ٹوٹی ہوئی دیوار” سے “کھوئے ہوئے صفحات” تک”


کھوئے ہوئے صفحات ڈاکٹر بلند اقبال کی تازہ ترین تخلیق ہے۔ یہ ایک شہکار ناول ہے، جو ایک جرمن عورت کی کہانی بیان کرتا ہے، جو نازی جرمنی کے مظالم کا شکار ہو کر پاکستان میں پناہ گزین ہونے پر مجبور ہوتی ہے۔ لیکن یہ صرف ایک عورت کی آپ بیتی ہی نہیں ہے، بلکہ ایک پورے زمانے کی کہانی ہے، جس میں کروڑوں لوگ رنگ، نسل، عقیدے اور دیگر تعصبات کا شکار ہوئے۔ یہ کہانی آج بھی جاری ہے۔ ہمارے ارد گرد آج بھی ان ہی تعصبات کی بنیاد پر اسی طرح کے ظلم تشدد اور نا انصافی کا شکار ہو رہے ہیں۔

کئی رنگ کے نام پر ، کئی نسل کے نام پر ، کئی عقیدے کے نام پر انسان انسان کا خون بہا رہا ہے۔ ان چیزوں کو لے کر انسان ایک قسم کے جنون کی کیفیت میں مبتلا ہے، جس میں کمی کے بجائے آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ دردناک کہانی ڈاکٹر بلند اقبال نے ایک ایسے وقت میں تخلیق کی جب وہ خود درد دل کا شکار ہو کر صاحب فراش تھے۔ ڈاکٹروں نے جو وقت انہیں دل کے عارضے کی وجہ سے آرام کرنے کے لیے دیا تھا، وہ انہوں نے اس عظیم تخلیق پر صرف کر دیا۔

وقت کی اس قلت کے باوجود اس طرح کے تخلیقی کاموں کے لیے صرف وہی شخص وقت نکال سکتا ہے، جس کے اندر تخلیق کا بے پناہ جذبہ موجزن ہو۔ چند برس قبل بلند اقبال نے ٹوٹی ہوئی دیواریں لکھا تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا کہ ”ڈاکٹر بلند اقبال کو اگر غیر معمولی آدمی لکھا جائے تو یہ اس لفظ کا بالکل بجا اور درست استعمال ہو گا۔ یہ شخص توانائی اور دانش کا جیتا جاگتا شہکار ہے۔ کینیڈا میں طب جیسے وقت اور محنت طلب پیشے سے منسلک ہونے کے باوجود ادب و فلسفے کے لیے وقت نکالنا کیسے ممکن ہے؟

اس بات کا اندازہ ان لوگوں کو ہے جو مغرب میں اس پیشے کے تقاضوں سے آگاہ ہیں۔ ڈاکٹر بلند اقبال ایک میڈیکل سپیشلسٹ کی حیثیت سے کینیڈا کے مقامی ہسپتالوں سے کل وقتی طور پر منسلک ہونے کے باوجود ادب اور فلسفے کے ساتھ بھی کل وقتی طور پر منسلک ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ ان کے افسانوں کے تین مجموعے آ چکے ہیں۔ افسانوں پر انہوں نے نئے تجربات کیے ہیں۔ ان کے بعض افسانے مختصر نویسی کا عظیم شہکار ہیں۔

بعض نقادوں کا خیال ہے کہ ڈاکٹر بلند اقبال نے وقت کی کمی کے باعث افسانے کی نئی ہیت ایجاد کی ہے۔ اور ظاہر ہے اس سے ان لوگوں کو تکلیف پہنچی جو ادب اور اس کی مختلف صنف پر اجاراداریوں کے قائل ہیں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ بلند اقبال کا ایک نیا اور کامیاب تجربہ ہے، جو ہمارے دور کے تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ ہے۔ افسانے کی حد تک مختصر نویسی تو ٹھیک تھی، مگر ایک دن جب ڈاکٹر اقبال نے مجھ سے یہ کہا کہ میں ناول لکھ رہا ہوں تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔

میرا پہلا سوال ہی یہی تھا کہ اتنا وقت کہاں سے نکالیں گے تو انہوں نے کہا کہ راتوں کو جاگ جاگ کر لکھتا ہوں۔ میرا خیال تھا کہ ڈاکٹرصاحب کو اپنا ناول مکمل کرنے میں کئی سال لگیں گے۔ مگر انہوں نے چند ماہ کے اندر نا صرف ناول مکمل کر لیا بلکہ“ ٹوٹی ہوئی دیوار ”کے نام سے اس کی ایک دیدہ زیب کاپی میرے ہاتھ میں تھما دی۔ یہ ناول لکھتے وقت بھی بلند اقبال نے اپنی مختصر نویسی کا فن استعمال کیا۔ دریا کو کوزے میں بند کرنے کے مصداق انہوں نے ایک مکمل ناول ایک سو چھتر صفحات میں انتہائی مہارت سے سمو دیا۔

بلند اقبال نے اپنے افسانے کی طرح اس ناول میں بھی نئے تکنیکی تجربات کیے ہیں، جو ہمارے اس مصروف دور میں نئے لکھنے والوں کے لیے رہنمائی فراہم کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے ناول میں جن موضوعات پر بحث کی ہے وہ آج کے دور میں پوری اسلامی دنیا کے سب سے اہم ترین اور سنگین مسائل ہیں۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ مذہبی شدت پسندی، فرقہ واریت اور نفرت ہے۔ اس خشک بلکہ دورانے موضوع کو انہوں نے اپنے کرداروں کے ذریعے ایک دلچسپ کہانی میں بدل دیا، جو قاری کو شروع میں ہی پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، اور کتاب کو ایک ہی نشست میں پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

ناول کے کردار پیچیدہ فلسفیانہ مباحث کو بہت ہی سادہ اور عام فہم زبان میں بیان کرتے ہیں، جو بلند اقبال کی مکالمہ نگاری پر گرفت کا اظہار ہے۔ یہی بات منظر نگاری کے فن پر بھی صادق اتی ہے، قاری کو ایسا لگتا ہے، جیسے وہ خود وہاں کھڑا سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ ناول مذہبی دہشت پسندی اور فرقہ وارانہ نفرت کی مختلف پرتوں کو ایک ایک کر کہ کھولتا چلا جاتا ہے۔ اس کے اسباب سے بھی پردہ اٹھاتا ہے اور نتائج بھی دکھاتا ہے۔

ٹوٹی ہوئی دیوار میں جو مناظر دکھائے گئے وہ پاکستان کے ہر شہر میں بلکہ ہر گلی محلے میں رونما ہوئے۔ ان مناظر میں نظر آتا ہے کہ کس طرح دیکھتے ہی لوگ، خدا، رسول اور فرقہ وارانہ عقائد کے نام پر جنون اور دشمنی کے راستے پر چل نکلے۔ کس طرح مذہب کے نام پر خود مسلمانوں نے ایک دوسرے کا لہو بہا۔ صدیوں سے ایک ہی شہر ایک ہی محلے میں رہنے والے لوگ اچانک ایک دوسرے کے لیے اجنبی اور دشمن بن گئے۔ یہ جنون کسی وائرس، کسی وبا کی طرح پھیلتا چلا گیا۔

یہ ایک وسیع اور خوفناک منظر ہے، جو بلند اقبال نے بڑی چابک دستی سے ناول میں سمو دیا۔ افغانستان کس جبر کا شکار ہوا۔ اہل کابل کس کرب سے گزرے۔ افغانستان کس طرح دو عالمی نظاموں کے درمیان جنگ کا اکھاڑا بن گیا۔ یہاں کس طرح عالمی طاقتوں نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ شدت پسندی کس طرح دیکھتے ہی دیکھتے پورے سماج پر چھا گئی۔ سماج میں کس طرح روشن خیالی اور رجعت پسندی کے درمیان تضاد اور پھر باقاعدہ لڑائی شروع ہوئی۔

یہ لڑائی کس طرح سکولوں اور یونیورسٹیوں سے ہوتی ہوئی سڑکوں تک پھیل گئی۔ ڈاکٹر اقبال نے کتاب میں مذہب، عقیدے، اخلاقیات اور رسم رواج کے حوالے سے کئی سنجیدہ سوال اٹھائے، اور ان کے مدلل جواب فراہم کیے۔ ناول میں حالات کی ایک خوفناک تصویر پیش کرنے کے بعد ایک رجائیت پسند آدمی کی طرح ایک اچھے مستقبل کی نوید بھی دی۔ یہ مستقبل ان کے خیال میں تعصبات سے آزاد ہو کر انسانیت کو اپنانے سے جڑا ہے۔ ان کے خیال میں ارتقا ایک حقیقت ہے۔

انسان جو چاہے کر لے وہ ارتقا کو نہیں روک سکتا۔ اور ارتقا کے ذریعے اسے اخر کار ایک دن مہذب ہونا ہی ہے۔ ڈاکٹر بلند اقبال ایک سائنٹیفک آدمی ہیں۔ وہ ارتقا کے سیدھے سادے نظریے پر یقین رکھتے ہیں۔ مگر جو کچھ افغانستان اور پاکستان میں گزشتہ نصف صدی سے ہو رہا ہے، یہ اگر کوئی ارتقا ہے تو بالکل الٹی سمت میں ہو رہا ہے۔ بہرحال یہ ناول پڑھنے کے قابل ہے اور ترقی پسند ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے“ یہ ناول ترقی پسند اور روشن خیال حلقوں میں پسند کیا گیا۔

اب بلند اقبال کی نئی تخلیق بھی انسانی تعصبات اور نفرتوں کی جگہ محبت اور انسانیت کا پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ ناول جدید اردو ادب میں ایک اچھا اضافہ ہے۔ کھوئے ہوئے صفحات ایک اعلی ادبی کاوش اور انسانی نفسیات پر ایک عمدہ تحریر ہے۔ ایک ایسی وقت میں جب قلم اور کاغذ کے ساتھ انسانی رشتے کمزور ہو رہے ہیں، ایسی تخلیقات کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر بلند اقبال نے یہ اہم ضرورت پوری کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments