کرتار پور صاحب اور گورو نانک کی چار اداسیاں


گذشتہ کئی دنوں سے کرتار پور راہداری کے حوالے سے میں دوستوں اور جاننے والوں کی اچھی بری آراء بکثرت سن رہا ہوں۔ حکومتِ پاکستان کے اس اقدام سے جہاں کئی لوگ خوش ہیں تو وہیں کچھ لوگوں کو اس فیصلے پر کئی اعتراضات بھی ہیں۔ کرتار پور کے حوالے سے، میرے وہ دوست جو اس معاملے پر نہایت سطحی معلومات رکھتے ہیں، اور بلا سوچے سمجھے اپنی رائے داغ دیتے ہیں، آج اُن ساتھیوں کے لیے میں اپنے دل کی کچھ باتیں یہاں بانٹنا چاہتا ہوں۔ تو پہلے چند باتیں اس پس منظر پہ ہوجائیں جس نے کرتار پور کو وہ مقام و مرتبہ دیا، جس کی عقیدت اور محبت کی بنیاد پر تمام سکھ برادری کے لوگ یہاں کھینچے چلے آتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں کوئی بیالیس ہزارمذاہب ہیں۔ ہر مذہب اپنے الگ عقیدے، نظریے، اصول اور کچھ پابندیوں پر کھڑا ہے۔ کسی مذہب کے حصے میں ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول آئے تو کسی کو تینتیس کروڑ دیوی دیوتا کا اوتار نصیب ہوا۔ کسی کو ایک بدھا ملا تو کسی کو ایک یسوع مسیح۔

لیکن ان سب مذاہب میں ایک مذہب ایسا بھی ہے جس کے حصے میں دس ”گورو“ آئے۔ لفظ ”گورو“ سنسکرت کے دو الفاظ ”گو“ اور ”رو“ کا ملاپ ہے۔ ”گو“ کا مطلب ”اندھیرا دور کرنے والا“ اور ”رو“ کا مطلب ”روشنی پھیلانے والا“۔ یہ مذہب ”سکھ مت“ ہے۔ سکھ مت کے پیشوا بابا گورو نانک دیو جی ہیں۔ بابا گورو نانک جی 15 اپریل 1469 ء میں ”رائے بھوئے دی تلونڈی موجودہ سری ننکانہ صاحب“ میں پیدا ہوئے۔ یہ پنجابی مہینے کے لحاظ سے کتک مہینے کی پورن ماشی کی رات تھی یعنی جس دن چاند مکمل ہوتا ہے۔

بابا گورو نانک جی نے اپنی پہلی سانس سے ہی وحدانیت کا درس دیا۔ اس کا بہترین ثبوت بابا جی کا سکھ مت کی کتاب سری گورو گرنتھ صاحب میں درج ہونے والا اور سکھ مت کا بنیادی کلام ”سری جپ جی صاحب“ میں مل سکتا ہے کیوں کہ اس کلام کا آغاز ہی ”اِک اونکار“ یعنی ”خدا ایک ہے“ سے ہوتا ہے۔ بابا جی نے اپنی مکمل حیات واحدانیت اور انسانیت کی تبلیغ میں گزار دی۔ اس کے واسطے بابا جی نے دنیا میں چاروں اطراف (مشرق، مغروب، شمال اور جنوب) میں چار مختلف سفر کیے ان کے ہر سفر کو ”اُداسی“ کا نام دیا گیا۔ اداسی سنسکرت کا لفظ ہے جس کا مطلب آگہی کا سفر ہے۔ اس طرح بابا جی نے چار اداسیاں قائم کی۔ یہ چار اداسیاں غالباً 1500 ء تا 1521 ء تک طے کی جاتی ہیں۔

1۔ پہلی اداسی 1500 ء تا 1506 ء کے 7 سال کے عرصہ میں مکمل کی گئی جس میں انہوں سلطان پور، تلمبہ، (جدید مخدوم پور، ضلع ملتان) ، پانی پت، دہلی، بنارس (وراناسی) ، نانک ماتا (ضلع نینی شیل، یو۔ پی۔ ) ، تنڈا وڑجاڑاں ( ضلع رام ہور) ، کامرپ (آسام) ، اسادیش (اسام) ، سید پور (ایمن آباد، پاکستان) ، پسرور (پاکستان) ، سیالکوٹ (پاکستان) گئے۔

2۔ دوسری اُداسی 1506 ء 1513 ء یعنی 7 سال کے عرصہ میں کی گئی۔ اس دوران انھوں نے دھانسلی ویلی، سنگلدیپ (سری لنکا) گئے۔

3۔ تیسری اداسی 1514 ء تا 1518 ء کے 5 سالوں میں مکمل کی گئی۔ اس دوران بابا جی کشمیر، سمر پربت، نیپال، تاش کنڈ، سِکم، تبت اور چائنہ کا بھی ذکر آتا ہے۔

4۔ چوتھی اور آخری اداسی 1519 ء تا 1521 ء کے 3 سالوں میں مکمل کی گئی۔ جس میں انھوں نے مکہ مکرمہ، ترکی اور عرب ممالک بھی گئے۔ کہا جاتا ہے کہ بابا جی سے منسوب سائیریا میں ایک مسجد ہے جس کا نام ”ولیِ ہند“ ہے جو کہ حضرت بابا فرید (رح) جی کی مسجد کے قریب واقع ہے۔ کچھ روایات کے مطابق، آخری اداسی میں افریقہ جانے کا بھی ذکر ہے۔

اس سفر کے دوران بابا گورو نانک جی نے 39000 کلو میٹر کا سفر محض پیدل طے کیا۔ ان کا یہ سفرچاروں موسم، پہاڑوں ریگستانوں، جنگلات، سمندروں اور نہ جانے کہاں کہاں سے طے ہوتا ہوا ”کرتا پور صاحب“ پر ختم ہوا اور یہاں پر انھوں نے اپنی حیات کے آخری لمحات گزارے۔ اس سفر کے دوران بابا جی کے بہت بڑے مسلمان مرید جن کا نام ”مردانہ“ تھا انہوں نے بابا جی کا ساتھ دیا۔ ”بھائی مردانہ جی“ کا تعلق ایک مراثی خاندان سے تھا اور اس زمانے میں اس طرح کے لوگوں کو بہت نیچ سمجھا جاتا تھا۔ بھائی مردانہ جی ویسے بابا جی سے عمر میں کافی بڑے تھے لیکن اپنے آپ کو بابا جی کے سامنے بہت چھوٹا سمجھتے تھے۔ ان کی دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ نہایت ہی عاجزانہ اور فقیرانہ لباس اور اخلاق رکھتے تھے۔ اکثر اوقات بھائی مردانہ جی رباب کو چھیڑتے تو دوسری طرف سے بابا جی گورو بانی ( وہ الہی کلام جو گورو نے لکھا ہو۔ ) گاتے تھے۔ بھائی مردانہ جی سے جب کسی نے پوچھا کہ تمھارا بابا نانک کون ہے؟
اس کا دھرم کیا ہے؟
تو مردانہ جی اکثر کہتے کہ انسانیت اس کا دھرم اور واحدنیت اس کا مذہب۔

”کرتار پور صاحب“ کو تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یہ ”کرتار پور صاحب“ وہی جگہ ہے جس کا تزکرہ آج کل تمام قسم کے ذرائع ابلاغ پر چل رہا ہے۔ ”کرتار پور صاحب“ پر پہلی بار بابا جی نے، باون سالہ زندگی گزارنے کے بعد، 1521 ء میں (چوتھی اداسی کے اختتام پر) پہلا قدم رکھا اور یہیں کے ہو گئے۔ یہاں پر انھوں نے اپنے تین اوپدیش:
1:کِرت کرو ( کماؤ لیکن ایمانداری کے ساتھ۔ )
2:نام جپو (خدا تعالٰی کی حمد و ثنا کیا کرو۔ )
3:ونڈ چھکھو (جو ہے، جتنا ہے مل بانٹ کر کھاؤ۔ )
کو عملی جامہ کھیتی باڑی کرکے، رب کو یاد کرکے اور لنگر عام تقسیم کر کے پہنایا۔ بابا جی کے کہے یہ تین اوپدیش سکھ مت کی بنیاد ہیں اور ہر سکھ کے جینے کے اصول ہیں۔

بابا جی نے اس جگہ کا نام اپنی حیات کے دوروان خود ”کرتار پورا“ (یعنی رب کی جگہ) رکھا تھا۔ کرتار دراصل رب کا صفاتی نام ہے، جس کا مطلب ہے بنانے والا، اور پور کے معنی جگہ یا بستی کے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں یقیناً جب کبھی کسی نے اُن سے پوچھا ہوگا کہ کیا بابا جی یہ جگہ آپ کی ہے تو بابا جی نے کہا ہوگا کہ ”کرتار پورا“ (یعنی یہ رب کی جگہ ہے ) ۔

سکھ مت کی روایت کے مطابق یہ وہی جگہ ہے جہاں پر بابا گورو نانک جی 22 ستمبر 1539 ء کو جوتی جوت سمائے، یعنی اس فانی دنیا کو خیر آباد کَہ گئے۔ اس وقت یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور دور دور سے لوگ بابا جی کے جسدِ خاکی کے دیدار کے واسطے آنے لگے، بہت دور دور سے ان کے مرید اور ان کے پیرو کار آئے۔ غالباً شام کو جب بابا جی کی میت کو آخری رسومات کے لیے لے جایا جانے لگا تو تنازعہ کھڑا ہوا۔ کئی مرید چاہتے تھے کہ ان کو، ان کی مذہبی رسومات کے مطابق انتم سنسکار ( نذرِ آتش کرنا) کیا جائے لیکن اس کے برعکس کچھ پیروں کاروں نے یہ کہا کہ ان کے جسدِ خاکی کو خاک کے حوالے کر دیا جائے۔ چونکہ دونوں آرا بالکل مختلف تھیں سو بات لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی، ٹھیک اسی دوران ایک سیانے بندے نے بَلند آواز میں کہا کہ چلو بابا جی کی رائے جانتے ہیں۔

جب انہوں نے جسدِ خاکی سے چادر ہٹائی تو سکھ مت کی روایت کے مطابق بابا جی کا جسدِ خاکی وہاں پر موجود نہ تھا اور اس کی جگہ گلاب کی تازہ پنکھڑیاں تھیں۔ وہاں پر موجود سب لوگ ششدر رہ گئے اور ایک دوسرے کا منھ تکنے لگے، اس کے بعد ان لوگوں نے اس چادر اور پتوں کو دو برابر حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصے کا انتم سنسکار کیا گیا اور ٹھیک اسی جگہ پر سمادھی بنا دی گئی، دوسرا حصہ دفن کیا گیا اور ٹھیک اسی جگہ قبر بنا دی گئی۔ اس واقعے کو ساڑھے چار سو سال سے زائد وقت گزر چکا ہے۔ اس عرصے میں بابا جی کے ان گنت عقیدت مند آئے۔ کسی نے آکر فاتحہ خوانی کی اور چادر چڑھائی تو کسی نے دیے جلائے اور ارداس کی، کسی نے موم بتیاں روشن کیں اور دعا کی تو کسی نے ماتھا ٹیک کر پراتھنا کی اور اگربتیاں سلگائیں۔

بابا جی کے اتنے رنگ برنگے مرید ہونے کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے ان کا انسانیت کے نام پر عَلَم بَلند کرنا۔ بابا جی نے کبھی کسی کو مذہب کے نام پر نہیں بلایا اور نا ہی مذہبی تبلیغ کی بلکہ انسانیت کو سب سے زیادہ ترجیح دی اورسب کو ایک رب کی پرستش یا عبادت کا درس دیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2