مندر کے راستے پارلیمنٹ پہنچنا آسان نہیں


آیندہ ہفتے انڈیا کی تین شمالی ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں حزب اختلاف کانگریس کی باضابطہ طور پر حکومت قائم ہو جائے گی۔ ان تینوں ریاستوں میں کانگریس نےانتہائی طاقتور بی جے پی کو شکست دی ہے۔

بی جے پی ایک ’کیڈر بیسڈ‘ پارٹی ہے۔ اس کے جو نظریاتی حامی ہیں وہ پوری طرح پارٹی سے وابستہ ہوتے ہیں۔ بی جے پی کی اصل طاقت اس سے منسلک ہندو نظریاتی تنظیموں میں پنہاں ہے۔

آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، بن واسی کلیان سمیتی اور کئی دیگر چھوٹی بڑی تنظیموں کا پورے ملک میں جال پھیلا ہوا ہے۔ ان تنظیموں کی الگ الگ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ان کے کارکن شہروں، قصبوں اور چھوٹے چھوٹے گاؤں میں گھر گھر جا کر لوگوں سے رابطہ قائم کرتے ہیں اور اپنے نظریے کی تشہیر کرتے ہیں۔

کانگریس جب اقتدار میں تھی تو یہ واحد جماعت تھی جو پورے ملک میں موجود تھی۔ اس کا دیہی، شہری، ضلعی اور ریاستی سطح پر ایک باضابصہ تنظیمی ڈھانچہ ہوا کرتا تھا اور لاکھوں اس کے رکن ہوا کرتے تھے۔ پارٹی کے اقتدار سے ہٹنے، بالخصوص شمالی ریاستوں ں میں ایک طویل عرصے سے اقتدار میں نہ آنے سے اس کا تنظیمی ڈھانچہ پوری طرح ڈھے گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

رام مندر: مودی کے سیاسی ترکش کا آخری تیر

اب تو رام مندر بنا دیجیے ورنہ۔۔۔

’مودی حکومت مذہب کو صرف سیاست کے لیے استعمال کرتی ہے‘

ایودھیا میں انتہا پسند ہندوؤں کا بڑا ہجوم منتشر

کانگریس سیاسی اعتبار سے سب سے اہم اور بڑی ریاست اتر پردیش میں تقریباً تین عشرے سے اقتدار میں نہیں آئی ہے۔ جن تین شمالی ریاستوں میں اس نے فتح حاصل کی ہے ان میں مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں وہ پندرہ برس سے اقتدار سے باہر تھی۔ گجرات میں وہ تقریـبآ بیس برس سے ہارتی آئی ہے۔

مودی اور امت شاہ

مسلسل ناکامیوں اور اقتدار سے باہر رہنے کے سبب بارٹی کا بنیادی ڈھانچہ دھیرے دھیرے ٹوٹنے لگا تھا۔ دوسری جانب مذہبی قوم پرستی کے نظریے کے ساتھ بی جے پی قومی سطح پراس کی جگہ لے چکی تھی۔ اس پس منظر میں شمال کی تین ریاستوں میں کانگریس کی جیت غیر معولی اہمیت کی حامل ہے۔ بی جے پی ان ریاستوں میں اپنی شکست سے سکتے میں ہے۔

آیندہ چند مہینوں میں ملک میں پارلیمانی انتخاب ہونے والے ہیں۔ شمالی ریاستوں میں کانگریس کی جیت سے ملک کی بدلتی ہوئی سیاسی فضا کا پتہ چلتا ہے۔ ابھی چند ہفتے قبل تک ایسا لگتا تھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو دوسری مدت کے لیے کوئی نہیں روک سکے گا۔

لیکن اب پہلی بار اچانک کانگریس ایک بڑے انتخابی چیلنج کی شکل میں نظر آنے لگی ہے۔ پارلیمانی انتخابات اب اتنے آسان نظر نہيں آرہے ہیں جو ابھی کچھ عرصے پہلے تک لگتے تھے۔

گذشتہ پارلیمانی انتخابات میں انا ہزارے اور بابا رام دیو سے لے کر آر ایس ایس اوردرجنوں ہندو تنطیموں نے بی جے کو اقتدار میں لانے کے لیے پوری طاقت لگا دی تھی۔

راہل گاندھی

ہندتوا کی تنظیموں کو یہ امید تھی کہ مودی حکومت اپنے وعدے کے مطابق اقتدار میں آنے کے بعد ایودھیا میں متنازع مقام پر رام مندر کی تعمیر کرائے گی۔ حکومت یہ کر نہیں سکی۔ کسانوں اور نوجوان بے روزگاروں کے ساتھ ساتھ ہندوتوا کے یہ کارکن بھی مودی حکومت سے مایوس ہو رہے ہیں۔

ہندوتوا کی تنظیمیں ہی بی جے پی کی جیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کیڈر میں نئی روح پھونکنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو رام مندر کی تعمیر کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔

مبصرین یہ توقع کر رہے ہیں کہ انتخاب سے پہلے مودی تباہ حال کسانوں کے لیے ملک گیر سطح پر کوئی بڑا اعلان کر سکتے ہیں۔ لیکن انھیں ہندوتوا کے رضاکاروں کو انتخابات میں متحرک کرنے کے لیے مندر کا پرانا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

مندر کے راستے سے اگر وہ بھٹکتے ہیں تو وہ اپنے سب سے قریبی حامیوں کا اعتماد کھوئیں گے۔ لیکن کیا مندر کا راستہ انھیں پارلیمنٹ تک لے جائے گا؟ اس کے بارے میں اب یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں کانگریس کی جیت نے مودی کی ‘دائمی مقبولیت’ اور ‘ناقابل تسخیر’ ہونے کے خود ساختہ دعوؤں کا پول کھول دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp