کافکا کا دوست


نوٹ۔ آئزک سنگر 1902 میں پولینڈ میں پیدا ہوئے اور 1991 میں امریکہ میں فوت ہوئے۔ وہ ساری عمر اپنی مادری زبان یدش میں کہانیاں لکھتے رہے۔ انہیں 1978 میں ادب کا نوبل انعام ملا تھا۔ میں نے ’ہم سب‘ کے لیے ان کی کہانی A FRIEND OF KAFKA کی تلخیص اور ترجمہ کیا ہے۔
۔ ۔
میں نے فرانز کافکا کے بارے میں سن رکھا تھا لیکن جب کئی برس بعد میری اس کے دوست جیک کوہن سے ملاقات ہوئی تو مجھے کافکا کی کہانیاں پڑھنے کا موقع ملا۔ جیک کوہن ایک ایکٹر تھا لیکن جب میری اس سے ملاقات ہوئی تو وہ ایکٹنگ چھوڑ چکا تھا۔ جیک اندر سے ٹوٹا ہوا آدمی تھا۔ اس کا لباس اس کے مزاج کی طرح بے ترتیب تھا۔ وہ اپنے حلیے سے ایک مجرم دکھائی دیتا تھا۔ اس کی گفتگو بھی پریشان خیالی کا شکار تھی۔ جب وہ کافکا کے بارے میں اظہارِ خیال کرتا تو بہت جذباتی ہو جاتا۔ جیک لزنو سٹریٹ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا۔

جیک سے میری ملاقات شہر کے ایک کلب میں ہوتی۔ جب جیک آتا تو دروازہ آہستہ سے کھولتا اور کلب میں یوں داخل ہوتا جیسے وہ ایک نامی گرامی شخصیت ہو۔ وہ اس طرح مسکراتا جیسے وہ خواص میں سے ہو اور وہ ارد گرد کے عوام کا تمسخر اڑا رہا ہو۔ وہ چاروں طرف پھیلی ہوئی میزوں کو حقارت سے دیکھتا جن پر پھٹے پرانے اخبار ’شطرنج کے مہرے‘ ادھ جلے سگریٹ اور راکھ سے بھرے ہوئے ایش ٹرے نطر آتے۔ جب اس کلب کے لوگ ادبِ عالیہ کی بات کرتے تو وہ مخصوص رعونت سے خاموش رہتا جیسے وہ حاضرین کی کم علمی پر دل ہی دل میں ہنس رہا ہو۔

ایک شام جیک قدرے اچھے موڈ میں تھا۔ مجھے دیکھ کر وہ اپنے پیلے دانتوں سے مسکرایا اور میری طرف اس نے اپنا منحنی انگلیوں والا ہاتھ مصافحہ کے لیے بڑھایا۔ پھر کہنے لگا ’RISING STAR کا کیا حال ہے؟ ‘
’وہی حال ہے جو پہلے تھا‘ میں نے مختصر جواب دیا۔

’ میں مذاق نہیں کر رہا۔ میں نابغوں کو دور سے پہچان لیتا ہوں۔ جب 1911 میں فرانز کافکا میری ایکٹنگ دیکھنے اور ڈرامے کے بعد سٹیج کے پیچھے مجھ سے ملنے آیا تھا تو مجھے اسی وقت پتہ چل گیا تھا کہ وہ ایک جینیس ہے۔ اس وقت اسے کوئی نہیں جانتا تھا۔ مجھے اس کی عظمت کی اسی طرح خوشبو آ گئی تھی جیسے بلی کو چوہے کی خوشبو آ جاتی ہے۔ اس طرح میری اور کافکا کی دوستی کا آغاز ہوا تھا۔ ‘

جیک کافکا سے ملنے کی کہانی کئی محفلوں میں کئی حوالوں سے سنا چکا تھا۔ جب جیک میرے پاس بیٹھا تو مجھے پورا یقین تھا کہ وہ اپنی کہانی ایک دفعہ پھر سنائے گا۔ جیک یورپ کی کئی ادبی شخصیات کو جانتا تھا اور ان سے خط و کتابت بھی کرتا تھا۔ اس نے مجھے کافکا کے خطوط بھی دکھائے تھے۔ جو شخص بھی جیک سے ملتا اس کا یورپی ادیبوں سے غائبانہ تعارف ہو جاتا۔ وہ جب بھی مجھ سے ملتا میری تعریف ضرور کرتا۔

میں چونکہ شرمیلا ہوں اس لیے عورتوں سے فاصلہ رکھتا ہوں۔ جیک جلد ہی عورتوں سے گھل مل جاتا ہے اور بدصورت سے بدصورت عورت کی بھی ایسے تعریف کرتا ہے جیسے وہ کوئی مہہ جبیں ہو۔
ایک شام جیک نے مجھ سے بڑی بے تکلفی اور بیساختگی سے کہا ’اے میرے نوجوان دوست میں اب نامرد ہو چکا ہوں اب مجھے کوئی عورت خوبصورت دکھائی نہیں دیتی۔ اب مجھے ان کے ظاہری و باطنی سب نقائص نظر آتے ہیں۔ یہ سب نامردی کی نشانیاں ہیں۔ اب مجھے عورتوں کی وہ بدصورتیاں بھی نطر آ جاتی ہیں جو میک اپ اور پرفیوم سے نہیں چھپتیں۔ کافکا کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اسے زندگی کی بدصورتیاں دور سے نطر آ جاتی ہیں۔ وہ ان ادیبوں کی طرح نہیں ہے جو زندگی کی بدصورتی کو فن کے میک اپ سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

’کافکا ایک زمانے میں ایک یدش ایکٹریس میڈم ٹینزک کی زلف کا اسیر ہو گیا تھا۔ وہ عورت نہایت بدصورت تھی۔ مجھے کافکا کی عورتوں کے بارے میں بدذوقی پر شرم آتی تھی لیکن مجھے پتہ تھا کہ بہت سے لوگ مشہور لوگوں سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ بھی تاریخ اور ادب کی کتابوں میں زندہ رہیں۔

میرا خیال ہے زندگی ایک شطرنج کا کھیل ہے۔ ہر انسان وہ کھیل قسمت کے ساتھ کھیلتا ہے۔ قسمت ایک چال چلتی پے اور پھر انسان ایک چال چلتا ہے۔ میرا مقابلہ ایک فرشتے سے ہے جو ہر چال میں جیک کو ہرا دیتا ہے لیکن میں بھی اتنی آسانی سے نہیں ہارنے والا۔ مجھ سے کھیلتے فرشتے کا بھی سانس پھول جاتا ہے۔
ایک دن جیک نے مجھے اپنی ایک کہانی سنائی کہنے لگا ’میں جس کمرے میں رہتا ہوں وہاں سخت سردی ہے۔ مجھے رات کے وقت دو کمبل لے کر سونا پؑڑتا ہے۔ جو شخص کبھی ایٹک میں نہ رہا ہو وہ اس سردی کی شدت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔

ایک رات میں سو رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے سوچا آدھی رات کو کون ہو سکتا ہے۔ شاید کوئی غلط فہمی ہوگی۔ پھر مجھے ایک عورت کی آواز آئی لیکن یہ نہ پتہ چل سکا کہ وہ ہنس رہی ہے یا رو رہی ہے۔ میں بادلِ ناخواستہ بستر سے اٹھا ’کوٹ پہنا‘ بال درست کیے اور آئینہ دیکھا تو اپنی شکل سے ہی خوفزدہ ہو گیا۔
میں نے دروازہ کھولا تو وہاں ایک بدحال عورت کھڑی تھی۔
’مجھے اندر آنے دو۔ مجھے کوئی قتل کرنا چاہتا ہے‘ اس نے التجا کی۔

میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ سردی سے ٹھٹھر رہی تھی۔ اس کے منہ سے شراب کی بو بھی آ رہی تھی۔ اس کی کلائی میں قیمتی جواہر کا بریسلیٹ بھی تھا۔
’میرے کمرے میں ہیٹر نہیں ہے‘ میں نے کہا
’ سڑک پر سردی سے مرنے سے تو بہتر ہے‘
وہ خود ہی کمرے میں آ گئی۔

’میرے پاس صرف ایک بستر ہے‘ میں نے وضاحت کی۔
’کوئی بات نہیں میں زمین پر بیٹھ کر کچھ دیر اونگھ لوں گی‘

’کیا آپ اس بلڈنگ میں رہتی ہیں؟ ‘ میں متجسس تھا۔
’نہیں میں اوہان ڈوستکی بلوارڈ پر رہتی ہوں‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail