مدرسے نہیں سوچیں دور بسائیں


ایک زمانہ تھا کہ میڈیا ریڈیوپاکستان، پاکستان ٹیلیوژن یا اخبارات پر ہی مشتمل ہوا کرتا تھا اس لئے کسی بھی قسم کی مذہبی و سیاسی دلچسپیاں یا تو ان ہی تین ذرائع تک محدود ہوا کرتی تھیں یا ان کی تفصیل سینہ بسینہ ایک دوسرے تک پہنچا کرتی تھی یا پھر پورے ملک میں سیرت النبی (ص) اور دیگر مذہبی و سیاسی جلسوں کا انعقاد ہوا کرتا تھا جس میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوکر براہ راست ساری کارروائی دیکھ لیا کرتے تھے۔ گوکہ جلسے جلوس اور مذہبی تقریبات کے سلسلے میں جگہ جگہ تقاریب اب بھی ہوتی ہیں لیکن جو افراد ان میں شریک نہیں ہوپاتے ان کو بھی یہ شرف حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ براہ راست ایسے جلسے جلوسوں کو دیکھ سکیں یا بعد میں ان کی ریکارڈنگ سن سکیں جس کے لئے وہ محض ٹی وی چینلوں کے ہی محتاج نہیں رہ گئے ہیں بلکہ اور بیشمار ذرائع ایسے ہیں جن کے ذریعے وہ پوری پوری کارروائی کو دیکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو اپنے ریکارد کے لئے ان کو ڈاؤن لوڈ بھی کر سکتے ہیں۔

پرانے وقتوں میں، اور کسی جلسے جلوس یا تقریب میں شرکت کرتا تھا یا نہیں لیکن عید میلادالنبی کی تقریبات کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا کرتا تھا۔ مجھے پاکستان کے دیگر شہروں کے متعلق تو اتنی معلومات نہیں لیکن کراچی میں تو عید میلادالنبی کے مہینوں میں یہ تقاریب بکثرت ہوا کرتی تھیں اور کراچی کی شاید ہی کوئی بستی ایسی رہی ہو جس میں ان مہینوں میں آٹھ آتھ دس دس تقاریب کا انعقاد نہ ہوتا ہو۔

کراچی ہمیشہ سے ہر بڑے عالم اور سیاستدان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کی اس مرکزی حیثیت کی اصل وجوہ دو ہیں۔ ایک اس کی گنجان آبادیاں اور دوئم لوگوں کی ہر قسم کی تقریبات میں کثرت سے شرکت۔ کوئی بھی عالم آئے، نعت خواں آئے یا کوئی سیاسی لیڈر ہو، کراچی والے اس کو سننے کے لئے امڈ امڈ کر آتے ہیں اور ہر آنے والا یہی گمان کر بیٹھتا ہے کہ اس سے زیادہ مقبول شاید ہی کوئی اور ہو۔

میں بھی عید میلادالنبی کے ہر پروگرام میں ضرور شریک ہوا کرتا تھا اور خاص طور سے مولانا احتشام الحق تھانوی (رح) کے جلسے تو مجھے بہت ہی پسند تھے۔ یہاں ان کے حوالے سے میں اس بات کو لازماً قلم بند کرنا چاہونگا کہ وہ اکثر اپنے خطاب میں ایک قصہ ضرور سنایا کرتے تھے۔ بات بہت عامیانہ سی تھی لیکن بعض اوقات ’عام‘ افراد کو سمجھانے کے لئے اس قسم کی مثال دینی ہی پڑجاتی ہے۔

وہ فرماتے تھے کہ ”کسی رنگروٹ کو چھٹیاں ملیں تو وہ اپنے گاؤں کی جانب روانہ ہوا۔ اس زمانے میں زیادہ مسافتیں پیدل ہی ہوا کرتی تھیں۔ اس کا گاؤں کئی چھوٹے چھوٹے ڈھوکوں کے درمیان سے گزر کر ہی آیا کرتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے قصبوں، دیہات اور گاؤن کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بہت آشنا ہوتے ہیں۔ یہ بھی کسی ڈھوک والے کا نا آشنا نہیں تھا۔ ابھی اس کا اپنا ڈھوک دور ہی تھا کہ شام پڑ گئی۔ ایک تو شام اوپر سے بھوک، چنانچہ اسے ایک مائی سے کھانے کی فرمائش کرنی ہی پڑ گئی جو تندور میں روٹیاں تھاپ رہی تھی۔ اس کا ایک دوڈھائی سالہ بچہ بھی قریب ہی کھیل رہا تھا۔ مائی نے جوان کو پہچان کر کہا کہ بیٹھ میں ابھی تیرے لئے روٹیاں تھاپتی ہوں۔ اسی دوران کہیں مائی کی ریح خارج ہوئی تو اس نے اپنے چھوٹے بچے کے ایک دھپ لگائی تاکہ مہمان کے آگے سبکی نہ ہو۔ مہمان فوجی تھا اور اصل معاملہ سمجھ چکا تھا۔ اس نے بھی کوشش کر کراکے ریح خارج کی اور اواز نکلنے پر اٹھ کر بچے کو ایک دھپ لگائی۔ اس پر مائی نے چلا کر کہا کہ ایک تو میں تیرے لئے روٹیاں تھاپ رہی ہوں اور تو میرے بچے کو ہی مار رہا ہے؟ جوان نے کہا کہ معاف کرنا ماسی، میں سمجھا تھا اس ڈھوک کا یہی دستور ہے۔ “

پیر کو وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی صدارت میں اپیکس کمیٹی کا 23 واں اجلاس ہوا جس میں کورکمانڈر کراچی، چیف سیکرٹری، صوبائی وزیر سید ناصر شاہ، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر مرتضیٰ وہاب، ڈی جی رینجرز، آئی جی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے صوبائی سربراہان سمیت سیکرٹری داخلہ نے شرکت کی۔ اجلاس کے ایجنڈے میں 22 ویں اپیکس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد، حالیہ سیکورٹی صورتحال پر بریفنگ دی گئی، اس کے علاوہ نیشنل ایکشن پلان پر نظر ثانی، انسداد دہشت گردی کے مقدمات کی تحقیقات اور پروسیکیوشن پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

سیکرٹری داخلہ کبیر قاضی نے بتایا کہ اجلاس کے فیصلے کی روشنی میں مدارس کی رجسٹریشن اور دیگر سرکاری و غیر سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ کے لیے ورکنگ گروپ کا قیام ہوچکا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ہماری امن و امان کی صورتحال بہتر ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مرکزی شاہراہوں سے مدارس کو منتقل کیا جائے گا۔

ملاحظہ کیجیئے کہ اتنے اہم اجلاس کا سب سے اہم فیصلہ یہ تھا کہ ایسے تمام مدارس جو مرکزی شاہراہوں کے نزدیک واقع ہیں ان کو ویرانوں میں منتقل کیا جائے۔ گویا ان کے کسی بھی مذموم مقاصد میں سب سے بڑی رکاوٹ مدرسے، ان کے متظمین اور ان میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم ہی ہیں۔

پاکستان جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا وہاں ’ستان‘ یعنی ’جگہ‘ تو ضرور ہے لیکن ’پاک‘ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ ’ستان‘ کے معنی زمین یا جگہ کے ہوتے ہیں جیسے گلستان، جمنستان یا نخلستان۔ اب ایسا ملک جو کبھی ’پاک ستان‘ ہوا کرتا تھا اور اللہ کے پاک کلام کی بجاآوری کے لئے بنایا گیا تھا اس پاک ستان یعنی پاکستان میں اب وہ لوگ قابض ہو چکے ہیں جو اللہ کے پاک کلام کے پڑھائے جانے سے بھی خفا ہیں یہاں تک کہ وہ مدارس جو اللہ کے نام کی تعلیم اور تبلیغ کے لئے دن رات سرگرداں ہیں ان کا وجود وہ اہم شاہراہوں کے نزدیک دیکھنا بھی گوارہ نہیں کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ ویرانوں میں منتقل کردیئے جائیں۔ اگر سوچ کا یہی سلسلہ رہا تو ایک وقت وہ بھی آئے گا جب ایسے مدرسوں کو دریا یا سمندر برد بھی کردیا جائے گا۔

بات مولانا احتشام الحق تھانوی (رح) والی ہی سچی لگتی ہے کہ کہ شاید اس گاؤں کا دستور ہی یہی ہے کہ خطا کسی کی بھی ہو سزا معصوموں ہی کو دینی ہے۔

اجلاس میں بات امن و امان کی صورتحال سے شروع ہوئی تھی جس کا اختتام اس بات پر ہوا کہ دینی مدرسوں کو ہر اس اہم شاہراہ سے دور کردیا جائے جہاں امن و امان کی صورت حال میں مدرسوں کے طلبا کو جمع ہو کر شاہراہیں بند کرنے کا موقع ملے اور ملک کی مشینری منجمد ہو کر رہ جائے۔

یہاں سوال یہ بیدا ہوتا ہے کہ کیا اہم شاہراہیں صرف اور صرف دینی مدرسوں کے طلبہ ہی بند کیا کرتے ہیں؟ کیا ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال علما و مشائخ ہی کراتے ہیں۔ کیا 27 دسمبر 2007 کو پورے پاکستان کو پھونک کر راکھ بنا دینے والے مذہبی رہنما تھے؟ کیا سندھ کے 22 شہروں کو آگ لگا کر غیر سندھیوں کی عزت و آبرو اور لہو سے ہولی کھینے والے مدرسوں کے طالب علم تھے؟ کیا علی گڑھ کو چاروں جانب سے گھیر کر آگ لگانے والے اور آگ کی لپٹوں سے باہر نکلنے والوں کو گولیوں سے بھوننے والے مدارس سے تعلق رکتھے تھے۔

کیا 12 مئی کے بے گناہوں کے خون میں مدرسوں کے طالب علموں کے ہاتھ رنگے ہوئے تھے؟ سندھی مہاجر کا تنازعہ پیدا کرنے والے کیا دینی تعلیم حاصل کرنے والے تھے؟ کیا پشتون اردو قتل عام اسلام کی تبلیغ کرنے والوں نے کیا تھا؟ ملک کا کوئی ایک بڑا بریک ڈاؤن، ایک بڑی ہڑتال، کوئی ایک بڑے قتل عام کی واردات بتائی جائے جس کا سبب علما اور مدارس بنے ہوں۔

مدارس تو وہ عظیم کام انجام دے رہے ہیں جو حکومتوں کا فرض بنتا تھا۔ ملک کے لاکھوں یتیموں، بے کسوں اور بے بسوں کو مرغی کی طرح اپنے پروں میں چھپائے بیٹھے ہیں اور ان کو زمانے کی ساری گندگیوں سے بچا کر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کو دین کی پاکیزہ تعلیم دیتے ہیں۔ ان کو بھوک سے بچاتے ہیں۔ ان کے لئے پاکیزہ ماحول مہیا کرتے ہیں۔ ان کے لباس اور قیام کا ذمہ لیتے ہیں اور معاشرے کی ہر برائی سے بچا کر رکھتے ہیں۔ اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہر سال جاہلوں، چوروں، ڈاکوؤں، بدمعاشوں اور بے تربیت انسانوں کے علاوہ ملک کی تقدیر میں کیا آتا؟ سوچئے اگر قیام پاکستان سے تا حال اگر یہ مدرسے نہ ہوتے تو ملک میں امن و امان کی صورت حال کا کیا حال ہوتا۔ ہرگھر میں بیسیوں درندے پل رہے ہوتے جو معاشرے کو جنگل بنا کر رکھ دیتے۔

ایسے ادارے جو ایک غریب ملک کے لئے نعمت عظمیٰ سے کم نہیں ان ہی کے متعلق ایسی سوچ رکھنا کہ ان کا وجود نمایاں جگہوں پر ہونا بھی برداشت نہ ہو نہایت افسوس کی بات ہے اور اس پر جتنا بھی تاسف سے کام لیا جائے وہ کم ہے۔

سندھ حکومت کے متعلق تو مدرسہ دشمنی سمجھ میں آتی ہے لیکن اجلاس میں شریک عسکری حلقوں کی نمائندگی کرنے والوں کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ کیا ہم انھیں بھی مدرسوں کے خلاف سوچوں میں شمار کرلیں؟ کیا اپیکس کمیٹی کے فیصلوں میں ان کا کردار صرف یہی ہے کہ جو جو فیصلہ نا اہل ترین اور اسلام سے باغی حکمران کریں ان کو نہ صرف ٹھنڈے پیٹوں سن لیا جائے بلکہ اس کی توثیق میں بھی شریک ہوا جائے؟

اجلاس میں کورکمانڈر کراچی نے کہا کہ سائبر کرائم کا سسٹم ہمارا اپنا ہونا چاہیے، آرمی چیف کو درخواست کی جائے گی کہ وہ آرمی کے سائبر سیکورٹی ونگ سے سندھ حکومت کو مدد فراہم کرے۔ کورکمانڈر کی یہ بات اپنی جگہ اہم سہی لیکن ان کو مدارس کی اہم شاہراہوں سے منتقلی کے لئے دی گئی تجاویز پر بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے تھا۔ ان کی خاموشی سے سندھ حکومت تو ضرور خوش ہوئی ہوگی لیکن پاکستان میں وہ قوتیں جو چاہتی ہیں کہ پاکستان میں اسلام دوست قوتوں کو پھلنے پھیلنے کا موقعہ ملے ان کو سخت مایوسی ہوگی۔

امید کی جاسکتی ہے کہ اپیکس کمیٹی میں شریک کورکمانڈر اور ان کے نمائندے مدرسوں کے خلاف کیے جانے والے فیصلوں پر نظر ثانی کریں گے اور مدرسوں کی ریفارم پر غور تو ضرور کریں گے لیکن ان کی منتقلی جیسے فیصلوں پر عمل درآمد کی راہ میں راست اقدامات اٹھائیں گے۔ مدرسے ملک بھر کے یتیموں، مسکینوں، بے بس اور بے سہارا بچوں کا گہوارہ ہیں جو معاشرے کو پراگندگی سے بچائے ہوئے ہیں۔ ان کو ختم کرنے کی بجائے ان کی کوششوں اور کاوشوں کو سراہیں اور ان میں ایسے شعبوں کو فعال بنائیں جن کے فروغ سے یہ سارے درماندہ بچے معاشرے میں مزید فعال کردار ادا کرنے کے قابل بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).