تین بچے مر گئے، خدا پر بھروسہ رکھوں یا آئی وی ایف کراؤں


Ruba and Inara

روبہ اور ثاقب ایک ایسی جنیاتی بیماری میں مبتلا ہیں جو ناقابل علاج ہے یعنی ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کے چار میں سے ایک کا بچپن میں ہی مرنے کا امکان ہوتا ہے۔

یہ دونوں پہلے ہی اپنے تین بچے کھو چکے ہیں۔ روبہ چاہتی ہیں کہ وہ آئی وی ایف کا استعمال کریں اور ایک صحت مند جنین کا انتخاب کریں۔ لیکن ثاقب خدا پر بھروسہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے کچھ رشتہ دار چاہتے ہیں کہ دونوں میاں بیوی علیحدگی اختیار کر کے دوبار شادی کر لیں۔

روبہ بی بی کم عمری میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ وہ اے لیول کر کے یونیورسٹی جانے کی خواہش مند تھیں لیکن ابھی انھوں نے سکول کی تعلیم مکمل کی تھی کہ والدین نے پاکستان میں موجود ان کے کزن ثاقب سے ان کی شادی طے کر دی۔

بریڈفورڈ میں پیدا اور پھر پلنے بڑھنے والی روبہ شادی سے پہلے دو بار ہی پاکستان گئی تھیں۔ پہلی بار جب وہ چار برس کی تھی اور دوسری مرتبہ جب وہ بارہ سال کی تھیں۔

روبہ کو اچھی طرح یاد بھی نہیں وہ شخص جس سے ان کی منگنی ہو گئی تھی نہ ہی اس کے ساتھ روبہ نے اکیلے وقت گزارا تھا۔ اس کی عمر 27 برس تھی اور وہ ایک ڈرائیور تھا جبکہ روبہ اس وقت فقط 17 برس کی تھی۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے روبہ نے کہا ’میں بہت نروس تھی میں اسے واقعی بالکل نہیں جانتی تھی۔‘

’میں بہت شرمیلی تھی، میں بہت زیادہ بات نہیں کر سکتی تھی اور مجھے کبھی لڑکوں اور کسی چیز میں اس طرح دلچسپی نہیں رہی تھی۔ میں نے اپنی والدین کی منت کی کہ ابھی مجھے سکول ختم کرنے دیں اور سب کچھ آگے پر رکھ دیں لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔‘

Ruba and Saqib on their wedding day

روبہ اور ثاقب اپنی شادی کے روز

تین ماہ پاکستان میں گزارنے کے بعد وہ امید سے ہوئیں۔ وہ دو ماہ بعد بریڈ فورڈ لوٹ آئی تھی اتنی جلدی بچے کے بارے میں جان کر وہ حیران تو تھیں لیکن خوش بھی تھیں۔

جب سنہ 2007 میں ان کا بیٹا حسن پیدا ہوا روبہ نے پرجوش ہو کر اپنے شوہر ثاقب کو فون کیا اور بتایا کہ سب کچھ بالکل ٹھیک ہے اگرچہ بچہ بہت زیادہ سوتا تھا اور اسے دودھ پینے میں مشکل ہوتی تھی۔

روبہ نے سوچا یہ نارمل ہے۔

کچھ ہفتوں کے بعد وہ اپنے چیک اپ کے لیے ہسپتال گئیں اور جیسے ہی ڈاکٹر نے حسن کو دیکھا تو انھیں اس کے کولھے میں سختی محسوس ہوئی۔

روبہ کہتی ہیں کہ ’ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ وہ اسے دوسرے ڈاکٹر کے پاس بھجوا رہی ہیں لیکن میں نے سوچا یہ کوئی معمولی سا مسئلہ ہے۔ انھوں نے کچھ ٹیسٹ کیے۔ پھر مجھے بلایا گیا کہ بچوں کی وارڈ سے رزلٹ لے لوں۔‘

جب میں ڈاکٹر کے پاس گئی تو انھوں نے کہا کہ ایک بہت بری خبر ہے۔ انھوں نے مجھے کاغذ کا ایک ٹکڑا دیا اور بتایا کہ اس کی کیا حالت ہے اور یہ بہت کم کیسز میں ہوتا ہے۔ یہ میرے لیے بہت مشکل تھا میں صرف رو رہی تھی۔ میں گھر گئی اور پاکستان میں موجود اپنے شوہر کو کال کی۔ اس نے مجھے حوصلہ دینے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ ہر ایک مشکل سے گزرتا ہے اور ہم دونوں اس مشکل کا اکھٹے سامنا کریں گے۔‘

روبہ کو اندازہ نہیں تھا کہ انھیں اور ان کے کزن کو آئی سیل کا پرابلم ہے جس میں دونوں کے جینز ’ریسیسو‘ تھے۔ یہ ایک ایسا جنیاتی مسئلہ ہوتا ہے جس میں بچے کی نشوونما مکمل طور پر نہیں ہو سکتی۔

سات ماہ بعد ثاقب کو برطانیہ میں رہنے کا ویزہ ملا اور تب ہی اس نے پہلی بار اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں میں لیا۔

Saqib and Hassan

ثاقب اپنے بیٹے حسن کے ہمراہ

ثاقب کہتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل بچہ لگ رہا تھا۔

روبہ کہتی ہیں کہ وہ بیٹھ نہیں رہا تھا، نہ ہاتھ کے سہارے چلنے کی کوشش کرتا تھا لیکن میرے شوہر نے کہا کہ کچھ بچے آہستہ آستہ ایسا کرتے ہیں۔

لیکن روبہ کو اپنے بچے اور اس کی عمر کے دوسرے بچوں کے درمیان بہت فرق محسوس ہو رہا تھا۔ حسن بہت آہستہ بڑھ رھا تھا۔ اس عرصے میں روبہ اسے سینے میں انفیکشن کی وجہ سے کئی بار ہسپتال لے کر گئی تھی۔

جوں جوں وہ بڑا ہوا اس کا سر بھی بڑھنے لگا۔

جب سنہ 2010 میں ان کے ہاں بیٹی علیشبہ کی پیدائش ہوئی تو ٹیسٹ کے فوراً بعد یہ پتہ چلا کہ وہ بھی آئی سیل کی بیماری میں مبتلا ہے۔ وہ تین سال کی عمر میں وفات پا گئی تھی۔ یہ سنہ 2013 کی بات ہے اور اس وقت اس کا بھائی حسن بھی دنیا سے جا چکا تھا۔

Alishbah


تیسری بار حاملہ ہونے سے پہلے روبہ نے مفتی زبیر بٹ سے رابطہ کیا۔ وہ لیڈز ٹیچنگ ہسپتال میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ روبہ نے ان سے پوچھا کہ مذہب حمل کے دوران سکریننگ کے بارے میں کیا کہتا ہے اور اگر آئی سیل کا مسئلہ واضح ہو جائے تو حمل ختم کرنے کے لیے کیا کہتا ہے۔

مفتی صاحب نے روبہ کو کہا کہ یہ جائز اقدام ہوگا لیکن ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی کہ وہ اس بارے میں بہت احتیاط سے سوچیں۔

لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ روبہ کو ایسا اس لیے نہیں کرنا چاہیے کہ اسے یہ کرنے کے لیے گرین سگنکل مل گیا یعنی اجازت مل گئی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کے ساتھ اسے ساری عمر گزارنی ہے۔

مفتی نے انھیں یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ اپنی کمیونٹی میں رہنے والوں سے بھی رائے لیں۔ ان میں سے بہت سے حمل ختم کرنے کے مخالف ہو سکتے تھے۔ ذاتی طور پر اس سے نمٹنا ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔


بریڈ فورڈ میں پیدائش

  • روبہ اور ان کا پہلا بچہ حسن بریڈ فورڈ میں ان 14000 خاندانوں پر کیے جانے والے مطالعے کا حصہ تھے جس میں 46 فیصد پاکستانی شامل تھے۔
  • اس شہر میں بچوں کی اموات کی شرح ملکی سطح پر موجود شرح سے دوگنی تھی اور اس کی وجہ معلوم کرنا ہی اس تحقیق کی وجہ تھی۔
  • ڈاکٹروں نے اس قسم کے 200 غیر معمولی قسم کی صورتحال کی شناخت کی اور اب اس پر کام کیا جا رہا ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ماں کی سکریننگ اور ماں باپ بننے والے جوڑوں کی معاونت کی جائے۔

روبہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا حمل ختم نہیں کرے گی۔

اپنی تیسری بچی انارا کی پیدائش سے پہلے انھوں نے طبی معائنے کرانے سے انکار کر دیا۔ یہ سنہ 2015 کی بات ہے۔ ڈاکٹروں نے انھیں بار بار کہا کہ وہ سکریننگ یعنی اندرونی معائنہ کروائے لیکن انھوں نے انکار کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ میں چاہتی تھی کہ اسے ایک نارمل حمل کی طرح لیا جائے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میرے ذہن میں کوئی شک ڈالیں۔ میں حمل گروانا نہیں چاہتی تھی اس لیے کہ میں اپنے ماں بننے کے عمل سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔‘

روبہ نے بتایا کہ میں اپنے شوہر سے کہتی تھی کہ یہ ممکن ہے کہ یہ بچہ بھی بیمار ہو لیکن وہ کہتے تھے وہ ٹھیک ہے۔ میرا خیال ہے کہ مجھے بہت زیادہ شک تھا۔ میں جانتی تھی کہ یہ ویسی ہی مشکلات ہیں جیسے پہلے دو کی بار تھیں۔‘

Saqib and Inara

انارا اپنی پیدائش کے بعد دو ہفتے تک ہسپتال میں رہیں ان کا وزن تین پاؤنڈ تھا

لیکن پھر انارا کی پیدائش بھی آئی سیل جیسے نقص کے ساتھ ہی ہوئی۔

میں واقعی بہت خوش تھی کہ میرا بچہ ہے لیکن جب ہم نے اسے دیکھا تو ہم جانتے تھے کہ وہ کیا ہے۔‘

انارا ایک سال قبل اپنی دو سال کی عمر میں وفات پا گئی تھی۔ وہ سینے کے انفیکشن میں گذشتہ دسمبر مبتلا ہوئیں اور پھر تیزی سے اس کی صحت گرتی چلی گئی۔ اسے بریڈ فورڈ سے یارک منتقل کیا گیا۔

یارک میں ڈاکٹروں نے اسے زندہ رکھنے کے لیے سر توڑ کوششیں کیں۔

روبہ کہتی ہیں کہ نہیں معلوم کہ کیسے تین بچوں کو کھونے اور چھ بار حمل ضائع ہونے کی تکلیف برداشت کی۔

انھوں نے بتایا کہ انارا کی وفات کے کچھ ہی ہفتوں بعد مجھے پتہ چلا میں پھر امید سے ہوں۔

’مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میں امید سے ہوں اور پھر انارا کی تدفین کے بعد مسِ کیرج ہوا۔‘

Ruba and Inara


وہ کہتی ہیں کہ انارا کی موت کے بعد انھوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ کزن میرج اور بچوں کی بدنصیبی کا کیا تعلق ہے۔

ایک لمبے عرصے تک وہ اس پر یقین ہی نہیں رکھتی تھی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ہسپتال میں بیمار اور اپاہنچ بچوں کو دیکھا تھا اور وہ سب کزن میرج کی وجہ سے ایسے نہیں تھے۔ کچھ ان میں سے سفید فام کمیونٹی سے بھی تھے۔

روبہ نے بتایا کہ ان کے شوہر اب بھی اس پر یقین نہیں رکھتے۔

’میں اس پر اب یقین رکھتی ہوں کیونکہ یہ تین بار ہو چکا ہے۔ اس لیے کچھ ضرور ہوگا جس کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں اور وہ درست ہو گا۔‘


کزن میرج

  • سنہ 2013 میں محققین نے کزن میرج کے حوالے سے لینسٹ میں کی جانے والی تحقیق شائع کی۔ اس میں یہ سامنے آیا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والی 63 فیصد مائیں ایسی تھیں جن کی شادی اپنے کزنز سے ہوئی اور ان میں ذہنی طور پر پسماندہ بچوں کی پیدائش کا دگنا امکان تھا۔
  • پیدا ہونے والے بچے کے دل یا نروس سسٹم میں کوئی مسئلہ ہونا پاکستان میں عام طور پر تین فیصد ہے لیکن یہ امکان چھ فیصد تک بڑھ جاتا ہے جب خونی رشتوں کے مابین شادی ہو۔
  • بریڈ فورڈ میں موجود خاندان اب بھی اپنے بچوں کے لیے پیچھے موجود خاندان سے دولہا، دلہن کی تلاش میں ہیں۔ تحقیق کے مطابق چار میں سے ایک بچہ ایسی ہی شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہو رہا ہے۔

انارا کی موت کے بعد روبہ اور ثاقب کے پاکستان اور برطانیہ میں موجود رشتہ داروں نے کہا کہ ان کے ہاں صحت مند بچے کی پیدائش نہیں ہو سکتی اس لیے اس شادی کو بخوشی ختم کر دینا چاہیے۔ اس سے یہ ہو گا کہ دونوں روبہ اور ثاقب دوسری شادی کر سکیں گے اور کسی اور سے ان کے ہاں ایک صحت مند بچے کی پیدائش ہو سکتی ہے۔

روبہ کہتی ہیں کہ ہم دونوں نے انکار کر دیا۔

میرے شوہر نے کہا ’اگر خدا نے مجھے اولاد دینی ہے تو وہ تم سے بھی دے سکتا ہے۔ اس نے مجھے تم سے بچے دیے ہیں وہ مجھے تم سے ہی صحت مند اولاد بھی دے سکتا ہے۔ اگر اس نے یہ لکھ رکھا ہے۔ تو تمھارے لیے لکھا ہے۔ نہ میں دوبارہ شادی کروں گا اور نہ ہی تم دوبارہ شادی کر سکتی ہو۔ ہم دونوں دوبارہ اکھٹے کوشش کریں گے۔‘

اگرچہ سنہ 2007 میں روبہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اب شادی شدہ زندگی کے 10 سال بعد وہ علیحدگی نہیں چاہتی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32193 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp