کنوارے بھتیجے کی اپنے چچا سے گفتگو


میں خود کشی کرنا چاہتا ہوں اور اس کی ذمہ داری آپ پر ہوگی۔ بھتیجے نے بالاخر جی کڑا کر کے کہ دیا۔ ”ہائیں میرے پیارے بھتیجے یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ خود کشی کریں تمہارے دشمن۔ ابھی تومیں نے تمہارے سر پر سہرا سجانا ہے۔ یہ آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے ؛ پہلے تو تم نے کبھی ایسے بات نہیں کی۔“ چچا نے شدید پریشانی میں سر کھجاتے ہوئے کہا۔

”ہاں ہاں! میں نے اس سے پہلے کبھی ایسے بات نہیں کی، کیوں کہ اس سے پہلے میں نے کسی غیر شادی شدہ بھتیجی کا خط اپنی آنٹی کے نام نہیں پڑھا تھا۔ جب اس میں اتنی جرات ہو سکتی ہے تو میں نے بھی چوڑیاں تو نہیں پہن رکھیں۔“ بھتیجا کھول رہا تھا۔

”میاں بھتیجے مانا کہ تم جوش میں ہو مگر ہوش سے کام لو یہ محاورہ اس موقعے پر نہیں بولا جاتا۔ تمہیں اس موقعے پر غالب کا شعر پڑھنا چاہیے تھا،“ میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں، کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے۔ ”چچا جھنجلا کر بولے۔

” بس یہی تو میرا مسئلہ ہے۔ میں کچھ بھی کروں آپ میری اصلاح کے لئے ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے آپ کے اندر ڈپٹی نذیر احمد کی روح ہے۔“ بھتیجا بھی تلملایا۔ ”مائی ڈئیر سن اب تم مجھے ڈرانے کی ناکام کوشش کر رہے ہو، اچھا بولو تم کیا چاہتے ہو؟“

” کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں، سب سے بڑا مسئلہ تو یہی ہے کہ آپ مجھ سے کچھ زیادہ ہی محبت کرتے ہیں۔ بچپن سے ہاتھ کا چھالا بنا کے رکھا ہے۔ اتنی کیئر تو میرے ابا جان نے کبھی نہیں کی اور اچھا ہے کہ نہیں کی وگرنہ پتہ نہیں میرا کیا حال ہوتا۔ سکول کے زمانے میں اتنا ڈر مجھے اپنے باپ سے نہیں لگتا تھا جتنا آپ سے لگتا تھا کہ کہیں سکول سے کوئی منفی رپورٹ آ گئی تو کیا ہو گا۔ اب میں یونیورسٹی میں ہوں لیکن حال نہیں بدلا۔ اب تو حد ہو گئی ہے روز گھر کا نوکر طیفا کسی نہ کسی بہانے یونیورسٹی آ دھمکتا ہے۔ مجھے تو اب پتہ چلا ہے کہ وہ بھی آپ کا جاسوس ہے۔ آپ نے اسے مجھ پر نظر رکھنے کے لئے رکھا ہوا ہے۔ میں کوئی کرمینل ہوں کیا؟“

”ریلیکس بھتیجے ریلیکس۔ چچا نے گہری سانس لی۔ دیکھو میں تمہارا دشمن نہیں ہوں۔ تم میرے لئے آج بھی بچے ہو۔ میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ۔ تمہیں کیا خبر میں تمہیں کیسے کیسے خطرات سے بچاتا رہا ہوں۔ صاف صاف کہنا مناسب نہیں لگتا لیکن مالی، باورچی، مہتر اور ڈرائیور کے ساتھ تمہیں کبھی تنہا کہیں نہیں جانے دیا کہ کہیں وہ موقعے سے فائدہ نہ اٹھا لیں۔ تم سمجھ رہے ہو ناں؟“

بھتیجے کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ ”کاش وہ فائدہ اٹھا ہی لیتے، اب جو آپ میرے ساتھ کرنا چاہتے ہیں، اس سے تو یہی بہتر تھا۔ ذرا سوچئے میں اپنی ساری زندگی پروین کے ساتھ کیسے گذاروں گا۔ 1960 کے زمانے کی ہیروئین ہے پوری کی پوری۔“

” ایک تو یہ تمہارے ماں باپ پیٹ کے بہت ہلکے ہیں۔ کہا تھا ابھی بات کو خفیہ رکھیں لیکن بتا دیا نا تمہیں۔ لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آ رہا کہ آخر اس میں خرابی کیا ہے۔ اچھی خاصی حسین ہے۔ دین دار ہے اور روٹیاں تو اتنی گول بناتی ہے کہ محلے کی سب مائیں اپنی بچیوں کو ٹریننگ کے لئے اسی کے پاس بھیجتی ہیں۔“ چچا نے حیرت ظاہر کی۔ ”

” یہی تو آپ سمجھ نہیں رہے، آپ کی اپنی سوچ اور زاویہ نگاہ ہے جو مجھ سے تو قطعی مختلف ہے۔ آپ نے ہمیشہ مجھے وہ بنانے کی کوشش کی جو آپ کا دل چاہتا تھا۔ ایف ایس سی کے زمانے میں آپ مجھے ڈاکٹر بنانے پر تلے ہُوے تھے۔ یہ تو مجھے معلوم ہے کہ کتنی مشکل سے میں نے مضامین بدلے اور اردو ادب کا انتخاب کیا۔ میرے گٹار بجانے پر آپ نے پابندی لگا دی۔ مصوری کا شوق بھی سسک سسک کر مر گیا۔ البتہ آپ کی خواہش کے مطابق جلد ہی داڑھی کا شوق ضرور پورا ہو جائے گا کیونکہ اگر مجھے جینا نہ ملی تو میں مجنون تو ہو ہی جاؤں گا۔“

” ہوں تو یہ ہے اصل وجہ۔ مجھے پہلے ہی شبہ تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے“ چچا نے گہری سانس لی گویا نتیجے پر پہنچ گئے۔ ”میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ جینا ٹینا جیسی لڑکیاں تم جیسے بھولے بھالے لڑکوں کوکیسے پھانستی ہیں۔ یہ جینا بھی تمہاری دولت کے لالچ میں تم سے پیار کا ناٹک کر رہی ہوگی۔“

” خدا کے لئے چچا اس بے چاری پر اتنے گھٹیا الزامات نہ لگائیں اگرچہ آپ میرے سمارٹ فون، ٹویٹر اور فیس بک کی جاسوسی بھی کرتے رہے ہیں لیکن میں پھر بھی جینا کو آپ کی نگاہوں سے بچانے میں کامیاب رہا ہوں۔ میں اسے دو سال سے جانتا ہوں۔ وہ مجھے سمجھتی ہے۔ میرا اس کے ساتھ روح کا رشتہ ہے۔ میں اس کے ساتھ خوش رہوں گا اور وہ میرے ساتھ۔ آپ مجھ سے بے حساب محبت کرتے ہیں، میں اس کی قدر کرتا ہوں لیکن خدارا اس بات کو سمجھیں کہ میں آپ کا نیا ورژن نہیں ہوں۔ آپ مجھے اپنی حسرتوں کو پورا کرنے کا ذریعہ نہ بنائیں۔ مجھے تعلیم ضرور دلائیں تاکہ میں صحیح اور غلط میں تمیز کر سکوں لیکن مجھے اپنی زندگی اپنی مرضی سے گذارنے دیں تاکہ کل میں آپ کی طرح کا چچا نہ بن جاؤں۔ میری محبت میں اتنا تو آپ کر سکتے ہیں“
چچا خاموش ہوگئے۔ شاید ان کے دلائل ختم ہو گئے تھے یا پھر وہ بھتیجے کی بات مان گئے تھے۔ (یہ تحریر ”ہم سب“ کے ایک بلاگ کا تاثر ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).