شعبہ اردو جامعہ کراچی میں رضا علی عابدی کی پذیرائی


معروف صحافی، مصنف، مترجم، محقق، مؤلف رضاعلی عابدی کے اعزاز میں ادارہ پاکستانی بیانیہ، پاکستان اور کراچی پریس کلب ادبی کمیٹی کے اشتراک سے منعقدہ تقریب میں ابتدائیہ رضوان صدیقی نے پیش کیا انھوں نے کہا کہ عالی مرتبت ذی وقار رضاعلی عابدی اور پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی جیسی شخصیتوں کے سامنے لب کشائی آسان نہیں بعدازاں ادارہ پاکستانی بیانیہ کی جانب سے رضاعلی عابدی کو خوش آمدید کہتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میں آج ایک نیازمند کی حیثیت سے یہاں موجود ہوں جب میری سماعتوں میں لفظوں نے معنی گھولنے شروع کیے تھے اس وقت سے میں آپ کی آواز سنتا چلا آ رہا ہوں۔ بی بی سی سے وابستگی اوراپنے تجربات کی تشکیل میں رضاعلی عابدی نے بہت کچھ حاصل کیا۔

میری بالمشافہ ملاقات 1990 میں ہوئی تھی جب میں بغرض ِ علاج لندن گیا تھا رضاعلی عابدی نے مجھے ازراہِ محبت بی بی سی کے پروگرام میں مدعو کیا تھا اور بیس پونڈ اس وقت ادا کیے تھے جو میری ضرورتوں سے کہیں زیادہ تھے اس کے بعد یہ جب بھی پاکستان آئے میں بسروچشم رہا جب یہ ملازمت سے فارغ ہوئے تو عام تاثر یہ تھا کہ جوکچھ بھی انھوں نے لکھا وہ ضابطہ تحریر میں نہیں آسکا اورجوکچھ کہا اوربولا وہ ہواؤں میں گم ہوگیا لیکن ازا ں بعد انھوں نے اک دوسرا سلسلہ شروع کیا اور بعض اپنے پروگراموں جیسے کتب خانہ کے نام سے ایک مایہ ناز پروگرام تھا اسے تحقیقی ترتیب سے ضخیم کتاب کی شکل میں شائع کیا اب جس نے ہمیں اور نئی نسل کو بھی بے ساختہ متاثر کیا ہے وہ ہے ان کے جنگ میں شائع ہونے والے کالم!

لندن میں رہنے والے شخص کواگرسیاحت کا شوق ہے تو وہ لندن امریکہ، کینیڈا دیگرترقی یافتہ ممالک میں جائے مگریہ چونکہ جڑے ہوئے تھے اپنی زمین سے تویہ لوٹ کرواپس آئے۔ اب یہ سندھ، پنجاب، بلوچستان اورخیبرپختونخوا ہ کے دورافتادہ علاقوں میں جاکر وہاں کی تہذیب، وہا ں کے لوگوں کے رہن سہن وہاں کے لوگوں کے روّیوں پر جس قدر خوبصورتی سے اظہار کررہے ہیں وہ خود ہی ہماری تاریخ محفوظ ہوتی جارہی ہے۔ وہ گمنام الفاظ جن کومیری نسل نے اپنے والدین سے سنا تھا اوربدقسمتی سے ہم اپنے بچوں کو منتقل نہیں کرسکے وہ گمنام الفاظ ان کی تحریروں میں ہم پڑھتے ہیں تو ناصرف ماضی یاد آتا ہے بلکہ اُس ایک لفظ کے پیچھے ہماری پوری تہذیب، پوری اخلاقی روایت اورہمارا پورا تمدن جھلکتا ہے آج ہم ان لفظوں کو ڈھونڈتے ہیں ڈکشنری میں تلاش کرنے کا وقت کس کے پاس ہے مگراِ ن کے کالم میں جو چھپ رہے ہیں ان میں یہ دوبارہ مہیا ہوگئے اپنی گفتگو میں تحریروں میں استعمال کریں جیسے میں کہانیاں لکھتا ہوں میں ڈھونڈ ڈھونڈ کے بین بین کے ان لفظوں کوچنتا ہوں اورپاکستانی بیانیہ کے حوالے سے ان کی تحریر بھی، ان کا مزاج بھی اوراُن کا ذہن بھی پاکستانی بیانیے سے جڑا ہوا ہے۔

جتنا دکھ اورمحبت اپنی زمین سے ہے وہ یورپ میں رہنے والوں کویقینا ہوگا لیکن وہ اظہار نہیں کرپاتے آج اس گفتگو سے ہم ان منصوبوں کوآگے مرتب کرنے میں مدد ملے گی اورجب یہ بولتے ہیں توان کے لہجے کوہماری سماعتیں سمیٹتی نہیں بلکہ پیتی ہیں اورجب ان کالہجہ سماعتوں کی دہلیز سے اُترکر دل ودماغ کے نہاں خانوں سے گزرکرہماری زبان سے ادا ہوتا ہے تو ہمارے درمیان بیٹھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ تم نے یہ کہاں سے سیکھا؟ تومیں یہ کہتا ہوں میں نے رضاعلی عابدی سے سیکھا!

معروف صحافی شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق صدرشعبہ وفاقی اردویونیورسٹی پروفیسرتوصیف احمدخاں صاحب نے کہا کہ ہم رضاعلی عابدی کوسننے آئے ہیں آج کل ہم اِ ن کے کالموں کے ذریعے ماضی کی صحافت سے بھی واقف ہورہے ہیں کہ کس طرح اخبارسے وابستہ لوگ جھوٹی خبریں بنالیا کرتے تھے اس کاتذکرہ رضاعلی عابد ی نے اپنے ایک کالم میں کیا ہے۔ معروف صحافی اختربلوچ نے بتا یا کہ ان کے والد ہرصبح بی بی سی ضرور سنا کرتے تھے بچپن سے عابدی صاحب کی آواز سنی اورلفظوں کی ادائیگی اورتلفظ کی اصلاح میں عابدی صاحب کی رہنمائی حاصل رہی ان کا کہناتھا میں نے اردو رضاعلی عابدی سے سیکھی ہے۔

ادارہ پاکستانی بیانیہ کے خالق، پروفیسرڈاکٹرشاداب احسانی نے رضاعلی عابدی کا تعارف پیش کرتے ہوئے بتایا کہ رضا علی عابدی براڈکاسٹنگ اور بی بی سی اردو سروس کا ایک معتبر حوالہ ہیں۔ وہ بحیثیت، صحافی، مصنف، مترجم، محقق، مؤلف کے بھی اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔ 30 ؍نومبر 1936 ء کورُڑکی میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ِبرصغیرکے بعد اُن کے خاندان نے 1950 ء میں پاکستان ہجرت کی۔ ان کا لڑکپن کراچی کی گلیوں میں گزرایہیں سے انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔

بیس برس کی عمرمیں انگریزی خبرکاترجمہ کیا۔ 1965 ء کی جنگ کے چشم دید واقعات کواخبارمیں رپورٹ کیا اُن دنوں وہ روزنامہ حریت سے وابستہ تھے۔ عملی صحافت میں پندرہ برس گزارنے کے بعداعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ گئے اور 1972 ء میں بی بی سی اردو سروس سے وابستہ ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ذرائع ابلاغ کا واحد ذریعہ ریڈیو اور اخبار ہوا کرتے تھے۔ دیارِ غیر میں بسنے والی اردو بستیو ں کے مکیں اردوریڈیو کے ذریعہ اپنی تفریح کا سامان کیا کرتے تھے۔

1996 ء میں بی بی سی اردوکی ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ آوازکی دنیا سے قلم وقرطاس کی دنیا میں سرگرم ہوئے۔ مطالعہ کا شوق رضاعلی عابدی کی گھٹی میں پڑا ہے یہی وجہ ہے کہ ریڈیو کے اکثر پروگراموں کی تیاری میں ان کے تخلیقی روّیے کے ساتھ ساتھ کتابوں کا حوالہ بھی شامل رہا ہے۔ رضا علی عابدی کی وجہ شہرت ریڈیو بھی ہے اور ان کی تصنیف وتالیف کردہ کتابیں بھی۔ وہ ریڈیو پروگرام ’کتب خانہ‘ کے لیے برصغیر میں محفوظ کتابوں کے ذاتی ذخائر تک گئے اوراُن کاتعارف پیش کیا سننے والوں سے داد سمیٹی اور بہت سے تحقیق کے شیدائیوں کو دعوتِ تحقیق دی بعدازاں ’کتب خانہ‘ کے عنوان سے اس تحقیق کو محفوظ کردیا کہ آنے والے انہی راستوں سے منزل کا سراغ پاتے ہیں۔

2013 ء میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورنے انھیں پی ایچ۔ ڈی کی اعزازی سندکے لیے نامزد کیا۔ 2014 ء میں خرم سہیل نے اِن کی سوانح ’قلم سے آواز تک‘ تصنیف کی۔ جبکہ ان کی خودنوشت کے مظاہر ریڈیوکے دن، اخبارکی راتیں، پہلاسفروغیرہ میں بھی نمایاں ہیں۔ رضاعلی عابدی خود کوخوش قسمت تصورکرتے ہیں کہ انھوں نے بڑوں کی انیس اوربچوں کی بیس کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کی کتابوں کے نام یہ ہیں۔

[ 1 ] جرنیلی سڑک [ 2 ] شیردریا [ 3 ] جہازی بھائی [ 4 ]ریل کہانی [ 5 ]پہلا سفر[ 6 ] تیس سال بعد [ 7 ] کتب خانہ[ 8 ] اردوکاحال [ 9 ] اپنی آواز[ 10 ] جان صاحب[ 11 ] جانے پہچانے [ 12 ] حضرت علی کی تقریریں [ 13 ] نغمہ گر [ 14 ] پہلا سفر [ 15 ] ملکہ وکٹوریہ اورمنشی عبدالکریم[ 16 ] اخبارکی راتیں (یاداشتیں ) [ 17 ] پرانے ٹھگ [ 18 ]ریڈیو کے دن (خودنوشت) [ 19 ] کتابیں اپنے آباء کی۔ بچوں کا ادب:[ 1 ]پہلا تارا [ 2 ] پہلی گنتی [ 3 ] پہلی کرن [ 4 ] الٹاگھوڑا [ 5 ] بندرکی الف بے [ 6 ] چمپا [ 7 ] من من [ 8 ] میری امّی [ 9 ]پیاری ماں [ 10 ] گنگناتا قاعدہ [ 11 ] کمال کے آدمی 12 ]] قاضی جی کا اچار [ 13 ]چوری چوری چپکے چپکے [ 14 ] نٹ کھٹ لڑکا [ 15 ]ظالم بھیڑیا [ 16 ] ایک گاؤں جس کا پہلے کوئی نام نہ تھا [ 17 ]مینا نے گڑیاکوکیسے ہنسایا [ 18 ] امّی کادن[ 19 ] دنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں [ 20 ] کہانیاں۔

بعدازاں پروفیسرڈاکٹرشاداب احسانی نے کہا کہ جیساکہ آپ جانتے ہیں رضاعلی عابدی رُڑکی میں پیداہوئے اوروہاں ایک انجینئرنگ کالج تھا جس کی تعلیم ساری کی ساری اردوزبان میں ہواکرتی تھی نواب وقارالملک جیسے ناموراشخاص نے وہاں سے تعلیم پائی۔ اس رُڑکی کا کمال ہے کہ آج بھی وہاں کے لوگ ویسے ہی تہذیب کے پروردہ ہیں، جیساکہ اختربلوچ، توصیف احمدخان اوررضوان صدیقی نے ہمیں بتا یا کہ رضاعلی عابدی کے کالموں تحریروں میں پاکستانی بیانیہ کوٹ کوٹ کے بھراہوا ہے۔

پاکستانی بیانیہ کی بات اس لیے آئی کہ یورپ جب Dark Agesمیں تھا تواس کا اپنا بیانیہ نہیں تھاجب کسی قوم کے پاس اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ اُس قوم کے Dark Ages ہوتے ہیں اوروہاں تقسیم درتقسیم کا عمل موجود ہوتا ہے۔ اگرجنرل ڈوپلے واپس نہ جاتا توشاید ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں آگے نہیں بڑھ سکتی تھی جب برطانیہ اورفرانس کے مابین جنگ چھڑی تو یہ افواہ یا جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ برطانیہ جنگ ہارگیا اس کے بعد وہاں کی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی اورسارے شیئرز یہودیوں نے خرید لیے اسی زمانے کی یاد گار روزچائیلڈ کمپنی ہے جوآج بھی سونے کے دام طے کرتی ہے۔

جبکہ برطانیہ جنگ جیت چکا تھا لہذا فرانس سے معاہدہ طے پایا توایک شرط جنرل ڈوپلے کی واپسی کی بھی تھی۔ جوکام جنرل ڈوپلے کررہا تھا ڈوائیڈ اینڈ رَول وہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کسی قوم کے پاس اپنا بیانیہ نہ ہوعموماً فاتحین کا بیانیہ مفتوحین پر غالب آتا ہے جوکہ تاریخی حقیقت ہے۔ 1911 ء میں 29 کروڑ کی آبادی ہے ہندوستان کی اور 74 ہزار انگریز اس کو کنٹرول کررہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ دس کروڑ کا NARRATIVE انگریزوں سے جڑا ہوا ہے۔

جیسے ’رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند‘ کی بات کی جاتی ہے ’رسالہ اسبابِ آزاد ئی ہند‘ کی بات ہونی چاہیے تھی تو یہ جو فریم ہے انگریزوں کادیا ہوا ہم آج بھی اسی فریم میں زندہ ہیں۔ ترقی پسند روسی NARRATIVE اورجدیدیت کے علمبردارمغربی NARRATIVE لیے ہوئے ہیں جس کے سبب اردوادب کاقاری مفقود ہوتا چلاجارہا ہے یہ عجیب المیہ ہے کہ ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ ادب معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے توجوادب معاشرے کی ترجمانی کررہا ہو اس کاقاری شاید بھاگ نہیں سکتا ہمیشہ اپنے ادب سے جڑا رہے گا۔

جب معیشت اورسیاست کی بات کرتے ہیں تو بیانیہ نہ ہونے کے سبب ہماری جمہوریت آمریت کا شکارہوجاتی ہے۔ دس اکتوبرکی کانفرنس میں ان نکات کوواضح کیا جاچکا ہے۔ پاکستان کا شروع کا بیانیہ پاکستانی ہے جب بھاکڑہ کا افتتاح کرتے ہوئے جواہرلال نہرونے تقریرمیں کہا تھا کہ پاکستان جلد ختم ہوجائے گا اور یہ نااہلوں کے ہاتھ میں ہے توجواباً غلام محمد نے تقریر کی اوربتایا کہ جناب ہم نے پاکستان بننے کے بعد اقتدارسنبھالا تو دو کاٹن کے کارخانے تھے اورآج 1949 میں 57 کارخانے ہیں یہ شروع کا احوال تھا پاکستان کا ہم تاحال پاکستان کے بقا کی جنگ لڑرہے ہیں ضمناً یہ بھی غورطلب ہے کہ صاحب بنگلہ دیش بنگالی یا اردو کی وجہ سے بنا یا فاصلہ اورکلچرکی وجہ سے بنا تو جناب الاسکا سے نیویارک ساڑھے چودہ گھنٹے کی مسافت پرہے اور واشنگٹن ڈی سی سولہ گھنٹے، الاسکا اورنیویارک کا کلچر مختلف ہے فاصلہ بھی زیادہ ہے لیکن امریکن بیانیے پر الاسکا بھی نیویارک ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2