کیا ’این آر او‘ پر کام شروع ہو چکا ہے؟


وزیر اعظم عمران خان اور ان کے سب سے پر جوش ترجمان وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بارہا اعلانات کے باوجود اب حکومت پارلیمنٹ میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو بنانے پر تیار ہوگئی ہے۔ اپوزیشن لیڈر کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں کے دیگر لیڈروں نے قومی اسمبلی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے اس اعلان کے بعد حکومت کے فیصلہ کو سراہا اور اسے جمہوریت کے لئے ایک اہم پیش رفت قرار دیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے اس سے پہلے اسمبلی میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے ملاقات کرکے اس معاملہ میں ہدایت حاصل کی ہے اور اب حکمران جماعت کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ شہباز شریف بطور اپوزیشن لیڈر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین بنتے ہیں یا وہ کسی دوسرے رکن کو یہ عہدہ دینا چاہتے ہیں۔

اپوزیشن کی طرف سے حکومت کے اس تازہ فیصلہ کو ’خوشگوار اور مثبت یو ٹرن‘ کہا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر سردار ایاز صادق نے اس فیصلہ کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اسی قسم کے مثبت یو ٹرن لیتی رہے تو پارلیمنٹ کا کام آسان ہوجائے گا۔ اس سے پہلے شاہ محمود قریشی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے اپوزیشن کو شہباز شریف کے علاوہ کسی بھی رکن کو اس عہدہ پر فائز کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن اپوزیشن نے حکومت کے ساتھ تعاون سے انکار کردیا اور وہ کسی بھی قائمہ کمیٹی کی رکنیت اختیار کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔ اس ضد کی وجہ سے پارلیمنٹ میں قانون سازی کا عمل متاثر ہورہا ہے۔ تاہم اب وزیر اعظم اپوزیشن کے مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیر مین کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ ہوگئے ہیں تاکہ قانون سازی کا عمل شروع ہو سکے۔

حکومت کے اس ’یو ٹرن‘ اور اپوزیشن کے ایک اصولی مؤقف کو تسلیم کرنے کے بعد شہباز شریف سے توقع تو یہ کی جانی چاہئے کی وہ اپنی جگہ کسی دوسرے اپوزیشن رکن کو اس عہدہ کے لئے نامزد کردیں۔ تاہم اس قسم کا حوصلہ دکھانے کے لئے جس تدبر اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، شہباز شریف کی قیادت میں اب تک مسلم لیگ (ن) اس کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کا امید وار بننے کے علاوہ خود ہی اپوزیشن لیڈر بننا ضروری خیال کیا تھا حالانکہ وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پیپلز پارٹی کو شہباز شریف کے نام پر ہی اعتراض تھا۔ کیوں کہ وہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے معاون چئیرمین آصف زرداری کے خلاف بدکلامی کرتے رہے تھے۔ لیکن اس کے بعد اپوزیشن میں مسلم لیگ کے حجم کے بل بوتے پر وہ خود ہی اپوزیشن لیڈر بن بیٹھے۔ اس موقع پر بھی وہ پیپلز پارٹی کے چئیر مین بلاول بھٹو زرداری کو اس عہدے کے لئے نامزد کرکے ایک طرف اپوزیشن میں قومی امور پر ہم آہنگی پیدا کرنے کا سبب بن سکتے تھے اور دوسری طرف ملک میں سیاست دانوں کی نوجوان نسل کو کارکردگی دکھانے اور اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کا موقع فراہم کرسکتے تھے۔ بلاول بھٹو زرداری اگرچہ پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں لیکن پہلے دن سے انہوں نے اسمبلی میں بلوغت اور اصولی سیاسی مؤقف سامنے لانے کے رویہ کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کی اس صلاحیت کی توصیف ان کے سیاسی مخالفین کو بھی کرنا پڑی ہے۔ عمر رسیدہ سیاسی لیڈروں کو ایسی نوجوان قیادت پر فخر کرتے ہوئے اسے قومی منظر نامہ میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کا موقع دینا چاہئے ۔

شہباز شریف کے اس کردار کے تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ وہ اب بھی اس سیاسی زیرکی اور بلند ظرفی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہیں گے جس کی ان سے توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن وہ اپنے محدود سیاسی تصور اور اپنی ذات اور خاندان کو معاملات کا محور بنائے رکھنے کی خواہش کی وجہ سے اس امید پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود کو قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کے عہدے پر فائز کیا ہؤا ہے بلکہ اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز کو پنجاب میں اپوزیشن لیڈر بنوایا ہؤا ہے۔ اب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چئیرمین بن کر بھی انہیں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا ۔ حکومت کے مالی فیصلوں اور معاملات پر گرفت رکھنے کے لئے انہی کے پارلیمانی گروپ میں باصلاحیت لوگوں کی کمی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپوزیشن جماعتوں میں سے بھی کسی زیادہ اہل شخص کو اس عہدہ پر نامزد کرکے یہ واضح کرسکتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست کی بنیاد اختیار اور پوزیشن نہیں ہے بلکہ وہ بہتر جمہوری اور پارلیمانی کلچر کے فروغ کے لئے سرگرم عمل ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ شہباز شریف کو دینے سے گریز کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ماضی میں وزیر اعظم عمران خان یہ مؤقف اختیا رکرتے رہے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی کو گوشت کی نگرانی پر بٹھا دیا جائے۔ کیوں کہ سابقہ حکومت مسلم لیگ (ن) کی تھی اس لئے سابق وزیراعظم نواز شریف کے بھائی کو یہ عہدہ دینے کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ اپنی حکومت کی بدعنوانیوں پر پردہ ڈال سکیں گے۔ سردار ایاز صادق نے آج حکومت کے مؤقف میں تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پبلک کاؤنٹس کمیٹی میں جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے متعلق کوئی معاملہ زیر غور آئے گا تو اس کا چئیرمین اجلاس کی صدارت سینئر ترین رکن کے حوالے کردے گا۔ اس کے علاوہ کمیٹی میں اکثریت حکمران جماعت کو ہی حاصل ہوگی اور چئیر مین کا صرف ایک ہی ووٹ ہو گا۔ اس لئے یہ اندیشہ درست نہیں ہے کہ چئیرمین پی اے سی کے طور پر شہباز شریف سابقہ حکومت کی بدعنوانیوں کو چھپانے میں کردار ادا کریں گے۔ تاہم اگر شہباز شریف، اس معاملہ میں حکومت کے تبدیلی قلب کے بعد خود بھی ایک نئی مثبت پارلیمانی روایت قائم کرسکیں تو ملک میں جمہوری و پارلیمانی طریقہ کار پر اس کا مثبت اثر مرتب ہو سکتا ہے۔ شہباز شریف اس وقت بدعنوانی کے الزامات میں نیب کی حراست میں ہیں۔ انہیں متعدد معاملات میں تحقیقات اور الزامات کا سامنا بھی ہے۔ کسی دوسرے رکن کو یہ عہدہ دے کر وہ خود اپنے خلاف الزامات کو مسترد کرنے کی قانونی جنگ زیادہ مؤثر انداز میں لڑ سکتے ہیں۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چئیرمین کے لئے اپوزیشن کے نمائندے کو دعوت دینا پاکستانی قومی اسمبلی کی روایت رہی ہے جس کا سہارا لے کر مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں یہ عہدہ شہباز شریف کو دینے کی ضد کرتی رہی ہیں۔ حکومت قواعد کے مطابق یہ مطالبہ ماننے کی پابند نہیں تھی لیکن معمولی اکثریت سے اقتدار سنبھالنے والی تحریک انصاف کے بھاری بھر کم اپوزیشن سے تصادم کی صورت حال میں پارلیمنٹ میں کسی قسم کی قانون سازی کروانے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی۔ شاہ محمود قریشی نے حکومت کے مؤقف کی تبدیلی کے لئے یہی دلیل پیش کی ہے۔ تحریک انصاف کو شروع میں ہی اپنی پارلیمانی قوت کا ادراک کرتے ہوئے ایسا سخت مؤقف اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہئے تھا جس سے اسے بہر حال پیچھے ہٹنا پڑا ہے۔ اس طرح اڑھائی تین ماہ تک پارلیمنٹ کو جزو معطل بنایا گیا اور اپوزیشن کے ساتھ مفاہمت کی بجائے ضد کا رشتہ استوار کیا گیا جو باقی ماندہ پارلیمانی مدت میں بھی حکومتی اتحاد کے لئے مشکلات کاسبب بنا رہے گا۔

وزیر اعظم عمران خان اس معاملہ کو بدعنوانی کے خلاف اپنی حکومت کی جدوجہد اور شفافیت کی مہم کے ساتھ جوڑتے رہے ہیں۔ اسی لئے ان کی طرف سے بار بار یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ چوروں کو بچنے کا کوئی موقع نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی نواز شریف یا آصف زرداری کے ساتھ کوئی این آر او ہو گا۔ یعنی حکومت کسی دباؤ میں اپوزیشن کی کوئی ایسی بات نہیں مانے گی جس سے کرپشن کے خلاف مہم متاثر ہونے کا اندیشہ ہو۔ اسی نکتہ کی بنیاد پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چئیرمین شپ کو ٹیسٹ کیس بنا لیا گیا تھا کیوں کہ وزیر اعظم ،شریف برادران کو کسی واضح عدالتی فیصلہ کے بغیر ہی بدعنوان اور لٹیرے مانتے ہیں۔ وہ اپوزیشن کے ساتھ تصادم جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ تک کہہ چکے ہیں کہ حکومت بدعنوان اپوزیشن کے ساتھ تعاون کرنے کی بجائے صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے اہم معاملات پر قانون نافذ کرکے کام چلا سکتی ہے۔ تاہم اب انہوں نے’ بہترین قومی، جمہوری اور پارلیمانی مفاد‘ میں یو ٹرن لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس پس منظر کی وجہ سے اس فیصلہ کی روشنی میں یہ سوال تو پیدا ہو گا کہ کیا عمران خان بالآخر ’این آر او‘ پر آمادہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ اپوزیشن کو مراعات دئیے بغیر وہ امور حکومت چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یا ان کی حکومت ان قوتوں کے دباؤ کے سامنے بے بس ہورہی ہے جو بہر حال ملک میں ایک پارٹی کو حتمی سیاسی قوت کے طور پر قبول کرنا ’قومی مفاد ‘ کے منافی سمجھتی ہیں۔ کیا یہ فیصلہ اس بات کا اشارہ ہے کہ شہباز شریف کو متبادل سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کرنے کی راہ ہموار ہورہی ہے۔ ایسی صورت میں عمران خان کو اب این آر او جیسا نعرہ استعمال کرتے ہوئے احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali