نے بھی موٹر سائیکل پر ایک چکر لگایا اور ایک وائرلیس کر کے وہاں سے کجھ کہے بغیر چلے گئے، اب دوسرا حکم ہم نے یہ صادر کیا، کہ اس بس کو پشاور روڈ پر اس انداز میں کھڑا کر دو کہ ٹریفک جام ہو جائے، اب وہ بیچارہ غریب ڈرائیور جو باری باری ہمیں یہ کہ رہا تھا کہ سر جانے دیں کوئی بات نہیں عجیب شش و پنج میں مبتلا ہو گیا ہماری بات مانتا تو بات بہت بڑھ سکتی تھی۔ اور اگر نہ مانتا تو ہماری سپورٹ سے ہاتھ دھو بیٹھتا، باہر حال اس نے بس یوں کھڑی کر دی کہ روڈ بالکل تو بلاک نہیں ہوئی لیکن ٹریفک کی روانی میں فرق ضرور پڑ گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2