سانحہ آرمی پبلک سکول، پشاور 16 دسمبر 2014


ان بچوں کو سکول چھوڑتے ان کے باپ تھے، اپنی آ نکھوں میں ان گنت خواب بسائے، صبح سے شام تک اپنی بساط سے بڑھ کر محنت اور جدوجہد میں مصروف۔ شام کو جب تھکے ہارے گھر آتے تو بچوں کو دیکھ کر ان کی تھکن دور ہو جاتی۔ چھوٹے بچوں کو ہوا میں اچھالتے، کبھی بستر پرکشتی میں ان سے جان بوجھ کر ہارتے، کرکٹ میں انہیں گیندیں کراتے اور آوٹ ہونے کی صورت میں خود ہی نو بال کی آواز لگا کر ایک اور باری دیتے۔ جمعہ پڑھ کر گھر آتے تو گھر کے دروازے تک کی دوڑ میں جان بوجھ کر ہار جاتے۔ آج جب یہ پودے جوانی کی طرف بڑھ رہے تھے تو باپ اپنے کئی دکھ بھول جاتے۔

یہ بچے مختلف خاندانوں سے آئے تھے۔ اِن میں شہر کی ہر آبادی کا رنگ تھا۔ امراء کے بچے تھے تو غرباء کے گھروں کے چراغ بھی، فوجی افسروں کے بیٹے تھے تو سپاہیوں اور صوبیداروں کے لختِ جگر بھی۔ گورے پٹھان طالبعلم تھے تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے گندمی رنگ بھی۔ انہیں میں میرے دوست ڈاکٹر گلزار کا بیٹا بہرام تھا، چھ فٹ کا جوان، جسم بھرا ہوا، محبت آمیز، ملنسار، گرم جوش۔ ان میں باورچی زاہد کا بیٹا ابرار بھی تھا۔ کک زاہد جس کے جسم کی رنگت سردی گرمی میں آگ کے سامنے مسلسل کام کر کے بدل گئی تھی۔

مگر اس ایذا پہنچاتی آگ کے سامنے جب اسے اپنے بیٹے کا خیال آتا تو یکا یک ایک ٹھنڈک اسے تقویت دیتی، اس وقت زاہد کو اپنا پیٹ کاٹ کر ابرار کی فیسیں ادا کرنا بالکل بھی بھاری نہ لگتا۔ ان میں میرے شاگرد حفیظ الرحمان کا چھوٹا بھائی عاطف الرحمان تھا، گول چہرہ، معصوم آ نکھیں، جذبات ایسے کہ آسمان کو چھو لے۔ یہ اور ان کے تمام ساتھی سبز رنگ کے کوٹ پہنے تھے۔ ان سب کی آنکھوں میں چمک تھی اور دنیا تسخیر کرنے کا جذبہ۔

ان میں ابھرتے مقرر تھے، کرکٹ اور فٹبال کے شیدائی، بالوں کے مختلف سٹائل بناتے شرارتی لڑکے، بہنوں کے بال کھینچتے، استادوں کی نقلیں اتارتے، محبتوں کو بانٹتے کھلنڈرے۔ یہ سفر پہ نکلتے صحرا نورد تھے جو دنیا کو تسخیر کرنے نکل رہے تھے، ایسے مسافر تھے جن کے کپڑے مختلف علاقوں کی گرد سے چمکتے اور جن کے ذہن مختلف علاقوں کی کہانیوں سے مزین ہوتے۔ مگر اس دن ان کے کپڑے لہو رنگ تھے، سبز رنگ اس دن ان کے خون کی لالی سے بھر گیا۔ اس دن کتابوں کے اوراق پر الفاظ سیاھی سے نہیں بلکہ جواں خون سے لکھے تھے۔ اس دن کئی سرپھرے سامنے آتی موت سے جاٹکرائے۔ بڑے بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کو بچاتے مارے گئے، وہ بھائی جو ان کے ماں جائے نہ تھے۔ سکول میں بڑی جماعت میں ہوتے بھائی جان ہونے کا حق انہوں نے اپنے خون سے ادا کیا۔

یہ عجب منظر تھا، سکول کا مین ہال ایک قربان گاہ بنی، جہاں قطع نظر رنگ و نسل، عمر و قد صرف آرمی پبلک سکول کا یونیفارم ہی وجہِ قربانی بنا۔ اس قیامت میں عجب منظر تھا، ان درندوں کے سامنے ایک ماں کھڑی تھی، موت کے بالمقابل، بربریت اور درندگی کے روبرو، گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے، تن تنہا، نہتی۔ استاد کے لیے شاگرد اولاد کی مانند ہوتے ہیں۔ یہ للکار تھی ان بزدلوں کے لیے کہ اس ماں کی مانند استانی کی لاش سے گزر کر ہی تم اولاد تک پہنچ پاؤ گے۔ میری بہن، اس فانی دنیا میں تو نے عمل سے دکھلادیا کہ بہادری کیا ہوتی ہے۔ بہادری ہتھیار، صحت، کمزوری، مر د، عورت کی تفریق سے کہیں اوپر ہے اور تو بہادر ہے، بہادر۔ سامنے آتی موت کی آ نکھوں میں ایسے آنکھیں ڈالے کھڑی تھی کہ موت آنکھیں چرانے لگی۔

یہ عجب مناظر تھے۔ دیواریں گولیوں سے چھلنی، چھتیں آگ سے سیاہ رنگ، جا بجا بکھرے ہوئے بستے، سینے گولیوں سے فگار، جلے ہوئے دروازے اور کرسیاں، فرش جلی ہوئی کا پیوں، کتابوں اور خون سے اٹا ہوا۔ مگر پھر ایک جانب نگاہ پڑتی ہے تو سکول کا قول دیوار پر کندہ نظر آتا ہے۔
I shall rise and shine۔

آئیے ہم سب مل کراٹھیں اور اکٹھے ہو کر ان درندوں کے مقابلے پر کھڑے ہوں جن کی خباثت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو کہ پیغمبرِاسلام سے اس بربریت کا جواز لے رہے تھے۔

یہ عجب مناظر تھے۔ لکڑی کے تابوتوں کی قطار، گریہ کرتے عزیز و اقارب، رنج و ملال وبرداشت و انتقام کے تاثرات لیے چہرے۔ اشک آلودہ مائیں جن کو چپ کرانے کو کوئی الفاظ نہیں، کم عمر بچوں کی بے تاثر آ نکھیں جو کہ اس ظلمِ عظیم کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں اور چپ چاپ اپنے بڑے بھائیوں کے کفن اٹھتے دیکھ رہے ہیں۔

یہ عجب منظر تھا۔ ایک ماں ہے کہ وارسک روڈ پر ایک جانب سے دوسری جانب دوڑتی پھرتی ہے، ننگے پاوں، ننگے سر، دوپٹے چادر سے عاری۔ کبھی ایک طرف کو بھاگتی ہے، رکتی ہے، پلٹتی ہے، دوسری طرف کو دوڑتی ہے۔ وہ پردہ شعار جس کے بالوں کو بھی فلک نے نہ دیکھا تھا، آج سڑک پر بٰغیر خیالِ چادر بھاگ رہی ہے۔ آج اس کا بچہ تنہا ہے اور درندوں کو خوف ہے۔ ایک جانب بھاگتی ہے، پھر خیال آتا ہے کہ بچہ دوسری جانب ہے، کوئی درندہ اس کو نقصان نہ پہنچادے، دوسری طرف کو بھاگتی ہے، سراسیمہ، آواز حلق میں بند، آ نکھیں پھٹی پھٹی، یکا یک خیال آتا ہے، رکتی ہے اور پہلی طرف کو بھاگتی ہے۔

آسمان نے یہ منظر کئی صدیاں قبل بھی دیکھا تھا، جب مکے کے بے آباد، بنجر پہاڑوں پر ایک ماں اپنے بچے کی حفاظت کے لیے تن تنہا بھاگ رہی تھی۔ درندوں کا خوف اور پانی کی تلاش اسے ایک جانب سے دوسری جانب لے جاتی تھی۔ اے میرے رب، تونے اس ماں کے ایثار کو اتنا محبوب پایا کہ حج کا حصہ بنادیا۔ اے میرے رب، آج میری اِس بہن کی سعی کو بھی قبول کر، اور اس کے ہمراہ جو کئی خاندانوں نے اپنے لختِ جگر قربان کر دیے، اس کے بدلے اس شہرِ پشاور اور ملکِ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے۔

اور جس طرح مکہ کو تونے خوف اور بھوک سے محفوظ کر دیا، اسی طرح ہمارے ملک کو بھی سکھ، چین اور فراوانی عطا کر۔ اے میرے مالک ہم سے بچھڑنے والے تمام طالبعلموں، اساتذہ اور سکول کے عملے کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے لواحقین کو صبرِجمیل عطا کر، ان کی اپنے غیب سے مدد کر، آمین۔ بے شک جو تو جانتا ہے وہ ہم نہیں جانتے۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor