اقبال، سقوطِ ڈھاکہ اور فیض!


علامہ اقبال کی شاعری بچپن سے پسند تھی۔ جب ہم اسکول میں تقریری مقابلوں میں علامہ کے اشعار کی ادائیگی زور ِ بیان سے کرتے
یارب دل مسلم کو زندہ تمنا دے
جو روح کو تڑپا دے جو قلب کو گرما دے

جوشِ خطابت سے چہرہ تمتما اٹھتا اور واقعی ننھا سا دل اسلام کی محبت سے گرمسا جاتا۔ جیسے جیسے بڑے ہوئے بیت بازی کے لیے علامہ اشعار رٹتے گئے یہ سمجھیں علامہ سے محبت دل ودماغ میں کوٹ کوٹ کر بھر گئی، علامہ کا خواب پاکستان کی صورت میں ملنے پر ہم سب کو بتاتے کہ اس ملک کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائدِ اعظم نے تعبیر دی، اپنے آپ کو اقبال کا وہ شاہین سمجھنے لگے جو چٹانوں میں بسیرا کرتا ہے اور خودی کاس تو یہ عالم ہوا کہ کسی سے سامنے کی چیز مانگنے میں جھجھک ہونے لگی، ہم سراپا اس شعر کی تفسیر بن گئے،
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
ان اشعار نے ایک اسکول جانے والی بچی کے دل ودماغ پر قبضہ کر لیا تھا۔

پھر ایک دن وہ واقعہ ہوگیا جو ایک اسکول جانے والی بچی کے دل ودماغ سے چمٹ گیا دسمبر کا مہینہ شروع ہوا، سردی میں صبح اٹھ کر اسکول جانا تنگ کرتا، اچانک پاک بھارت جنگ مغربی سرحد پر بھی شروع ہوگئی، اسکول بند ہوگئے، بلیک آؤٹ، سائرن بجتے ہی امی اور دادا ہم بچوں کو سیڑھی کے نیچے لے جاکر بٹھا دیتے زیادہ تر فضائی حملے رات میں ہوتے، خوف زدہ دن بھیانک راتیں، خبریں محدود، ان حالات مین سولہ دسمبر کا سیاہ دن طلوع ہوا جو پاکستان کو دو لخت کر گیا، گھر کے سب بڑے آبدیدہ تھے ایک لفظ سقوطِ ڈھاکہ گفتگو میں بار بار دہرایا جارہا تھا آخر ہم نے بھی ہمت کرکے ڈیڈی جان سے پوچھ لیا یہ سقوطِ ڈھاکہ کیا ہے؟ انھوں نے ہماری سمجھ کے مطابق ہمیں سمجھایا کہ مشرقی پاکستان اب پاکستان نہیں رہا اب بنگلہ دیش بن گیا ہے، اب ڈھاکہ مسجدوں کا شہر ہمارا نہیں رہا۔

ہم اپنی سمجھ کے مطابق سوچنے لگے کہ پاکستان تو پٹسن کی پیداوار میں پہلے نمبر پر تھا اب ہم معاشرتی علوم میں کیا لکھیں گے، دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک بھی نہ رہا۔ اس واقعہ نے علامہ اقبال کا خواب چکنا چور کردیا، خواب سے پیدا ہوئی تھی جو حقیقت خواب ہو کر رہ گئی۔ علامہ اقبال سے محبت دولخت ہوگئی، ہم نے کتابوں میں تاریخ بدلتے دیکھی، جغرافیہ ہی بدل گیا، ہر جگہ جہاں مشرقی پاکستان لکھا ہوتا بنگلہ دیش ہوگیا، مغربی پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کہا جانے لگا، بچپن کی یادفیں اتنی تکلیف دہ ہوتی ہیں کہ اب تک وہ زخم ہرے ہیں کس طرح مشرقی پاکستان سے لکوگ لٹ پٹ کر آئے، اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف جانیں بچا کر، ہماری کلاس میں بھی دو لڑکیاں شہناز آرا، بلقیس آرا، ہم ان سے کرید کرید کر پوچھتے کہ سقوط ڈھاکہ کیسے ہوا اور وہ بڑی بڑی آنکھوں سے ہمیں تکتی رہتیں۔ مشیر کاظمی کی نظم کا بند شاید کچھ سمجھا سکے،

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا
بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں
قبر اقبال سے آرہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں
شہر ماتم تھا اقبال کا مقبرہ
تھے عدم کے مسافر بھی آئے ہوئے
خون میں لت پت کھڑے تھے لیاقت علی
روح قائد بھی سر کو جھکائے ہوئے
کہہ رہے تھے سبھی کیا غضب ہوگیا
یہ تصور تو ہرگز ہمارا نہیں

پاکستان بنے چوبیس سال ہوئے تھے اور ہم پاکستان کی حفاظت نہ کرسکے، ہر شعبے میں ایک انقلاب آگیا، سقوط ِ ڈھاکہ سے ہر شعبہ متاثر ہوا، سیاسی معاملات کچھ بھی رہے ہوں لیکن سولہ دسمبر کا دن ہماری یاد سے مٹ نہ سکا، آج بھی دسمبر کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو دماغ میں وہی فلم گھومنے لگتی ہے، پانچ منٹ کی فلم انگریزی خبروں میں دکھانے لکے بعد بین ہوگئی ہتھیار ڈالنے کی، ہزاروں پاکستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کی فلم، نوے ہزار جنگی قیدیوں کی ریکارڈ تعداد بھی پاکستان کے حصے میں آئی۔ بہت کتابیں لکھی گئیں، بہت تاویلیں بھی پیش کی گئیں۔ بہت کچھ گزر گیا پاکستان پر اب تو پاکستان کو بنے اکہتر سال ہوگئے لیکن ہم 1971 ء کو نہ بھول سکے، کہیں ایک خلش ایک کسک باقی ہے۔

وہ نسلیں جو بعد میں پیدا ہوئیں جب پوچھتیں ہیں کیا واقعی بنگلہ دیش کبھی پاکستان تھا تو ہم مسکرا کر رہ جاتے ہیں۔ کیا جواب دیں، اب تو دہشت گردی کی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان دنیا کے لیے ہاٹ آلو بن چکا ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے ملک کا سوچنا چاہیے۔ سقوط ڈھاکہ کے 47 سال بعد بھی ہم اپنی سمت طے نہیں کرسکے کہ کرنا کیا ہے۔ اللہ پاکستان پر رحم کرے اور حکمرانوں کو عقل ِ سلیم دے۔ اب ہمیں کوئی دوسرا سقوط نہیں دیکھنا ہے اس لیے کمزور کو اور نہ دباؤ انھیں بھی پورا حق دو، ہر پاکستانی کو پاکستانی سمجھو چاہے وہ گلگت کا ہو، بلوچستان کا ہو، کراچی کا ہو، بدین کا ہو، ڈیرہ کا ہو، وسیب کا ہو یا اسلام آباد کا ہو سب پاکستانی ہیں۔ اب بھی فیض کی وہ غزل دل میں نشتر کی طرح چبھتی ہے جو ڈھاکہ سے واپسی پہ لکھی تھی

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).