گیجٹس کے دور میں ادب


اتنی بات تو ہم سبھی جانتے ہیں اور کسی بھی قسم کے نظریاتی اور فکری اختلاف کے بغیر مانتے ہیں کہ ادب جنگل میں بیٹھ کر تخلیق نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ ادب کا پہلا اور بنیادی سروکار ایک معاشرے سے یا ادیب شاعر کے اردگرد کی زندگی سے ہوتا ہے۔ زندہ اور بڑے ادب کی اوّلین شناخت کے حوالوں میں سے ایک یہ ہے کہ اُس میں اجتماعی تجربے کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ادیب چاہے نرگسیت ہی کے اثر میں کیوں نہ ہو اور شاعر چاہے رومانی جذبوں کے سوا کسی شے کو ہاتھ لگانے پر آمادہ نہ ہو، پھر بھی زندگی کے اجتماعی رویوں سے لاتعلق ہرگز نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ رشتہ ہے جو اجتماعی دھڑکنوں کو انفرادی طرزِ اظہار میں سمو دیتا ہے۔ یہی وہ بنیاد ہے جو زندگی کی وسیع دائرے میں تفہیم کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے، جو ادب میں انسان کے انسان سے رشتے کی بازیافت کرتی ہے، اُس کے وجود کو وسعتِ معنی سے ہم کنار کرتی ہے اور ایک قدر کی حیثیت سے انسانی احساس کی تشکیل کا ذریعہ بنتی ہے۔
ادب گروہی، لسانی اور قومیتی عناصر کو قبول تو بے شک کرسکتا ہے، بلکہ کرتا ہے، لیکن ان کے وسیلے سے وہ افتراق یا نفاق کی راہ نہیں نکالتا، بلکہ ان کے توسط سے وہ زیادہ بڑے دائرے میں انسانوں کو باہمی طور پر جوڑتا ہے۔ اگر خارج سے لیے گئے کسی نظریے کی باربرداری کا کام ادب کو نہ سوپنا جائے تو یہ طے ہے کہ اُس کا ہر قدم انسانیت کے رشتے کی غیر مشروط پاس داری کی سمت اٹھے گا۔ اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ادیبوں اور شاعروں کے ذمے صرف یہ کام ہے کہ وہ انسانیت کے ترانے اور انسانوں کے گن گاتے رہیں۔ انسانی خرابیوں، گروہی مسائل اور تہذیب و تمدنی اختلافات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ نہیں، یہ مطالبہ بے جا ہوگا۔ وہ رنج، غصے، بغض اور عناد کو بھی اپنا موضوع بنانے کی آزادی رکھتے ہیں۔ تاہم یہ بات طے ہے کہ وہ اِس قبیل کے موضوعات کے توسط سے بھی فصل کا نہیں، وصل کا سامان کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے کہ شر میں بھی خیر کا ایک پہلو ہوتا ہے اور ادیب کی نگاہ اسی پہلو پر پڑتی ہے۔ حرفِ سخن کے لیے جس پیغمبری تاثیر کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ رنگارنگی، اختلاف اور تنوع کے ہوتے ہوئے دراصل انسانوں کو جوڑنے، ملانے اور قریب لانے کے عمل ہی میں مضمر ہے۔ اس لحاظ سے ادب دراصل آگ میں پھول کھلانے کا کام ہے۔
اب اگر یہ باتیں درست ہیں جو ادب اور ادیب کے بارے میں سطورِ گزشتہ میں کہی گئی ہیں تو پھر ہمیں ایک سوال پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ یہ جو ہمارے معاشرے میں نفاق پھیل رہا ہے، ایک ہی جگہ اور ایک ہی حال میں رہنے والے انسانوں کے بیچ براعظموں جیسے فاصلے جو پیدا ہورہے ہیں، کیا ہمارا ادب اور ادیب اس صورتِ حال سے لاتعلق ہوگئے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا پھر وہ اس میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں تو پھر کیا ادب کی اثر آفرینی کا دور ختم ہوگیا ہے؟ ہم ذرا ٹھنڈے دل سے غور کریں اور دیانت داری سے جواب دینا چاہیں تو سچ یہ ہے کہ ان تینوں سوالوں میں سے کسی ایک بھی سوال کا جواب براہِ راست اور آسانی سے اثبات میں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی نفی میں۔ ان میں سے ہر سوال کے جواب کے لیے ہمیں ہاں اور نہیں کے درمیان رْک کر سوچنا پڑے گا اور اپنی بات کہنے کے لیے اصل میں، چوں کہ، چناں چہ، اگر اور مگر جیسے سابقے اور لاحقے استعمال کرنے پڑیں گے۔ اس کے باوجود اس امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مکمل طور سے درست جواب تک پہنچنے میں حوصلہ شکن دشواری کا سامنا ہو۔ اس کی ایک سے زیادہ وجوہ ہیں۔ اہم ترین وجہ یہ ہے کہ اکیس ویں صدی تک آتے آتے انسانی زندگی کا تجربہ اس درجہ پیچیدہ اور بعض صورتوں میں اس قدر بے یقینی سے مملو ہوچکا ہے کہ اُس سے راست معنی کا حصول کارِ دارد کے درجے میں ہے۔ ظاہر ہے، ادب پر اس کا اثر ناگزیر ہے۔ چناں چہ آج ادب کی معنویت اور انسانی سماج پر اْس کے اثرات کے حوالے سے کوئی بات اگلے وقتوں کی طرح راست اور فیصلہ کن انداز میں نہیں کہی جاسکتی۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ پھر ادب کی ضرورت ہی کیا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ ادب پہلے بھی انسان کی کسی وجودی اور اْس کے سماج کی کسی مادّی ضرورت کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں تھا۔ اس کا سروکار تو فرد کی روح اور سماج کے داخلی مطالبات سے ہوتا ہے۔ اکیس ویں صدی کی اِس دنیا میں ادب اور ادیب کے جو رْجحانات، مسائل اور رویے ہیں، اْن پر تو ہم بات کرتے ہی رہتے ہیں، اور ضرورت ہو تو اور بھی کی جاسکتی ہے۔ تاہم یہ بھی تو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس عہد میں کیا انسان کو اپنی روح کی پکار اور سماج کو اپنے داخل کی آواز سنائی بھی دیتی ہے کہ نہیں، اور وہ اسے درخورِ اعتنا بھی گردانتا ہے کہ نہیں۔ ادب اْس کی زندگی کے تقاضوں میں کہیں باقی بھی ہے کہ نہیں۔ ٹیکنولوجی اور بالخصوص گیجٹس کی برتری قائم کرتی اس صدی میں، ہزار افسوس کے ساتھ ہی سہی، انسانی زندگی کے رْجحانات کو دیکھتے ہوئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آج ادب مدِ فاضل میں شمار ہوتا ہے۔ انسانی زندگی کے بنیادی مطالبات سے آج اِس کا تعلق ہمیں نظر نہیں آرہا۔ انسانی روح کے لیے جو کام وہ سرانجام دیتا تھا، اِس عہد کا انسان ایسے کسی کام کی خواہش یا ضرورت اوّل تو محسوس ہی نہیں کرتا اور اگر کرے بھی تو اُسے ناگزیر نہیں سمجھتا۔ نتیجہ یہ کہ ادب آج انسانی زندگی کے حاشیے کی اْن اشیا میں نظر آتا ہے جو ایک ایک کرکے معدوم ہو رہی ہیں۔
اب ہمیں صاف لفظوں میں اس سوال کا سامنا کرنا چاہیے، کیا ادب بھی انسانی زندگی سے معدوم ہوجائے گا؟ یہ سوال نیا نہیں ہے۔ اِس سے پہلے بھی پوچھا گیا ہے، کم سے کم گزشتہ لگ بھگ پون صدی کے عرصے میں تو کئی بار پوچھا گیا ہے، اور اب اِس نئی صدی کے ان سترہ برسوں میں تو مختلف انداز سے اس سوال کی گونج ہمیں اپنے ادبی ایوان میں رہ رہ کر سنائی دینے لگی ہے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو ایک بار پھر حوصلہ بندھاتا ہے۔ جن چیزوں اور کاموں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو، انسان یا اُس کا سماج اُن کے بارے میں کچھ سوچنے یا پوچھنے کا تردّد بھی نہیں کرتا۔ اگر ادب کی بقا کا سوال ہمیں درپیش ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ ہم کسی نہ کسی صورت اُسے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کی ضرورت چاہے کتنی ہی کم محسوس ہورہی ہو یا ہم نے اُس کے طرف سے دھیان ہٹا لیا ہو، لیکن وہ اب بھی ہمارے اندر باقی ہے اور کسی نہ کسی طرح اپنے ہونے کا احساس بہرحال دلا رہی ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اکیس ویں صدی کے اس منظر نامے میں گیجٹس کی برتری کا جو احساس پیدا کیا جارہا ہے یا پھیلایا جارہا ہے، وہ اب تک ہماری روح پر غالب نہیں آسکا ہے۔ انسانی تہذیب کی کایا کلپ کا جو سامان کیا گیا ہے، ٹیکنولوجی کا سیلاب اب بھی اُس کا ملیامیٹ کرنے اور اْس کی اقدار کو نابود کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ یہ امید افزا بات ہے۔ روشنی معدوم نہیں ہوئی ہے۔ ہمارے سوال ہمارے اندر کی حرارت کا سراغ دے رہے ہیں۔ یہ بلاشبہ ہماری تہذیب، ہمارے ادب کے زندہ ہونے کا ثبوت ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).