اوریا ہم کو کہے کافر، اللہ کی مرضی ہے


\"aqdasعاشق ہویوں رب دا، تینوں ہوئی ملامت لاکھ

تینوں کافر کافر آکھدے، توں آہو آہو آکھ

اردو کی ایک کہاوت ہے \”تھوتھا چنا، باجے گھنا\”۔ کچھ چنے ایسے ہوتے ہیں جو جتنے خراب ہوتے ہیں اتنا ہی زیادہ بجتے ہیں۔ نہ صرف زیادہ بجتے ہیں بلکہ بے سرا بجتے ہیں۔ صحافت کا ایسا ہی ایک چنا ہیں اوریا مقبول جان صاحب۔

اوریا صاحب نے 21 جون کو اپنے پروگرام میں کچھ آرٹیکلز سکرین پر دکھائےان میں سے ایک کالم میرا بھی تھا جس کا عنوان ہے \”یہ غازی، یہ تیرے فیس بک جہادی\”۔ اپنے پروگرام میں ہماری تحریروں کا حوالہ دیتے ہوئےموصوف نے فرمایا کہ یہ ملحدین ہیں اور باقاعدہ سازش کے تحت اسلام کے خلاف لکھتے ہیں۔ ان کا مقصد اسلامی تعلیمات پر نقطہ چینی کرنا ہے تاکہ لوگوں کو اسلا م سے متنفر کیا جائے۔ مزید استفسار پر انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ملحد سے مراد سیکولر نہیں بلکہ وہ شخص ہے جو خدا کے وجود سے ہی منکر ہو۔ گویا کہ

اِسی کو مصرفِ ایماں سمجھ رکّھا ہے تم نے

کوئی کچھ اختلافے تو اُسے تکفیرتے ہو

کوئی سوال اٹھائے تو اس پر فتوے لگاتے ہو، اس کے ایمان تک پہنچ جاتے ہو۔ کس نے حق دیا ہے تمہیں کہ ہمارے ایمان کا تعین کرو؟ کیا بھول گئے ہوکہ یہ فیصلہ خدا نے کرنا کہ کون مومن ہے اور مشرک، کون مسلم ہے اور کون ملحد؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تم خود کو خدا تصور کر بیٹھے ہو جبھی تو یہ راگ الاپ رہے ہو کہ \” ملحدین یہ بتاتے نہیں کہ وہ خدا کے وجود سے انکاری ہیں، مگر دل میں وہ خدا کو نہیں مانتے \”۔ آپ کیا پتھروں اور انگو ٹھیوں سے قسمت چمکانے کے فن پر ملکہ پا چکے ہیں جو اب دلوں کے احوال بھی بتانے لگے ہیں۔ کیا جانتے بھی ہو کہ کسی کلمہ گو پر بغیر تحقیق کے تہمت لگانا کتنا سنگین جرم ہے۔ ویسے تو آپ قرآن پاک کا بہت حوالہ دیتے ہیں، کاش کہ آپ نے یہ آیت بھی پڑھ لی ہوتی۔ اور پڑھ لی ہے تو کاش آپ کو اس پر عمل کرنے کی توفیق ملے۔ سورہ بنی اسرائیل میں حکم خدا ہے کہ

کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

اس کی تفسیربیان کرتے ہوئے امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ بدگمانی کرے یا کسی پر الزام لگائے یا تحقیق کے بغیر کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھائے یا محض شبہات پر افواہیں اڑائے یا اپنے پروردگار کی ذات و صفات اوراحکام و ہدایات کے بارے میں ظنون و اوہام اور لاطائل قیاسات پر مبنی کوئی نقطۂ نظر اختیار کرے۔ قرآن نے متنبہ فرمایا ہے کہ اِسے کوئی معمولی بات نہیں سمجھنا چاہیے، اِس لیے کہ انسان کی سماعت و بصارت اور دل و دماغ، ہر چیز کو ایک دن خدا کے حضور میں جواب دہ ہونا ہے۔

قرآن پاک میں سورت حجرات میں ارشاد ہوتا ہے کہ

\”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو۔ \”

 اوریا صاحب نے نہ صرف بنا تحقیق کئے الزام لگایا بلکہ بنگلہ دیش میں سیکولر بلاگرز کےقتل کی مثال دے کرپاکستانی عوام کے جذبات بھی بھڑکانے کی کوشش کی۔ \”ہم سب\” کے جن لکھاریوں پر اوریا صاحب نے نظر کرم کی ان میں سے تین تو مرد حضرات ہیں اور چوتھی میں۔ اوریا صاحب، اسلام بیٹیوں، بہنوں کی حفاظت کا درس دیتا ہے، مگر آپ کیسے دین دار ہیں کہ آپ ایک بیٹی کو سر عام رسوا کر رہے ہیں؟ کیا اسلام نے آپ کو یہ سکھایا ہے؟

پاکستان میں ٹی وی اینکرز کا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر حضرات کو الیکٹرانک جرنلزم کی الف بے بھی معلوم نہیں ہوتی۔ یہ حضرات صحافتی اقدار اور اخلاقیات سے مکمل طور پر نا بلد ہوتے ہیں۔ یہ ٹی وی سکرین پر آتے ہیں، لوگ انہیں دیکھتے ہیں، ان کی بات سنتے ہیں اور یہ اس ذمہ داری کو بطریق احسن نبھانے کی بجائے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ اب چونکہ ٹی وی پر نظر بھی آناہے، پیسے بھی کمانے ہیں تو کوئی نہ کوئی بات تو کرنی ہی ہے۔ شہرت ہو اور دولت بھی تو انسان کچھ بھی بولنے کو تیار ہو جاتا ہے، خاص طور پر وہ افراد جو صحافت کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھتے ہوں۔ اوریا صاحب کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ تو صحافت پڑھی ہے اور نہ ہی وہ اس شعبے کے تقدس کو سمجھتے ہیں۔ لہذا الٹا سیدھا جو ملتا ہے وہ بولتے رہتے ہیں۔ چونکہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آج کل نفرت بہت آسانی سے اور ہاتھوں ہاتھ بک رہی ہے، تو اوریاصاحب بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ ان کو یہ اندازہ نہیں کہ نفرت کی آگ میں یہ ہمیں تو جھونک رہے ہیں، مگر ایک وقت آئے گا کہ یہ خود بھی اس کا ایندھن بنیں گے۔ بقول شاعر

اس کو مذہب کہو یا سیاست کہو

خودکشی کا ہنر تم سکھا تو چلے

اتنی لاشیں میں کیسے اٹھا پاؤں گا

آپ اینٹوں کی حرمت بچا تو چلے

نفرت یہ لوگ بیچتے ہیں اور ہم خوامخواہ قلم سے شرمندہ رہتے ہیں۔ اوریا صاحب ایک تجزیہ کار اور رائے عامہ تشکیل دینے والے ہیں لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں سےیکسر نا آشنا ہیں۔ اوریا صاحب نے اپنے پروگرام میں میری تحریر \”یہ غازی، یہ تیرے فیس بک جہادی\” کا حوالہ تو دیا مگر اسے پڑھنے کی زحمت نہیں کی۔ حضرت کی پیشہ وارانہ ذمہ داری کا تقاضا تھا کہ جس تحریر کو سکرین پر چلایا ہے، پہلے اس کو خود پڑھتے۔ محترم اگر پڑھ لیتے تو سکرین پر چلانے کی نوبت نہ آتی کیونکہ اس تحریر میں ایسا کچھ نہیں تھا جس سے اسلام کو کوئی خطرہ ہو، یا کوئی بھی ایسی بات ہو جو میرے ملحد ہونے کی طرف اشارہ کرے۔ موصوف کو چاہیے تھا کہ مجھے ملحدین میں گرداننے سے پہلے میری تحریروں کا مطالعہ کرتے، کیونکہ کسی کے ایمان پر بات کرنے سے پہلے ہر پہلو سے جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے۔ یہ نہ صرف ان کے پیشے کا تقاضا ہے، بلکہ اسلام کا بھی تقاضا ہے۔ میری مذکورہ تحریر میں نہ صرف مذہبی شدت پسندوں پر تنقید کی گئی تھی بلکہ سیکولرزکی غلطیوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ کیا شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھانے سے کوئی ملحد ہو جاتا ہے؟صد افسوس کہ موصوف نے نہ تو میری کسی تحریر کو پڑھا اور نہ ہی کوئی بیک گراؤنڈ چیک کیا۔ سیدھا فتوی جاری کردیا اور ڈال دی جان ہماری خطرے میں۔ قلم کے ساتھ ایسا کھلواڑ کرنے والوں کے لیے کسی نے کہاہے کہ

