شمالی کوریا سے سمگل ہونے والی خاتون خود کیسے انسانی سمگلر بنیں؟


'Mrs. B' crossed China-North Korea border and China-Laos border to keep her promises to her North Korean and Chinese husbands

Cinesofa
مسز بی کو ایک چینی شخص کو فروخت کیا گیا تھا لیکن وہ پھر خود ہی انسانی سمگلنگ میں ملوث ہو گئیں

میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ یہ بہت ناانصافی تھی۔ میرا تعارف ایک ایسے شخص سے کروایا گیا حالانکہ میں پہلے سے شمالی کوریا میں شادی کر چکی تھی میرے بچے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک غلط ملک میں پیدا ہوئی ہوں اور اس لیے اس مسئلے سے گزری۔

یہ سنہ 2003 کی بات ہے مسز بی کی عمر اس وقت 36 برس تھی جب انھیں ایک چینی شخص کے ہاتھوں بیچ دیا گیا تھا۔

اس وقت مسز بی شمالی کوریا کی سرحد پار کر کے چین پہنچی تھیں یہ سوچ کر کہ وہ عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کی نوکری کریں گی۔

شمالی کوریا سے فرار

کم ازکم اسے سرحد پار کروانے والے شخص نے یہی بتایا تھا۔ لیکن وہ جھوٹ ثابت ہوا۔

وہ سوچ رہی تھیں کہ پیسہ کما کر واپس اپنے ملک لوٹ جائیں گی۔ اس طرح وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کی جو کہ شمالی کوریا میں ہی تھے مدد کر سکتی تھیں۔

لیکن ایک دوسرا شوہر حاصل کرنا یہ یقیناً مسز بی کے منصوبے میں شامل نہیں تھا۔

ایک چینی شخص کو بیچ دی گئی

چین کے صوبہ جیلن کے علاقے چانگ چن میں مسز بی اور ان کے ہمرا موجود ایک اور شمالی کوریائی خاتون کو پانچ چینی مردوں سے متعارف کروایا گیا۔

جس دلال نے انھیں بیچا تھا اسی نے انھیں کہا کہ ’فقط ایک سال چینی مردوں کے ساتھ گزارو اور پھر بھاگ جاؤ۔‘

اب مسز بی کے بارے میں ڈائریکٹر جیرو ین ایک فلم بنا رہے ہیں جس میں ان کی زندگی کی تمام تکالیف کے بارے میں دکھایا گیا ہے۔

Asked if it's love that she feels to her Chinese husband she said it's

Cinesofa
مسز بی کہتی ہیں کہ انھیں اپنے خریدار سے انسیت ہو گئی تھی اور وہ اس کی شکرگزار تھی

ان پر بنی فلم جس کا نام مسز بی، شمالی کوریا کی ایک عورت‘ ہے کا ایک الیمہ یہ ہے کہ اس میں مسز بی کی اپنے چینی خریدار کی محبت میں مبتلا ہونے کی بات بھی ہے۔

وہ دس برس تک اکھٹے رہے۔ لیکن ابھی اور وقت باقی تھا۔

انسانی سمگلر بن گئی

اگرچہ مسز بی انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئی تھیں تاہم آخر میں جا کر وہ خود بھی اس کاروبار کا حصہ بن گئیں اور انھوں نے شمالی کوریا کی عورتوں کو چینی مردوں کے ہاتھ بیچا۔

بی بی سی کی کوریا سروس کے ساتھ انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ انھوں نے 50 عورتوں کو بیچا۔

انھوں نے چین اور شمالی کوریا کی سرحد کو عبور کیا پھر وہ چین اور لاؤس کی سرحد عبور کر کے جنوبی کوریا گئیں اور ان کا مقصد اپنے خاندان کو اکھٹا رکھنا تھا۔

لیکن اس کوشش کے باوجود ان کا شمالی کوریا میں موجود اپنے شوہر سے تعلق ناکام ہو گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ آزار ملک ہونے کے باوجود جنوبی کوریا نے انھیں خوشی دینے کے بجائے ان سے نفرت دی۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

دنیا کے خفیہ ترین ملک کے اندر زندگی

شمالی کوریا میں کم جونگ ان کا درجہ ’تقریباً خدا کے برابر‘

اصل زندگی سے فلم

بدقسمتی سے ان کی کہانی غیر معمولی نہیں۔

انسانی سمگلنگ ایک ایسی چیز ہے جس سے بہت سی شمالی کوریائی خواتین اس وقت گزرتی ہیں جب وہ شمالی کوریا کی کمیونسٹ ریاست سے فرار ہونا چاہتی ہیں۔

'Mrs. B., A North Korean Woman' by filmmaker and director Jero Yun portrays Mrs. B's life that is full of ironies

Cinesofa
ایک فلم جو مسز بی کی زندگی کے بارے میں بنائی گئی ہے

بہت سی خواتین ان چینی مردوں کے بچے پیدا کرتی ہیں جنھیں انھیں بیچا جاتا ہے اور انھیں کے ساتھ رہنے لگتی ہیں۔

اور بہت سے شمالی کوریا کے لوگ جو جنوبی کوریا آتے ہیں انھیں پچھتاوا ہوتا ہے اور ان میں سے بہت سے کسی اور ملک ہجرت کر جاتے ہیں۔

لیکن اس کے احساسات اس بندے کے بارے میں کیا تھے جسے انھیں فروخت کیا گیا تھا۔

غیر متوقع طور پر اپنے ہی خریدار سے محبت

مسز بی سے جب ان کے چینی شوہر جو ان کے خریدار تھے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ ان سے محبت کرتی ہیں تو انھوں نے کچھ یوں وضاحت کی کہ ’میرے خیال میں یہ محبت ہے۔ دو لوگوں کے درمیان انسیت۔‘

’میں نے واقعی کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ محبت تھی۔ بس صرف یہ تھا کہ وہ بہت اچھا انسان تھا۔ ہر بات کو سمجھتا تھا۔‘

مسز بی کہتی ہیں کہ چین کے دیہی علاقوں میں جہاں وہ رہی ادھر بہت ہی کم لوگ محبت کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

محبت کی بات کرنا شمالی کوریا میں بھی اسی طرح ناپید تھا۔

اس فلم میں مسز بی کی ان کے چینی شوہر کے ساتھ تعلق کے بارے میں ہے۔ اگرچہ انھیں اس کے ہاتھ بیچا گیا تھا تاہم وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک محبت کرنے والا شوہر تھا۔

ان کے شوہر کو اس فلم میں یوں دکھایا گیا ہے کہ وہ مسز بی کی ناراضگی کی صورت میں انھیں نارمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انھوں نے ہی اسے چین اور لاؤس کی سرحد کو پار کرنے میں مدد کی اور کہا کہ جب وہ ایک بار جنوبی کوریا میں سکونت اختیار کر لیں گی تو وہ وہاں ان سے جا ملیں گے۔

اس میں ناظرین کو اس خیال سے کشمکش میں ڈالا جاتا ہے کہ انسانی سمگلنگ ایک غیر متوقع رومانس کی جانب لے جاتا ہے۔

میں نے اسے بتایا کہ میں بچے پیدا کرنے کے قابل ہوں لیکن میں نے پھر اس کا چناؤ نہیں کیا جس کی وجہ پیچھے موجود میرے بچے تھے اور اس نے بھی کہا ٹھیک ہے۔ میں اس کی احسان مند ہوں میرا مطلب ہے ایسے کون نہیں ہو گا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ مجھے یہ احساس تھا کہ اس شخص کے میری وجہ سے بچے نہیں ہیں اور جب وہ چلا جائے گا تو میں اور میرے بچے اس کے ہمراہ ہوں گے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

’مغوی لڑکیوں کو قحبہ خانوں کو دیا جاتا ہے‘

امن کا نوبیل انعام یزیدی خاتون نادیہ مراد کے نام

فلم نے کیا چھوڑا

مسز بی کہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو شمالی کوریا لے آئی تھیں اور ان کے پہلے شوہر چین میں آ چکے تھے اور فلم میں یہ نہیں دکھایا گیا۔

سنہ 2009 میں وہ اپنے سب سے بڑے بیٹے کو چین لے کر آئیں۔ وہ ان کے ساتھ اور ان کے چینی شوہر کے ساتھ تین سال تک رہا لیکن وہ ان کے ساتھ گھل مل نہیں پایا۔

پھر مسز بی بے اسے جنوبی کوریا جانے میں مدد کی۔

سنہ 2013 میں مسز بی نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے اور چینی شوہر کو چین بھجوایا مگر جنوبی کوریا جانے سے پہلے وہ چین آئے اور ان کے چینی شوہر کے ساتھ 40 دن تک رہے۔

At one point in China, Mrs. B, her Chinese husband, her North Korean husband and her youngest son all slept in a same room for 40 days

Cinesofa
ایک موقع ایسا بھی آیا جب ان کے چینی شوہر شمالی کوریا میں مقیم شوہر اور سب سے چھوٹا بیٹا ایک ہی کمرے میں سوئے

دراصل ہم سب ایک ہی کمرے میں سوئے، میں میرا چھوٹا بیٹا، شمالی کوریا والا شوہر اور میرا چینی شوہر۔

کیا آپ اسے رومانٹک نہیں کہیں گے۔

’ان میں سے صرف ایک‘

مسز بی کہتی ہیں کہ 80 فیصد شمالی کوریا کی خواتین ملک سے فرار کی وجہ سے سمگلنگ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

اور وہ صرف ان میں سے ایک ہیں۔

نہ شمالی کوریا اور نہ ہی جنوبی کوریا یا چین ان میں سے کسی کے پاس یہ سرکاری طور پر اعداد و شمار نہیں کہ کتنی عورتیں انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئیں۔

مسز بی فوری طور پر انسانی سمگلنگ کے کاروبار میں شامل نہیں ہوئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے ہر مہینے ڈیری فارم پر ملازمت کر کے نو امریکی ڈالر کمائے۔

انھوں نے دو سال کے لیے ایک فارم پر کام کیا اور پھر شمالی کوریا میں موجود اپنے خاندان سے بروکر کو پیسے دے کر چین اور شمالی کوریا کی سرحد پر ملیں۔

شمالی کوریا کی عورتوں کی سمگلنگ

وہ بہت حیران ہوئیں جب انھوں نے اپنے شمالی کوریا میں مقیم شوہر کو دیکھا کہ وہ کتنا ضعیف ہو چکا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے عورتوں کی سمگلنگ شروع کر دی۔

وہ کہتی ہیں مجھے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے کچھ کرنا تھا۔

مجھے پیسہ کمانے کی ضرورت تھی لیکن میرے پاس شہریت نہیں تھی، شناخت نہیں تھی۔ زیادہ پیسہ کمانے کے لیے بہت سی چیزیں تھیں جو میرے پاس ناپید تھیں۔

سنہ 2005 سے سنہ 2010 تک انھوں نے 50 شمالی کوریائی خواتین کو چین کے ہاتھ بیچا۔

انھوں نے تسلیم کیا کہ یہ انسانی سمگلنگ تھی لیکن ان کا اصرار تھا کہ انھوں نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا جیسے کہ بروکر نے سنہ 2003 میں انھیں دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے سمگل کی جانے والی خواتین کو ان کی مرضی پر ڈیل میں شامل کیا۔

وہ کہتی ہیں اس طرح میں نے انھیں اپنا راستہ لینے میں مدد کی۔

’شمالی کوریا کی عوتیں جو ملک چھوڑ کر بھاگتی ہیں ان کے پاس اعتبار کے لیے کوئی نہیں ہوتا۔‘

لیکن اگر میں انھیں کسی شخص کے ساتھ ملا دوں وہ شادی کر سکتے ہیں اور بحفاظت رہ سکتے ہیں۔ اگر وہ کسی گلی میں رہیں گی تو انھیں پکڑ کر شمالی کوریا کی جیل بھجوا دیا جائے گا جو وہ کبھی نہیں چاہیں گی۔‘

وہ کہتی ہیں جن عورتوں کو وہ بیچتی تھی وہ انھیں بھی آدھی رقم دیتی تھیں۔

Mrs B smuggled about 50 North Koreans to South Korea before she herself escaped to South Korea

Cinesofa
مسز بی نے شمالی کوریا سے 50 عورتوں کو جنوبی کوریا سمگل کیا

اس کے علاوہ وہ شمالی کوریا سے سمگل کی جانے والی خواتین کے مطالبات ان چینی خاندانوں کو ان کی زبان میں بھی بتاتی تھیں جنھیں ان خواتین کو بیچا جا رہا ہوتا تھا جیسا کہ وہ کن شرائط پر شادی کریں گی اور ان کے اہل خانہ کو شمالی کوریا میں ہر ماہ رقم بھجوانا وغیرہ۔

لیکن کیا انھیں اس کا ملال ہے۔ خود بھی ایک بار سمگلرز کا شکار ہونے پر؟

جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے انسانی سمگلنگ ایک ایسی چیز ہے جس سے شمالی کوریا کی تمام خواتین کو گزرنا چاہیے۔

مجھے دھوکہ دیا گیا لیکن کم ازکم یہ عورتیں جانتی تھیں کہ وہ کیا معاہدہ کر رہی ہیں۔ ان میں ناراضگی ہو گی لیکن اتنی نہیں جتنی مجھے تھی۔

ان کی جگہ کھڑے ہو کر

شمالی کوریا کی خواتین کو چینی مردوں کے ہاتھ بیچنے کے علاوہ مسز بی نے شمالی کوریا سے لوگوں کو جنوبی کوریا بھجوانے کے لیے بروکر کا کام بھی کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے کم ازکم 50 افراد کو شمالی کوریا سے جنوبی کوریا بھجوایا۔

وہ کہتی ہیں میں نے وہی روٹ اپنایا جس سے میرا سب سے چھوٹا بیٹا گزرا تھا۔ اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بہت مشکل راستہ ہے۔ اس نے مجھے کہا کہ اپنے سامان میں بہت سے سیب بھی رکھ لیں۔

میں نہیں بتا سکتی کہ وہ کتنا مشکل راستہ تھا۔ میرا دل بہت دکھی تھا کہ ہم شمالی کوریا والے کیوں اس مصیبت کا شکار ہیں۔‘

فلم ساز اور ڈائریکٹر جیرو ین جو کہ چین سے جنوبی ایشیا میں فرار کے لیے مسز بی کے ہمراہ وین میں موجود تھے نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جسمانی مشقت والا کام تھا۔ انھوں نے اپنے کیمرے کے ذریعے اس ہنگامہ خیز سفر کی تفصیلات محفوظ کیں۔

’بچے کو منشیات

وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ میں بہت زیادہ شوٹنگ نہیں کر سکا لیکن یہ ایک ایسا سفر تھا جس نے مجھے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سبق دیا۔

اس فلم میں بھاگنے والے افراد کا گروہ جو چین اور لاؤس کی سرحد پار کر رہے تھے میں ایک روتا ہوا بچہ بھی شامل تھا جس کے رونے سے ان لوگوں میں مزید خوف اور بدحواسی پیدا ہو رہی تھی۔

اگرچہ یہ فلم میں نہیں دکھایا گیا لیکن مسز بی نے انکشاف کیا کہ بچے کو نشہ آور دوا دی گئی تھی تاکہ وہ روئے نہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ گروہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ان کے پکڑ ے جانے کا خدشہ تھا۔

https://youtu.be/QUT6EbsGBm4

لاؤس سے بینکاک وہ ٹریکٹر میں چھپے رہے تاکہ حکام انھیں پکڑ نہ سکیں۔

سفر کا یہ حصہ فلم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جب ین لیٹے ہوئے ہیں اور صاف شفاف آسمان کے منظر کو فلما رہے ہیں۔

خوش کن اختتام نہیں

مسز بی نے اپنے چینی شوہر سے کہا کہ وہ جنوبی کوریا میں رہائش پذیر ہونے کے بعد انھیں بلا لیں گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

وہ جنوری 2014 میں جنوبی کوریا آئیں اور جنوبی کوریا کے انٹیلیجنس حکام کی جانب سے پوچھ گچھ کے بعد ان پر جاسوسی کرنے کا شبہ کیا گیا۔

اس کی وجہ شمالی کوریا کی نشہ آور دوا ’آئس‘ کو چین میں بیچنا بتائی گئی۔

مسز بی نے اس بات کا اقرار کیا کہ انھوں نے ایک بار پیسے بنانے کے لیے یہ کام کیا تھا۔

لیکن جنوبی کوریا کے حکام نے الزام لگایا کہ مسز بی نے شمالی کوریا کی حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اس میں جاسوسی کے امکانات بھی ہیں لیکن بی نے اس کی سختی سے تردید کی۔

یہی نہیں جنوبی کوریا کی حکومت نے مسز بی اور ان کے شوہر کو شہری حقوق کے محروم کر دیا وہ اب ووکیشنل ٹریننگ نہیں لے سکتے تھے گھر کم قیمت پر حاصل نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی پیسے کے حوالے سے کوئی مدد مل سکتی ہے۔

In

Cinesofa
مسز بی کہتی ہیں کہ جنوبی کوریا میں آزاد زندگی بھی اچھی نہیں تھی

جنوبی کوریا شمالی کوریا سے فرار ہو کر آنے والوں کو اس قسم کے تحفظات نہیں دیتا جن کا مجرمانہ ریکارڈ ہو۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو چین میں دس برس سے رہ رہے ہیں یا شمالی کوریا سے آنے والے وہ لوگ جو سیاسی پناہ ایک برس کے اندر لینے میں ناکام ہو جائیں۔

مسز بی کے کیس کے حوالے سے جنوبی کوریا کی خبر رساں ایجنسی نیوز ٹاپا نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے۔

مسز بی کا دعویٰ ہے کہ ان کے شوہر نے کبھی بھی نشہ آور اشیا کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔

انھوں نے مزید الزام لگایا کہ انھوں نے اپنی منشیات سے کمائی گئی دولت کو خرچ کر دیا ہے اور اب جنوبی کوریا کے خفیہ حکام کے پاس ان کے حوالے سے جاسوسی کا کوئی شبہ نہیں جس کی بنیاد پر ان سے تحقیقات کی جائیں۔

ان دونوں نے حکومت کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے۔

یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ مسز بی کے چینی شوہر نے ایک اور عورت سے بھی شادی کی ہے۔

فقط دوست

اپنے انٹرویو کے دن مسز بی نے ایک میج دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ اب بطور دوست رابطے میں ہیں۔

مسز بی نے انھیں فلم کے کچھ شاٹس کی تصاویر بھی بھجوائیں۔

وہ کہتی ہیں کہ زیادہ تر پیغامات میں وہ مجھ سے سوری بولتا ہے کیونکہ وہ ہے جس نے مجھے دھوکہ دیا۔

مسز بی اب سیول میں ایک کیفے میں کافی بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈائریکٹر ین کو انھوں نے فلم کرنے کے لیے حامی پیسوں کے لیے بھری۔

وہ کہتی ہیں اس وقت پیسہ میرے لیے سب کچھ تھا لیکن میرا نہیں خیال اب ایسا رہا ہے۔

’میں نے اپنے بچوں کے لیے ہر چیز کی قربانی دی لیکن اب میری عمر 50 سے اوپر ہے اب میں اپنے لیے جینے کی خواہش رکھتی ہوں اپنی خوشی حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ اب میں سمگلنگ کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کرنا چاہتی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp