گیس بحران، عمران خان کی حکومت کا ایک غیر آئینی قدم؟


سندھ میں سی این جی اسٹیشنز کو غیر معینہ مدت تک کے لئے بند کریا گیا، یہ وہ خبر ہے جس نے کراچی سے کشمور اور کے ٹی بندر سے کارونجھر جھیل تک سندھ بھر کے باسیوں کو پریشان کردیا ہے۔ بات صرف سی این جی تک محدود نہیں، صنعتوں کو بھی گیس کی فراہمی تین ماہ تک بند کردی گئی ہے۔

سندھ میں 650 سی این جی اسٹیشنس ہیں، جن میں سے 300 صرف کراچی شہر میں ہیں، گیس فراہمی بند ہونے سے نہ صرف منی بسز، رکشا، ٹیکسی اور آن لائین ٹیکسی کا پہیہ بھی رکنے کے قریب ہوگیا ہے، بلکہ انٹرسٹی ٹرانسپورٹ بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والوں کو گھنٹوں سڑکوں پر خوار ہوتے دیکھا گیا، جبکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والوں کی گاڑیاں پٹرول پر منتقل ہونے کی وجہ سے ان کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔

رکشا اور ٹیکسی کے کرایوں میں من مانے اضافے اور اکا دکا چلنے والی بسوں میں بے انتہا رش نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے، جبکہ سندھ کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی زندگی مفلوج ہو کررہ گئی ہے، دودھ، سبزیاں اور دیگر اجناس کی ترسیل متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ طلبہ اور طالبات کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ ان حالات میں عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے پہلے تو یہ کہا گیا کہ ٹنڈو جام، کنڑ اور گمبٹ گیس فیلڈز میں فنی خرابی کے باعث گیس کا بحران پیدا ہوا ہے جبکہ کچھ ہی گھنٹوں میں یہ غلط بیانی ثابت ہوگئی، کیونکہ مذکورہ گیس فیلڈز میں معمول کی پیداوار جاری ہونے کی تصدیق بھی ہوگئی، سی این جی ایسوسی ایشن کے وفد نے ایس ایس جی سی حکام سے ملاقات کی تو ان کو بتایا گیا کہ کوشش کر رہے ہیں کہ گیس سپلائی کو غیر معینہ مدت کے بجائے کسی شیڈیول کے ماتحت کیا جائے۔ پہلے بھی ہفتے میں تین دن گیس سپلائی بند رہتی ہے، لگتا ہے اس دفعہ حالات بہت خراب ہوں گے۔

ایوانِ صنعت و تجارت کراچی اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ گیس کی فراہمی تین مہینے تک روک دینے کا مقصد سندھ کی صنعتوں کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت خود ساختہ بحران پیدا کرکے ایل این جی خریدنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے، جس کی قیمت موجودہ گیس سے کم از کم دگنی ہے۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی کے ارکان اس اہم مسئلے کی طرف ایوان کی توجہ مبذول کروانی چاہی تو پی ایم ایل این کو خواجہ برادران کے پراڈکشن آرڈرز جاری کرنے کی فکر کھائے جارہی تھی، جیسے ہی یہ معاملہ ایوان میں اٹھا تو تحریک انصاف کے رہنماؤں کو موقع مل گیا، فواد چوہدری اور مراد سعید خوب گرجے برسے، اس طرح ایوان میں سندھ کے کروڑوں لوگوں کا اہم مسئلہ کرپشن کے الزامات کے شور میں دب گیا۔

وزیراعظم نے گیس بحران پر ہنگامی اجلاس طلب کیا جو بھی لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ثابت ہوا، عمران خان صاحب نے سوئی سدرن گیس کمپنی اور سوئی ناردرن گیس کمپنیز کے انتظامی سربراہان کے خلاف انکوائریز کا حکم صادر کرتے ہوئے گویا مسئلے سے خود کو اور اپنی حکومت کو لاتعلق ظاہر کردیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سب سے پہلے مسئلے کا حل نکالا جاتا، غلطی کا ازالہ کرنے کے بعد اس کے ذمے داروں کا تعین کرنا اور پھر ان کے خلاف کارروائی کرنا ہوتا ہے، اگر فوری کارروائی مناسب نہ سمجھی جائے توپھر انکوائری ہوتی ہے۔ اس اجلاس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حکومت کی نظر میں شاید یہ مسئلہ تو کوئی اتنا اہم نہیں، نہ ہی اس کے ازالے کی ضرورت ہے، چلیں انکوائری بٹھا دیں جو رپورٹ بھی وزیرِ پٹرولیم کو پیش کرے گی، بس خبر بن جائے کہ حکومت کو کوئی فکر ہے۔

ہم نے ڈالر کی قیمت بڑھنے پر بھی وزیراعظم کو یہ کہتے سنا کہ اس معاملے میں اسٹیٹ بینک نے ان کو بتائے بغیر فیصلہ کیا، کیا وہ اب بھی یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ گیس کے بحران میں حکومت کو بتائے بغیر فیصلہ کیا گیا؟ کیا ایسی ہوتی ہے حکومت؟

سندھ کے وزیرِ توانائی امتیاز شیخ کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ میں سی این جی سیکٹر اور صنعتوں کو گیس فراہمی بند کرکے غیر آئینی کام کر رہی ہے، کیونکہ جو تیل گیس یا معدنیات کسی صوبے سے نکلتے ہیں، آئینی طور پر پہلا حق بھی اس صوبے کا ہوتا ہے۔

بات بالکل درست ہے، ماضی میں بھی گیس کا بحران پیدا ہوا، پی پی کے دور میں بحران کا زیادہ اثر صوبہ پنجاب اور کے پی میں دیکھا گیا، پی ایم ایل این کے دور میں اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ ہوا، جس کی قیمت پر موجودہ وزیرِ ریلوے شیخ رشید نے اعتراض اٹھائے، معاملہ سپریم کورٹ تک بھی گیا مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

اب بھی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ تبدیلی سرکار ملک کو 71 فیصد تیل اور گیس فراہم کرنے والے صوبے سندھ کو اپنی گیس سستے دام بیچ کر دگنی قیمت پر ایل این جی خریدنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ آئین سے کھلم کھلا انحراف ہے مگر اسلام آباد میں موجود ایک مخصوص مائینڈ سیٹ اس آئینی شق کو ماننے کے لئے تیار ہی نہیں۔

یہ بات اب عمران خان کو کون سمجھائے کہ خان صاحب، آئین کا احترام کرنا سیکھیں، کیونکہ آپ اگر وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہیں اورآپکی کابینہ کے لوگ ہواؤں میں اڑ رہے ہیں تو صرف آئینِ پاکستان کی بدولت، دوسری بات یہ بھی کوئی ان کو سمجھا دے کہ مہنگائی سے ڈالر کی قیمت میں اضافے اور اب گیس بحران سے آپ اس عوام کی کمر ٹیڑھی کر رہے ہیں جن کے ووٹ سے آپ کو اقتدار ملا ہے۔ خدارا ہوش سنبھالیں آپ ایک جمھوری ملک کے وزیراعظم ہیں کوئی مغل شہنشاہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).