جناب محمود ہاشمی، کشمیر اداس ہے


محمود ہاشمی اردو ادب میں ایک بڑا نام، تنقید نگار، مضمون نویس، مضف، ایڈیٹر، ڈرامہ نگار اور ایک بہترین استاد کی تمام خوبیاں آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔

آپ کا تعلق میرپورآزاد کشمیر کے علاقہ ڈڈیال کے ایک گاؤں پوٹھہ بنگش سے تھا۔ آپ اگست 1920 ء کو متحدہ ہندوستان کی ریاست قلات میں پیدا ہوئے۔ جہاں آپ کے والد محترم ملازم تھے۔ آپ کا نام سلطان محمود رکھا گیا لیکن آپ نے بعد میں اپنے والد صاحب کے نام کی نسبت سے اپنا نام محمود ہاشمی تبدیل کیا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ریاست قلات میں ہی حاصل کی۔ ان کے والد صاحب تعلیم یافتہ تھے اور ان کو مطالعہ کا شوق بھی تھا۔

ان کے گھر میں بہت سی کتابیں تھیں اور اس زمانے کے مشہور رسائل ”الہلال اور ابلاغ“ بھی آتے تھے۔ چنانچہ بچپن سے ہی سلطان محمود کا کتاب سے دوستی کا رشتہ قائم ہو گیا۔ اس دو ر میں سمجھ نہ آنے کے باوجود خواجہ حسن نظامی، راشد الخیزی اور بہت سے دوسرے مشہور مصنفین کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ 1930 ء میں والد کے انتقال کے بعد آپ کو قلات ریاست چھوڑ نی پڑھی۔ لہذا آپ اپنے آبائی گاؤں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے آپ اپنے ایک عزیز کے پاس گوجرہ فیصل آباد میں گئے اور وہاں سے میٹرک کا امتحان 1937 ء میں پاس کیا اور مزید تعلیم کے لئے جموں تشریف لے گئے لیکن وہاں ابتداء میں کچھ مشکلات پیش آئیں۔

لیکن بعد میں آپ کو پریس آف ویلز کالج میں داخلہ مل گیا۔ جہاں سے 1941 ء میں گریجویشن کرنے کے بعد آپ نے علی گڑھ سے ایم اے، ایل ایل بی کیا۔ جہاں پر آپ کو ممتاز ادیب اورماہر تعلیم جناب رشید احمد صدیقی اور پروفیسر آل احمد سرور کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ آپ کے والد محترم نے ریاست قلات کو نوکری کے دوران کافی سرمایہ کیا تھا جس کی وجہ سے آپ کو دوران تعلیم کوئی مالی مشکلات پیش نہیں آئیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو نوکری ملنے میں کافی دشواری پیش آئی۔ آپ کو تعلیم کے شعبے میں دلچسپی تھی۔ اسی میں ملازمت کے خواہاں تھے۔ ابتداء میں معمولی ملازمتوں کو ٹھکرا دیا اور کالج کی ملازمت کے لئے کوشش جاری رکھی۔ مئی 1944 ء میں آپ کا تقرر پرنس آف ویلز کالج جموں میں لیکچرار کے طور پر ہو گیا اور تقریباً ایک سال بعد امرسنگھ ڈگری کالج سری نگر میں تبادلہ ہو گیا۔ بعد ازاں آپ دوبارہ جموں کالج میں ملازمت کرتے رہے۔

آپ نے سکول اور کالج کے دور میں افسانے اور مضمون لکھنے شروع کر دیے جو کہ مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتے تھے۔ آپ پرنس آف ویلز کالج جموں میں کالج کے محلہ ”توی“ کے مدیر تھے۔ کالج کی ملازمت کے دوران آپ افسانے، ڈرامے اور تنقیدی مضامین لکھتے رہے۔ کشمیر کی تاریخ میں سب سے پہلے سٹیج ڈرامہ بھی آپ نے کیا۔ آپ کا ناولٹ ”موت کا جہنم“ 1946 ء میں چھپا۔ آپ نے مشہور روسی ادیب ”ٹالسٹائی“ کی کہانیوں کا ترجمہ اردو میں کیا۔ اس کے علاوہ بہت سی کتابوں پر تبصرے بھی کیے۔ لیکن جو کچھ آپ نے 1947 ء اور 1948 ء میں دیکھا اور بعد کے حالات کے بارے میں اپنے احساسات کو اپنی کتاب کشمیر اداس ہے میں بیان کیا ہے۔ ابھی تک کشمیر کی آزادی کے واقعات جموں کی یادوں اور ہندوؤں کی زہنیت پر اس سے مستند کوئی کتاب کسی مصنف نے نہیں لکھی ہے۔

کشمیر کی آزادی کے دوران جموں میں مسلمانوں پر جو ظلم وستم ہوا۔ مہاجرین کے قافلوں پر جو حملے ہوئے اور اس دوران جو قتل و غارت اور خواتین کے اغواء اور عصمت دری کے واقعات ہوئے۔ آپ نے ان کو بہت قریب سے دیکھا اور محسوس کیا۔ ان واقعات اور احساسات کو آپ اپنی شہرہ آفاق تصنیف۔ ”کشمیر اداس ہے“ میں بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہاشمی صاحب نے کشمیر اور کشمیریوں کی بے کسی، بے چارگی اور ان کے جذبات اور حساسات کی عکاسی کے ساتھ ساتھ حکومتی ایوانوں میں ہونے والی سازشوں، سیاست دانوں کی قلابازیوں اور بھارتی فوج کی کشمیریوں کو دوبارہ غلامی میں جھکڑنے کی اس طرح منظر کشی کہ جنت بے نظیر کی جو حسین تصویر لوگوں کے ذہن میں نقش تھی۔ اس کی جگر ”کشمیر اداس ہے“ نے لے لی۔

پارٹیشن کے بعد آپ 1948 ء میں آزاد کشمیر تشریف لائے اور نوزائیدہ حکومت میں چیف پبلسٹی افسر کے طور پر ملازمت اختیار کی اور حکومت کے لئے بہت زیادہ کام کیا۔ لیکن پڑھنے پڑھانے میں زیادہ دلچسپی اور رجحان ہونے کی وجہ سے ملازمت چھوڑ کر آپ 1952 ء میں گورنمنٹ کالج میرپور میں لیکچرار ہو گئے۔ اسی دوران ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے مختلف موضوعات پر تقریریں بھی نشر کیں۔ ایک سال بعد ہی آپ کو گورنمنٹ اور نیسٹل کالج مظفرآباد کا پرنسپل مقرر کر دیا گیا۔

ستمبر 1953 ء آپ کی زندگی میں ایک اہم موڑ لے کر آیا اور آپ نے کالج کی ملازمت چھوڑ کر انگلستان کا سفر اختیار کیا اور پھر آپ وہی کے ہو کر رہ گئے۔ شروع کے کچھ سال مختلف شہروں میں گزار کر آپ 1956 ء میں برمنگھم آئے اوریہاں سکول میں تدریس کا آغاز کیا اورساتھ ہی ایم اے ایجوکیشن بھی کر لیا۔

1960 ء کی دیہائی میں پاکستان سے بہت سے لوگ ملازمت کی غرض سے انگلستان آئے اور مختلف جگہوں اور شہروں میں کام شروع کیا۔ زیادہ لوگ لندن میں آباد ہوئے۔ آپ نے محسوس کیا کہ ایشیائی پاکستانی لوگوں میں رابطے کے لئے کوئی ذریعہ ہونا چاہیے جس کے لئے اپریل 1961 ء میں آپ نے اردو اخبار ”مشرق“ کا آغاز کیا جو کہ برطانیہ اور یورپ میں اردو زبان کا پہلا اخبار تھا۔ یوں آپ کا شمار مغرب میں اردو صحافت کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل برطانیہ میں اردو زبان بولنے والے بھی ہزاروں میں تھے۔ اردو صحافت کا سورج برطانیہ میں ”مشرق“ سے طلوع ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ محمود ہاشمی نے تقریباً بارہ سال تک تمام نامساعد حالات میں ”مشرق“ لندن کا اجراء بڑی باقاعدگی سے جاری رکھا۔

1973 ء میں مشرق اخبار کی نظامت اور چیف ایڈیٹر شپ سے علیحدگی اختیار کر لی اور پھر سے درس و تدریس کی طرف توجہ کر لی اور ساتھ ہی برمنگھم سے نکلنے والے ایک مقامی اخبار کی ایڈیٹر شپ سنبھال لی۔ اخبار کا نام ”سالٹلے نیوز“ تھا۔ اسی دوران آپ نے ”ایک گھر بنانا چاہیے“ تصنیف کی۔

1979 ء میں برطانیہ کے شہر ”پیٹربروہ“ میں اردو کے استاد کی آسامی کا اشتہار دیکھا تو اپلائی کیا اور جس عمر میں لوگ ریٹائرمنٹ کا سوچتے ہیں آپ نے دوسرے شہر میں جا کر ملازمت اختیار کر لی۔ چونکہ آپ کو درس و تدریس سے دلی لگاؤ تھا۔

پانچ سال یہاں پر اردو کے استاد کے طور پر کام کیا۔ اس دوران برطانیہ کے رہنے والے ایشیائی بچوں کے لئے اردو کا قاعدہ تصنیف کیا جس سے بچوں کو اردو پڑھنے لکھنے میں بہت آسانی ہوئی۔ 1984 ء میں آخر کار آپ نے ریٹائرمنٹ لے لی اور پڑھنے لکھنے کا کام آخری برسوں تک جاری رکھا۔

آپ میں رکھ رکھاؤ اور وضع داری بدرجہ اتم موجود تھی۔ لیکن آپ کسی قسم کی بناوٹ اور تکلف سے کوسوں دوعر رہے۔ گفتگو میں نرمی اور دھیما پن تھا۔ مجلس رسمی اور بڑی ہو یانجی اور غیر رسمی آپ کی گفتگو کی سادگی برقرار رہتی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ تمام عمر تقریباً اپنے آبائی وطن ڈڈیال سے باہر گزارنے کے باوجود اپنے گھر کے افراد اور دوسرے اہل میرپور سے گفتگو میں آپ کا لہجہ ٹھیٹھ میرپور ہوتا تھا۔ مزاج میں سادگی، ملنساری، نرم گفتاری اور خوش خلقی کی وجہ سے ہمیشہ سے ہر خاص و عام کی نظرمیں محترم رہے۔

فن شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ ایک اچھے اور سچے مصنف کی شخصیت، اس کی سوچ، لفظوں کا انتخاب اور بیان کے اسلوب میں بول رہی ہوتی ہے۔ یہ بات محمود ہاشمی پر بالکل صادق آتی ہے۔ ان کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ وہ ایک پیدائشی ادیب ہیں اور محمود ہاشمی واقعی ایک پیدائشی اور فطری ادیب ہیں اور ادب سے ان کا عشق ”پون“ صدی تک جاری رہا۔ درس و تدریس اور صحافت کا ادب سے گہرا تعلق ہے۔ آپ نے ان تینوں شعبوں میں کام کیا اور سب میں کمال عروج تک پہنچے۔ آپ کی شخصیت اور نگارشات پر لکھنے کے لئے یہ مختصر سا مضمون کافی نہیں ہے بلکہ ان کے فن اور شخصیت پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہے۔ ان ی ادبی کاوشوں، تصنیفات اور تحقیق پر کئی مقالے لکھے جا سکتے ہیں جو کہ میرے جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں۔

راقم کو ان سے ملنے کا شرف ایک بار ان کے گھر برمنگھم میں حاصل ہوا۔ میرے ایک کلاس فیلو اور دوست عبدالحفیظ نے بریڈ فورڈ میں گھر میری دعوت کے بعد ان کی کتاب ”کشمیر اداس ہے“ کا ایک نسخہ عطا کیا اور کمال مہربانی سے ان کے گھر کا پتہ اور فون نمبر بھی کتاب پر لکھ دیا۔ یہ 2004 ء کی بات ہے پھر میں نے ان سے ملاقات کے لئے وقت لیا اور ان سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ کشمیر اور ادب پر ان سے کافی استغادہ حاصل ہوا۔

بعد میں کافی دفعہ وقت نکالنے کی کوشش کی لیکن موقع نہ مل سکا جس کا از حد افسوس ہوا۔ ان کی نجی زندگی کافی حد جاننے کے باوجود لکھنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ کیونکہ یہ ان کے پرسنل حالات ہیں۔ 1984 ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے اپنے آپ کو مطالعہ اور تصنیف و تالیف میں مصروف رکھا۔ آخری ایام میں آپ کافی کمزور ہو گئے تھے۔ آنا جانا بھی موقوف کر دیا تھا۔

ادب درس و تدریس، صحافت اور تصنیف و تالیف کا یہ درخشندہ ستارہ بلکہ چاند 30 جنوری 2014 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا اور برمنگھم انگلینڈ میں ہی آسودہ خاک ہیں۔

***************
اس مضمون کی تیاری میں انٹرنیٹ ”کشمیر اداس ہے“ اور جناب یعقوب نظامی کی ترتیب کردہ کتاب ”مجموعہ نگارشات محمود ہاشمی“ سے مدد لی گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).