ایک سکّے کے دو رُخ—-منڈیلا اور موگابے


تاریخ میں کچھ راہنما ایسے ہوتے ہیں جو قوم کی تربیت کو طاقت پر فوقیت دیتے ہیں، اُن کے لیے اقتدار سے زیادہ اہم اقدار ہوتے ہیں۔ وہ اپنی شخصیت اور توانائیوں کو قوم کی تربیت کے لیے صَرف کر دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے صفحات میں اُن کا نام سونے کے حروف سے لکھا جاتا ہے، اور اُسی وقت کچھ راہنما ایسے ہوتے ہیں جو اقتدار سے چمٹے رہنے کو ہی اپنی جیت سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اقتدار کا حصول ہی انقلاب ہوتا ہے وہ اپنے سارے اقدار اور اپنی سالوں کی محنتوں کو حصولِ اقتدار پر قربان کر دیتے ہیں اور نتیجتاً وہ اپنی قوموں کو جہالت کے اندھیروں میں جھونک دیتے ہیں۔

اسی کے پیشِ نظر میں ماضی قریب کے دو اہم راہنماؤں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن دونوں کا تعلق بہت ہی غریب گھرانوں سے تھا، دونوں کی سیاسی تربیت ایک ہی ماحول میں ہوئی تھی اور دونوں نے ایک ہی درسگاہ فورٹ ہارے ( Fort hare) جو ساوتھ افریقہ میں واقع ہے سے تعلیم حاصل کی، ایک نے اپنا پیشہ وکالت کو چنا جبکہ دوسرے نے استاد بننا پسند کیا، دونوں نے اپنے اپنے ملکوں میں سامراجی حکومتوں کی جیلوں کی سخت صعوبتوں کا سامنا کیا ایک 27 سال تک اپارٹائیڈ (apartheid) حکومت میں حوالات میں رہا جبکہ دوسرا برطانوی سامراج میں 11 سال تک، دونوں ہی اپنی قوم کو آزادی دلانے کے لیے پُر عزم تھے۔

ایک ساوتھ افریقہ میں ظلم و استبداد کے خلاف برسرِ پیکار تھا جبکہ دوسرا زمبابوے ( جو اُس دور میں روڈیشیا کے نام سے مشہور تھا) میں گوریلا جنگ کے ذریعے انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں مصروف تھا۔ ایک کا نام تھا نیلسن منڈیلا اور دوسرا روبرٹ موگابے۔ دونوں کا ہدف ایک ہی تھا، دونوں ایک ہی منزل کے مسافر تھے بس فرق یہ تھا کے موگابے کا مقصد تشدد کے ذریعے اقتدار کا حصول تھا جبکہ منڈیلا کا مقصد اپنی قوم کی ذہنی تربیت کرنا اور افہام و تفہیم کے ساتھ اپنی قوم کے لیے حقوق کا حصول تھا جس کے لیے انہوں نے جیل میں انگریزوں کو کُھلے مذاکرات کرنے کی دعوت دی۔

دونوں اپنی منزل کی جانب گامزن تھے کہ موگابے کو اپنا ہدف مل گیا اور 1980 میں بالآخر اُسں نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا لیکن منزل پر پہنچتے ہی وہ ہدف سے بھٹک گیا اور اپنے مخالفین کو عام معافی دینے کے بجائے انہیں مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا اور 80 کی دہائی کے اوائل میں اپنے مقابل سیاہ فام تحریک کے تقریباً بیس ہزار 20000 لوگوں کو تشدد کروا کے قتل کروا دیا اور وہیں سے اپنی آمریت کے دور کا آغاز کردیا۔ اقتدار جتنا طول پکڑتا گیا موگابے اتنا ہی تشدد پسند ہوتا گیا اور اسی طرح 37 سال تک زمبابوین قوم پر مسلط رہا۔ اس کے برعکس نیلسن منڈیلا جب جیل سے رہا ہوئے تو بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے انہوں نے اپنے تمام مخالفین کو عام معافی دینے کا اعلان کرتے ہوئے دنیا کو یہ درس دیا کہ صبر اور درگزر کرنا ہی سب سے بڑی شجاعت اور بہادری ہے۔

اس دور میں براعظم افریقہ میں یہ روایت تھی کہ راہنما اپنی زندگی کے اختتام تک یا کوئی ان کا تختہ نہ الٹ دے وہ اقتدار سے چمٹے رہتے تھے لیکن منڈیلا نے اس روایت کے بر عکس صرف ایک ٹرم ہی اقتدار سنبھالا اور 1999 میں ریٹائر ہوگئے اور اپنی طویل جدوجہد میں یہ ثابت کردیا کہ انقلاب کے لیے اقتدار کی نہیں بلکہ کردار کی ضرورت ہوتی ہے۔

موگابے اور منڈیلا کو یکساں مواقع ملے لیکن موگابے نے اقتدار کو اقدار پر فوقیت دی جبکہ منڈیلا نے قوم کی ذہنی تربیت کو ترجیح دی۔ اس تقابلی جائزے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کے ہمیں ایسے حکمرانوں کی اشد ضرورت ہے جو قوم کی ذہنی تربیت کریں اور اقتدار میں رہنے کو اپنی قیادت کا مقصد نہ بنائیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اگر آدمی کا کردار آزمانا ہو تو اُسے طاقت دے دو وہ خود اپنے آپ کو آشکار کردے گا۔ وقت نے ثابت کردیا کہ نیلسن منڈیلا جہانِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے اور اُس کے بر عکس جسمانی زنگی رکھنے کے باوجود بھی موگابے لوگوں کی نظروں میں مردہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).