ایک پیغام: عمران خان کے ناقدین کے نام


پاکستان میں 2018 میں ہونے والے جنرل الیکشن کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو عمران خان کے 100 روز میں تبدیلی کے دعوے کا خوب چرچا ہوا۔ اب جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت کے 100 روز مکمل ہو چکے ہیں تو ہر طرف ایک کہرام برپا ہے کہ کیا عمران خان اپنے دعوے کے مطابق تبدیلی کا جھنڈا لہرانے میں کامیاب ہوئے یا نہیں، خاص طور پر سوشل میڈیا پر عمران خان کے حامیوں اور ناقدین کے مابین ایک جنگ جاری ہے۔ دونوں جانب سے اپنے اپنے بیانیے کے حق میں دلائل دیے جا رہے ہیں۔ یہ تحریر خاص طور پر عمران خان کے ناقدین کے لئے ہے جنھیں تعصب کی عینک میں سے تبدیلی کی روشنی نظر نہیں آرہی۔

خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ مفاد پرست الیکٹیبلز کی ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ وہ آج بھی اپنی اس بات پر قائم ہیں اور کوئی الیکٹیبل پی ٹی آئی کا حصہ نہیں ہے ماسوائے ان الیکٹیبلز کے جنھیں جہانگیر ترین پی ٹی آئی کے کارکنان کے بے پناہ ضد کرنے پر اپنے نجی طیارے میں بیٹھا کر بنی گالا لے آئے یا جو شیخ رشید کی طرح زبردستی گھر میں گھس آئے۔ اب گھر آئے مہمان کی مہمان نوازی تو ہماری تہذیب کا خاصہ ہے اس لئے خان صاحب کو مجبوراً ان لوگوں کو پارٹی میں خوش آمدید کہنا پڑا ورنہ جماعت کی پالیسی تو آج بھی الیکٹیبلز کے لئے وہی ہے جو الیکشن سے پہلے تھی۔ شیخ رشید کل بھی چپڑاسی بننے کے قابل تھے اور آج بھی ریلوے میں چپڑاسی ہیں۔

کرپشن کے خلاف ”احتساب سب کا“ وہ بنیادی نعرہ ہے جو صرف پی ٹی آئی کا طرہ امتیاز ہے۔ باقی کی تمام جماعتوں پر کسی نہ کسی زمرہ میں کرپشن کے الزامات ہیں، سابق وزیر اعظم تو کرپشن کے الزامات میں جیل بھی جا چکے ہیں اور ان کا پورا خاندان اس وقت نیب کے کڑے احتساب سے گزر رہا ہے اور چونکہ ان کی جماعت حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے اس لئے انہوں نے ایوان میں خوب ادھم مچایا ہوا ہے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہو رہی ہیں حالانکہ خان صاحب ”احتساب سب کا“ کے اپنے بیانیے پر چٹان کی طرح ڈٹے ہیں۔

اس کا سب سے بڑا ثبوت خان صاحب کی بہن علیمہ خان کے نام دبئی میں جائیداد منظر عام آنے کے فوری بعد اس ضمن میں تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی کے قیام کا اعلان ہے۔ جہانگیر ترین عدالتی فیصلہ کے مطابق نا اہل ہونے کے بعد جماعت سے نکال دیے گئے ہیں اور مالی و ڈرائیور کے نام بے نامی جائیدادیں رکھنے کے الزام میں نیب کی تحویل میں ہیں۔ اعظم سواتی اور ان کے محافظ اس وقت ایک غریب خاندان پر تشدد اور زمین پر غیر قانونی قبضہ کے الزام میں مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ تو چند ایک مثالیں ہیں ورنہ تو پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین کو تو بہت سخت آزمائشوں کا سامنا ہے۔

ناقدین کو بلاوجہ تنقید کی عادت ہے۔ خان صاحب بھی پرانے پاکستان کی طرح حکومت ملتے ہی اپنے عزیزواقرباء میں حکومتی عہدوں اور مراعات کی بندر بانٹ شروع کر دیتے اور زلفی بخاری، عثمان ڈار یا ایسے ہی دوسرے ”دوستوں“ کو نوازنا شروع ہو جاتے پھر ناقدین نے خوش رہنا تھا۔ اب جبکہ نئے پاکستان میں سب کچھ صرف میرٹ پر ہو رہا ہے تو ایسے میں ناقدین کی تنقید کم سے کم میری تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر یہ چاہتے کیا ہیں؟

ناقدین کہتے ہیں کہ خان صاحب کی حکومت نے ان 100 دنوں میں عوام کو کیا ریلیف دیا؟ ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ گزشتہ حکومتیں پٹرولیم مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کر کے \عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالتی تھیں جب کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے حکومت میں آنے سے پہلے دعویٰ تو ٹیکس کم کر کے پاکستانی عوام کو ریلیف دینے کا کیا تھا مگر اپنی انتھک محنت اور کاوش سے عالمی سطح پر فی بیرل تیل کی قیمتوں میں ہی خاطر خواہ کمی کروا دی ہے لہٰذا اگر اب بھی عوام حزب اختلاف کی باتوں میں آ کر بغض عمران یا اپنی کم علمی کی بنا پر مہنگا تیل ہی خریدے تو اس میں حکومت کا کیا قصور؟ حکومت کی بہترین پالیسیز کے نتیجے میں ماشا اللہ ہماری اقتصادی صورت حال اتنی خوش حال ہو چکی ہے کہ آئی ایم ایف بھی قرضہ لینے کے لئے آج کل پاکستان کے دورے کر رہا ہے۔

حکومتی اخراجات میں کمی کے لئے سادگی اپنانے کے اپنے وعدے کو بھی خان صاحب نے بھرپور نبھایا ہے۔ تمام اضافی گاڑیاں اور بھینسیں بیچ دی گئی ہیں۔ کابینہ اتنی چھوٹی رکھی گئی ہے کہ سوزوکی مہران میں تمام ممبران کابینہ کھلے ڈھلے ہو کر سفر کرتے ہیں۔ پروٹوکول ختم کر دیا دیا گیا ہے بس سیکورٹی کے لئے ضروری چند ایک درجن گاڑیاں ہی ساتھ ہوتی ہیں۔ خان صاحب، صدر صاحب، گورنر صاحبان اور دوسرے وزراء جب سڑکوں پر نکلتے ہیں تو عوام ان کی والہانہ محبت میں خود ہی سڑکیں خالی کر دیتے ہیں ورنہ وہ تو ہر سرخ اشارہ پر عوام کے ہمراہ رکنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

ویسے تو خان صاحب نے پہلے 100 دن کوئی عالمی دورہ نہ کرنے کی بات کی تھی پر سعودیہ، یو اے ای، چین اور ملائشیا کے سربراہان نے اپنی عوام کی پرزورفرمائش پر خان صاحب سے درخواست کی تو سفارتی تعلقات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انھیں جانا پڑا۔ مخالفین نے خوب پروپیگنڈا کیا اور بیک گراؤنڈ میں پرائیویٹ جہاز کی تصویریں فوٹو شاپ کر کے سوشل میڈیا پر چپکا دیں مگر حقیت یہ ہے کہ خان صاحب اپنی سادگی والی بات پر قائم رہے اور کمرشل فلائٹ کی اکانومی کلاس میں صرف اپنے سیکرٹری کو ساتھ لے کر گئے۔ واپسی پر چین اور سعودیہ کی حکومتوں نے انھیں تحائف بھی پیش کیے مگر خان صاحب نے وہ لینے سے انکار کر دیا مگر پھر ان ممالک کے بیحد اصرار کرنے پر ان کڑی شرائط پر تحائف لینے پر آمادہ ہوئے کہ سعودیہ کا تحفہ وہ استعمال نہیں کریں گے اور چین کے تحفہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔

خان صاحب نے اعلان کیا تھا کہ وہ کبھی اپنی عوام سے جھوٹ نہیں بولیں گے اور آج کے نئے پاکستان میں آپ کو کہیں بھی جھوٹ دکھائی نہیں دے گا۔ جو لوگ ان کے یوٹرنز پر واویلا کرتے نہیں تھکتے وہ یہ بات یاد رکھیں کہ دنیا کے تمام بڑے لیڈرز ”حکمت عملی“ کے نتیجے میں کچھ یوٹرنز لیتے ہیں اور جو یوٹرنز نہیں لیتے تاریخ کبھی انھیں لیڈر کے طور پر یاد نہیں رکھتی۔ خان صاحب کے یوٹرنز عام سطحی سوچ رکھنے والوں کی سمجھ میں نہیں آسکتے اس لیے ناقدین اور عام عوام کی سہولت کے لئے فواد چودھری وضاحتوں بھری پریس کانفرنس یا ٹویٹ کر دیتے ہیں پھر بھی کوئی نہ سمجھنا چاہے تو یہ اس کی بدقسمتی ہے۔ مگر کسی بھی صورت ان یوٹرنز کا جھوٹ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا کونکہ خان صاحب نے کل جو کہا وہ بھی سچ تھا اور جو وہ آج کہ رہے ہیں وہ بھی سچ ہے چاہی کوئی مانے یا نہ مانے۔

خان صاحب کی حکومت کے 100 روزہ کارناموں کی فہرست تو اتنی لمبی ہے کہ ایک تحریر میں ان کا احاطہ کر پانا ناممکن ہے۔ یہاں تو بس میں نے ناقدین کی آنکھیں کھولنے کی کوشش میں چند ایک کارناموں کا ذکر کیا ہے ورنہ تو ہمارا وزیر اعظم ہی اتنا ہینڈ سم ہے کہ صرف اس کی خوبصورتی پر لکھنے بیٹھ جایئں تو 100 دن کی کارکردگی کو چار چاند لگ جایئں۔ امید ہے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد ناقدین ہوش کے ناخن لیں گے اور خان صاحب کے حامیوں کے ساتھ مل کر ہر جگہ خان صاحب کا دفاع کریں گے اور آنکھیں بند کر کے بھرپور طریقے سے خان صاحب کا بھی ساتھ دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).