لوگ ناموسِ قلم کو بیچ کر بازار میں

پوچھتے ہیں کس لئے تاثیر آدھی رہ گئی

لُٹ گئی عصمت صدا کی، آبرو آواز کی

لفظ بونے ہو گئے، تحریر آدھی رہ گئی

ان جیسے صحافیوں اورنفرت بیچنے والوں نے لفظوں کو تو کیا، انسانیت کو بونا کر ڈالا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی کے پاس بھی یہ اٖختیار نہیں کہ دوسرے کے مذہب پر انگلی اٹھائے۔ اگر کوئی ملحد بھی ہے تو ہے تو انسان نا۔ یہ اس کی مرضی وہ خدا کو مانے یا مانے۔ اپنے اعمال کے لیے اللہ کے سامنے وہ خود جواب دہ ہے، آپ اپنے اعمال کی فکر کریں صاحب۔

میرا مسئلہ یہ نہیں کہ مجھےملحد کیوں کہا گیا۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ اوریا مقبول جان صاحب کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ میرے مسلمان یا ملحد ہونے کا تعین کریں؟ ریاست پاکستان مجھے بھی اتنے ہی حقوق دیتی ہے جتنے اوریا صاحب کو- اگر میں اوریا صاحب کے مذہب کا تعین کرنے کا حق نہیں رکھتی تو انہیں کس نے یہ اجازت دی ہے کہ میرے مذہب پر بات کریں؟

 اپنی طرف سے اوریا مقبول جان صاحب اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہم جیسے بے راہرو لوگوں کو راہ راست پر لانے کے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کے شدت پسندانہ اور نفرت انگیز خیالات کی اوریا صاحب ترویج کر رہے ہیں اس سے نوجون نسل مذہب سے مزید متنفر ہو گی -اوریا صاحب کو شاید یہ لگا کہ اس طرح سے شاید وہ ہمیں ڈرا لیں گے، لوگوں کو ہمارے قتل پر اکسائیں گے تو ہم لکھنا چھوڑ دیں گے۔ مگر ایسے نا کوئی خاموش ہوا ہے اور نہ ہی کوئی ہو گا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ

ہم نہ ہوں گے تو کیا؟

ہماری کہانیاں تو ہوں گی

جو سچ بات کہتے ہیں، جو انسانیت کی بات کرتے ہیں، جن کا پیغام محبت ہو، جو امن کا دیپ جلانا چاہیں، ان کوکوئی اوریا مقبول نہ مٹا سکا ہے، نہ مٹا پائے گا- کوئی نہ کوئی ان کی کہانی بیان کرتا رہے گا، کوئی نہ کوئی اس امید کی لو کی خون جگر سے آبیاری کرتا رہے گا۔

تم اپنے، عقیدوں کے نیزے

ہر دل میں اتارے جاتے ہو

ہم لوگ محبت والے ہیں

تم خنجر کیوں لہراتے ہو

اس شہر میں نغمے بہنے دو

بستی میں ہمیں بھی رہنے دو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments