جشن اقبال کا میلہ اور جنوبی پنجاب کا رولا


یوتھ امپاورمنٹ سوسائٹی 11 دسمبر سے 13 دسمبر تک لاہور کے ایوان اقبال میں ’جشن اقبال‘ کامیلہ سجائے ہوئے ہے۔ اس ایونٹ کے بارے بتاتا چلوں کہ یہ پروگرام نومبر میں منعقد ہونا تھا لیکن تحریک لبیک کے دھرنا ا یونٹ کی وجہ سے نوجوانوں کو پروگرام ایک مہینے بعدکرنا پڑا۔ جس قدر دھرنے سے اس پروگرام کو منعقد کرنے والے نوجوان متاثر ہوئے یہ تو وہی جانتے ہیں کہ مہمانوں کو بلانے سے لے ایڈوارٹائزمنٹ تک کا انتظام از سر نوکرنا پڑا اور اس کے لیے کتنا۔ یاد رہے کہ اس یوتھ سوسائٹی میں زیادہ تر طلباء نوجوان ہیں او ر بہت کم نوجوان برسر روزگار ہیں لیکن باہمت ہیں جنہوں نے یہ میلہ سجا لیا۔

اس سے پہلے نومبر میں فیض مرحوم کی یاد میں بھی الحمرا ء لاہور میں فیض میلہ بھی سج چکا ہے۔
اقبال اور فیض دونوں عظیم شاعر ہی نہیں بلکہ مفکر تھے، مفکر اسے کہتے ہیں جوانسانوں کی روح میں فکر پیدا کرے۔ دانشوران کا کہنا تو یہ ہے کہ دونوں مختلف نقطہ نظر کے لوگ تھے دونوں کی فکر کولیفٹ اور رائٹ والوں نے بھی کئی حد تکتقسیم کرنے کی کوشش کی مگر سچ تو یہ ہے کہ جب فیض زندہ تھے اور اقبال کے کوئی خلاف بولتا تو فیض اقبال کے حق میں کھڑے ہوجاتے۔ جس طرح جالب اور آغا شورش مختلف نقطہ نظر کے لوگ ایک ہی دور میں تھے۔

ایک دفعہ یہ ہواکہ جالب کو پولیس نے پکڑ لیا اور تھانے لے گئی، آغا شورش کو کسی نے اطلاع دی تو وہ بھاگے بھاگے تھانے پہنچے اور دو چار اور ساتھیوں کے ساتھ تھانے میں ہی دھرنا دے بیٹھے بالکل امن پسند دھرنا اب والے دھرنے توکچھ اور دھرنے ہیں۔ خیر بات کسی اور جانب چل پڑی، کہنے کا مقصد اور گزارش یہ ہے کہ اقبال ہو، فیض ہو، جالب ہو یا شورش یہ سارے عظیم لوگ تھے، ان لوگوں کی یاد میں ایسے میلوں کا سجنا اور نوجوانوں کا دلچسپی لینا ایک مثبت قدم ہے۔ خاکسار نے دونوں پروگراموں میں بڑی دلچسپی سے شرکت کی۔

مذکورہ ایونٹ میں پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ کیجانب سے میڈیا آئیکون پروگرام رکھا گیاجس میں فرخ سہیل گوئندی، مجیب الرحمٰن شامی، حفیظ اللہ نیازی، ساجد میر، فرخ شہباز وڑائچ جیسے مختلف نقطہ نظر کے صحافی موجودتھے، جنہوں نے پورے سیشن میں علامہ اقبال کی فکر کے حوالے سے شرکاء کے سوالوں کے جواب دیے۔ اس سیشن میں شعبہ ابلاغ یعنی صحافت کے طلباء وطالبات اور پیشہ ور نوجوان تھے۔

جامعہ پنجاب کے طالب علم جن کا تعلق راجن پور سے تھا انہوں نے مقررین سے سوال کرتے ہوئے فقط تعارف میں یہ کہہ دیا کہ ”میرا نام احمد ہے اور میرا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے“ ابھی تعارف ہی مکمل نہیں ہوا تھا کہ محترم مجیب الرحمٰن شامی نے بے ساختہ ہو کر جواب دیا کہ آپ نے صوبہ بنے بغیر جنوبی پنجاب کیوں کہہ دیا، طالب علم سوال کی جانب بڑھا ہال تالیوں او نعروں سے گونج اٹھا، شامی صاحب نے غصہ کا اظہار اس لیے کیا کہ وہ کبھی اپنا تعارف وسطی پنجاب کا نہیں کرواتے تو جنوبی پنجاب والے یہ تعارف کروانے کی بجائے اپنے شہر کا ہی نام بتا دیا کریں۔ طالب علم نے سوال کا اختتام کرتے ہوئے شامی صاحب سے کہا کہ ”یہ ’جنوبی پنجاب‘ کی اصطلاح آپ لوگوں نے متعارف کروائی ہے۔ “

یہی بات سچ تھی جنوبی پنجاب کانام اب اس طرح نقش ہوگیا ہے کہ صرف ہم جنوبی پنجاب والے ہی نہیں صرف یہ لکھتے پڑھتے اور سنتے ہیں بلکہ ملک بھر کے اداروں سے لے کر عام اخبار تک بھی یہی اصطلاح عام ہوچکیہے۔ طالب علم کا جواب تو درست تھا کہ جنوبی پنجاب صوبے سے لے کر لفظی تقسیم تک کی اصلاح متعارف کرانے والے ہمارے سیاستدان ہیں جو ہر الیکشن پر صوبے کے نام پر الیکشن لیتے ہیں، اسٹیبلشمنٹ ہے جو جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر سیاسی گروہ تشکیل دیتی ہے، ہمارا میڈیا ہے جوپنجاب کے حصے تقسیم کیے ہوئے ہے اور سرکار ہے جس نے جنوبی پنجاب کو پسماندگی اور دیگر محرومیوں میں تقسیم رکھا ہوا ہے۔ پھر اگر کوئی طالب علم اگر تعارف میں ہی یہ گناہ کردے تو اسے دبوچ کر احساس دیا جائے کہ تم ُاس قابل ہی ہوتوکیا اسے لاجواب کیا جا رہاہے یا مزید تجسس میں ڈالاجا رہاہے؟

بہرحال ایسے پروگراموں میں سوالات تو ہوتے رہتے ہیں، لیکن جوانوں کو سوال کرنے کاحق دیا جائے۔ جشن اقبال 13 دسمبر تک جاری رہے گا جس میں سب کو شرکت کرنی چاہیے جوامید ہے کہ فائدہ مند ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).