خون کے رشتے یا خلوص کے رشتے


منظر جاوید کا تعلق جھنگ کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ گاؤں سے ہے جبکہ میں خیبر پختون خواہ میں اسی طرح کے ایک گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہم دونوں کی زبان روایات اور علاقے ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں۔ ظاہر ہے کوئی رشتہ داری بھی نہیں۔

ہم دونوں کو ایک دوسرے سے کوئی مفاد بھی نہیں کیونکہ اللّہ تعالٰی نے ہم دونوں کو اپنی اپنی جگہ آسودگی سے نوازا ہے۔ چند دن پہلے جب میں اپنی فیملی سمیت لاہور میں ان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا تو لمحہ بھر کو بھی یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ ہم اس گھر میں مہمان بن کر آئے ہیں اور یہ احساس ہمیشہ سے دونوں طرف موجود رہا ایک طاقتور اعتماد اور بے تکلف رویئے کے ساتھ حتی کہ میرے بچوں کو مضامین کے انتخاب سے کیرئیر پلاننگ تک اس کی ہد ایات اور مشورے پر ہی عمل کرنا پڑتا ہے کیونکہ میں اس معاملے میں قدرے بے فکر واقع ہوا ہوں جس کا ادراک منظر جاوید کو بھی ہے اور میرے بچوں کو بھی۔ اس لئے مجھے اس معاملے سے الگ رکھا گیا ہے۔

اب ذرا اس رشتے کے پس منظر میں جھانکتے ہیں۔ اللہ تعالی نعمتیں بانٹنے پر آ جائے تو یہ نہیں دیکھتا کہ کون کہاں بیٹھا ہے یا اس کی حیثیت کیا ہے اس لئے جھنگ کے دور آفتادہ گاؤں کا یہ عام سا گھرانا بھی خدائے بزرگ و برترکی نعمتوں سے محروم نہ رہ سکا اور نعمت بھی ذہانت اور قابلیت کی۔ دو ہزار چار میں منظر جاوید نے صوبائی سول سروس کا امتحان پاس کیا اورمیانوالی میں ایکسڑا اسسٹنٹ کمشنر لگ گیا اسی دوران اس نے سی ایس ایس کا امتحان بھی دیا کچھ عرصے بعد اس کے سی ایس ایس کانتیجہ آگیا تو وہاں بھی اس نے امتیازی پوزیشن لی اور پاکستان ایڈ منسٹریٹو سروس۔ عرفِ عام میں ڈی ایم جی میں شامل ہوئے۔ اس کی پہلی پوسٹنگ خیبر پختون خواہ میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے ہوئی اور یہیں پر ہماری شناسائی ہوئی۔

میں نے اس کے ہاتھ میں ایک نایاب کتاب دیکھی تھی اور یہیں سے تعارف کا دروازہ کھلا تھا۔ زندگی میں جو چند انتہائی پڑھے لکھے اور صاحب مطالعہ لوگ میں نے دیکھے منظر جاوید ان میں سے ایک ہے، اُردو انگریزی اور پنجابی کے ساتھ ساتھ عربی اور سپینی ادب اور تاریخ پر ایسی گرفت کہ باید و شاید!

کبھی موضوع پر بولنا شروع کرے تو مخاطب کی سانس تک جم جاتی ہے، اس مصرعے کے مصداق کہ
وہ کہے اور سنا کرے کوئی

اس شناسائی کو ہماری ہم ذوقی اور خلوص تیزی کے ساتھ تعارف، دوستی حتٰی کہ خاندانی تعلقات تک لے گیا۔ اس کے اس کمال کی تو داد دینی پڑے گی کہ وہ مجھ جیسے کاہل آدمی کو سوات، ملتان اور لاہور (یعنی جہاں جہاں اس کی پوسٹنگ ہوتی ہے ) کھینچتا چلا جاتا ہے اگر ہماری اس قربت کے لئے کوئی ممتحن مقرر کیا جائے تو مجھے فیل ہی سمجھیں کیونکہ وہ کم بخت پچھلے امتحانات کی طرح یہاں بھی سارے نمبر لے اڑے گا منظر جاوید کی اہلیہ بھی سی ایس پی افسر ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے ایک معزز اور پڑھے لکھے خاندان سے ہے، سو منطقی طور پر وہ ایک شائستہ اور باوقار خاتون ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ بھابی کم اور بہن زیادہ لگتی ہیں۔

منظر کے والدین اور بہن بھائیوں کو دیکھ کر کبھی لمحہ بھر کو بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ میرے دوست کے والدین اور بہن بھائی ہیں بلکہ وہ اپنے ہی لگتے ہیں کیونکہ ان کی اپنائیت، خلوص اور احترام اپنوں سے کم ہرگز نہیں۔ یہ تمہید ذرا لمبی ہو گئی لیکن بات واضح کرنے کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔

اسی خاندان کے ساتھ قرب اور احترام کے رشتے نے میرے اندر اس رائے کو بہت اہمیت دی کہ رشتے خون سے نہیں۔ بلکہ خلوص سے ترتیب پاتے ہیں۔ ورنہ ابولھب تو سرکار دو عالم کے چچا تھے، جبکہ بلال حبشی ٌ ایک مہاجر اور غلام لیکن اہمیت رشتے کو ملی یا خلوص کو؟ اسی سے ملتے جلتے سلسلے ہم دوسرے انبیا ء کرام مثلاً نوح علیہ السلام ابراہیم علیہ اسلام اور یوسف علیہ السلام کے حوالے سے بھی دیکھتے ہیں کہ بات رشتے کی آئی تو خون کی بجائے خلوص کو معیار بنایا گیا کیونکہ کنعان تو حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا تھا آزر تو ابراہیم علیہ السلام کا والد جبکہ بھائی تو یوسف علیہ السلام کو ایک کنویں میں پھینک آئے تھے اسی طرح حضرت ابوبکرصدیق حضور کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کو اس وقت لپکے جب دوستی کے علاوہ کسی رشتے کا نام ونشان تک نہ تھا

یہ جو دین اسلام کی تعلیمات سے لے کر تصوف بھری شاعری تک کے ذریعے ہمیں احترام انسانیت کا درس دیا جاتا ہے تو اسی جذبے کے بطن سے یہی پھوٹتا ہے کہ درمیان میں کوئی مادی مفاد بھی نہیں ہوتا، زبان روایات اور طرز زندگی مختلف لیکن احترام اور محبت کا جذبہ باھم مشترک ہوتا ہے جوا ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑ دیتا ہے کہ پرایا پن اجنبی ہوجاتا ہے۔

میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ رشتوں کو خون کی بجائے خلوص سے پرکھا جائے، ورنہ آپ کا کوئی بھائی چچا یا دوسرا رشتہ دار خدانخواستہ بہت ظالم اور سفاک ہوسکتا ہے لیکن آپ کے سر پر خون کا رشتہ ہی سوار ہو تو جذباتی تصور پسند تو آپ ہوسکتے ہیں لیکن حقیقت پسند ہرگز نہیں اور ہمارے معاشرے کی روایتی تصور پسندی ہمیشہ ہم کو المیوں اور مسائل سے دوچار کردیتی ہے، ضروری نہیں کہ اس سلسلے میں رد عمل کا اظہار ہی کیا جائے۔

لیکن کم از کم معاملات اور رویوں کو تو شعوری طور پر سمجھا جائے جبکہ دوسری طرف ہر وقت اور ہر جگہ پرائے پن سے گریز بھی کیا جائے کیونکہ یہی رویہ اکثر و بیشتر ہمیں انا پرستی اور تنھائی کی طرف دھکیل کر آسودگی اور زندگی کے ارتقائی عمل سے الگ کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے ہماری زندگی کے نفسیات سے سماجی زندگی تک پر منفی اثر پڑتا ہے لیکن اگر اس سلسلے میں ہم کھلے دل اور گرم جوش رویے کا مظاہرہ کریں تو ہر قدم پر نہ سہی کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں تو ہمارا سامنا ایسے لوگوں سے ہو سکتا ہے جو آگے چل کر محبت آسودگی، اخلاص، اور برکت کے رواں چشموں کی مانند ہی ثابت ہوتے ہیں جو ہماری زندگی کو ایک مثبت اور تعمیری حسن سے ہمکنار کر دیتی ہے

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).