گالی سے شدید نفرت کرنے والا مسلح شخص اور مجسم گالی جوان عورت


سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں ایک جوان عورت دکھائی دے رہی ہے۔ وہ ہاتھ جوڑے کھڑی معافی مانگ رہی ہے۔ حلیے اور زبان سے کسی اچھے مگر معاشی طور پر لوئر مڈل کلاس طبقے کی لگتی ہے۔ سامنے ایک داڑھی والا جوان موجود ہے جس نے ہاتھ میں پستول تھامی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ کم از کم ایک دوسرا شخص ہے جو اس پورے واقعے کی ویڈیو بنا رہا ہے۔ آوازوں سے لگ رہا ہے کہ ایک سے زیادہ ہیں۔

پستول والا شخص کہہ رہا ہے ”تو کیوں ماں بن رہی تھی۔ “ دوسرا شخص کہہ رہا ہے کہ ”گالیاں نہیں دینی چاہیے تھیں۔ غلط ہے نا، آپ لوگوں نے گالیاں نہیں دینی چاہیے تھیں“۔ عورت کہتی ہے ”میں نے آپ کو کوئی گالی نہیں دی“۔

پستول والا کہتا ہے کہ ”پیروں میں بیٹھ کر معافی مانگ۔ معافی مانگ تو کل میں نے۔ ۔ ۔ “
عورت گھٹنوں کے بل ہاتھ جوڑے نیچے اس کے قدموں بٹھتی ہے اور بھرائی ہوئی آواز میں کہتی ہے ”میں نے تمہیں گالی نہیں دی تھی“۔

یہ سن کر پستول والا غصے میں آ جاتا ہے۔ اسے گالیوں سے شدید نفرت ہے۔ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ کوئی دوسرا گالی دے، خاص طور پر اگر ملزم کوئی ایسی اکیلی نوجوان عورت ہو جو اس کی پستول کی نال کے آگے بے بس ہو۔ وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ پستول کو نال کی طرف سے پکڑتا ہے۔ ننگی گالیاں دیتے ہوئے پوری قوت سے عورت کے پیٹ میں پستول کا دستہ دے مارتا ہے۔ وہ چیخ مار کر دوہری ہو کر گر جاتی ہے اور پستول والا ننگی گالیاں دینے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے۔

نہ جانے یہ شخص کون ہے۔ واقعہ کہاں کا ہے۔ کتنا پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ کل کا ہو ممکن ہے کہ تین برس پرانا ہو۔ صحیح یا غلط مگر سوشل میڈیا پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ راولپنڈی کے کوئی وکیل صاحب ہیں۔ پتہ نہیں وہ ہیں یا وکیل سے مشابہ کوئی بدمعاش۔

سچی بات تو ہے کہ ان وکیل صاحب کا فیس بک پروفائل دیکھ کر ہمیں تو ویسے بھی یقین نہیں آتا کہ اتنا نیک شخص اس اکیلی عورت پر اس طرح تشدد کر سکتا ہے اور اسے اس طرح ننگی ننگی گالیاں دے سکتا ہے۔ اس شخص کی فیس بک وال پر سب سے اوپر والی پوسٹ پر سورت الفاتحہ لگی ہوئی ہے۔ نیچے ایک ایمان افروز ویڈیو بھی ہے جس میں انڈونیشیا میں شدید زلزلے میں لوگ مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں۔ یہ صاحب انسانیت کا بہت درد بھی رکھتے ہیں۔ ایک تصویر میں ایک فاقہ زدہ افریقی بچہ ہے اور نیچے کسی خوشحال ملک کی دو خواتین جو اپنے اپنے کتوں کو لپٹا رہی ہیں اور پوسٹ میں ان بے حس خواتین پر خوب لعن طعن کی گئی ہے۔

وال مذہبی مواد سے بھری ہوئی ہے۔ کہیں آیات مبارکہ جگمگا رہی ہیں تو کہیں مولانا طارق جمیل کی اچھی اچھی باتیں۔ پروفائل کے مطابق نہ صرف یہ صاحب راولپنڈی بار میں کام کرتے رہے ہیں بلکہ فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پڑھ چکے ہیں۔ بس ایک ہی چیز منفی ہے کہ بظاہر پاکستان آرمی کو ملک میں غربت کی وجہ قرار دیتے ہیں۔ کسی وجہ سے آرمی کے خلاف ہیں۔ لیکن مجاہد ختم نبوت ہیں۔ اس سلسلے میں اپنی پروفائل پکچر بھی لگا چکے ہیں۔ غرض کہ نہایت ہی نیک ہیں۔ بھلا یہ ان مردوں میں سے کیسے ہو سکتے ہیں جن کے لئے جوان عورت ہوتی ہی مجسم گالی ہے؟

اب کیا آپ مانیں گے کہ ایسے شخص کو یہ علم نہ ہو کہ اسلام نے عورتوں کو جتنے حقوق دیے ہیں اتنے کسی دوسرے مذہب نے نہیں دیے۔ عورت کی عزت کرنے کا حکم ہے۔ اسے گھر سے باہر جا کر کوئی کام کاج کرنے کی ضرورت نہیں تاکہ وہ گھر میں برے مردوں سے محفوظ رہے۔ لیکن چند برے مرد گھر میں ہی گھس آئیں تو عورت کیا کرے؟

اب جس برے مرد نے ایک اکیلی عورت کے گھر میں گھس کر اس پر اتنا ظلم کیا، وہ راولپنڈی کا یہ وکیل کیسے ہو سکتا ہے؟ وال دیکھ کر تو یہی گمان ہوتا ہے یہ صاحب خدانخواستہ کبھی پستول کے زور پر کسی گھر میں زبردستی گھسے بھی تو اچھی باتوں کی تلقین کرنے کے لئے ہی گھسیں گے، ننگی گالیاں دینے کے لئے نہیں۔ ٹھیک ہے کہ یہ صاحب بظاہر وکیل ہیں، اور اب ”وکلا گردی“ کی اصطلاح مشہور ہو چکی ہے، مگر وہ سب تو سڑکوں اور کچہریوں میں ظلم کے خلاف احتجاج کا حصہ ہے کہ کبھی انصاف کی راہ میں حائل ہونے والے کسی تھانیدار کو مار دیا تو کبھی کسی جج کو اور کبھی اپنے بچوں کو سکول سے لے جاتے ہوئے کسی شخص کو دو لگا دیں۔ بھلا کوئی قانون کا محافظ وکیل بھی کسی کے گھر میں گھس کر یہ سب کچھ کر سکتا ہے؟ اگر اس نے ایسا کچھ کیا ہوتا تو کیا وکیل ہی اسے اپنی بار سے باہر نہ پھینک دیتے؟

بہرحال جو بھی مجرم ہے، خواہ اس نے یہ جرم آج کیا ہے یا تین برس پہلے، اس کی تحقیق تو کی جائے۔ ویڈیو صرف چھبیس سیکنڈ کی ہے۔ ظلم کا صرف ایک مختصر سا حصہ ریکارڈ ہوا ہے۔ متاثرہ خاتون سے پوچھا تو جائے کہ اصل بات کیا ہے؟ اسے ٹیسٹ کیس بنا کر سزا دی جائے۔ لیکن دھڑکا سا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو مجرم سچ مچ کوئی مولوی یا وکیل نکل آئے۔ اس صورت میں نہ جانے قانون اسے پکڑ پائے گا یا وہ قانون کو پکڑ لے گا۔

اسی بارے میں
راولپنڈی میں لڑکی پر تشدد کی ویڈیو وائرل، پولیس کا ملزم کے گھر پر چھاپہ

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments