مولانا طارق جمیل صاحب، میں آپ کے خلاف مزاحمت کروں گا


پاکستان کی موجودہ مسلم اکثریت بنیادی طور پر ریاست کے اس کھوکھلے، نقلی اور جھوٹے بیانیہ کی پیداوار ہے جس کا اصولی سلسلہ جنرل ایوب نے شروع کیا اور اس کو آٹھویں آسمان تک جنرل ضیا لے کر گئے۔

1956 کے آئین نے عوامی جمہوریہ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ڈھالا، اور اصولی طور پر وہ بنیاد رکھی جس پر کھڑے ہو کر جنرل ایوب اور پھر جنرل ضیا نے پاکستان میں مذہب کے نام کی شدت والی جذباتیت والی اس پرتشدد ڈائن کے خونی پنجے آزاد کیے جنہوں نے حال ہی میں ایک لاکھ پاکستانیوں کے خون سے وضو کیا اور میرے وطن کو ایک ایسی کھائی میں جا دھکیلا کہ جہاں دنیا 22 کروڑ لوگوں کی اس اک ریاست کے تمام شہریوں کو دہشتگرد کے طور پر دیکھتی ہے۔

جنرل ضیا پر تو میرے پکے مسلمان پاکستانی دوست کچھ مان جاتے ہیں، مگر جنرل ایوب کے نام پر بالخصوص جماعت اسلامی والے کرمفرما، مولانا مودودیؒ کو سنائی گئی موت کی اک سزا کا حوالہ نکال لے آتے ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ جنرل موصوف تو اسلام پسند نہ تھے اور یہ کہ پاکستان میں مذہبی حلقوں نے مسلسل ان کے عذاب سہے۔ یہ عذاب سہے گئے، مگر جو عذاب اسلام پسندوں کے دوسری جانب ترقی پسندوں نے سہے، وہی یہ بتا دیتے ہیں کہ جنرل موصوف کس پر کتنے ”مہربان“ رہے اور قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر کے زیر اثر، ان کا مرکزِ نگاہ پاکستان کا کون سا قبیلہ رہا۔

اس بات کا بھی یقین کیجیے کہ پاکستان کی تاریخ سنہ 1997 سے شروع نہیں ہوتی جب مدینہ کی ریاست کے حالیہ والی نے اک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ پاکستان کی تاریخ 1947 سے شروع ہوتی ہے جس کے ایک سال اور 27 دنوں بعد فاطمہ جناح کراچی کی بدترین گرمی میں اک خراب ایمبیولنس کے اندر اپنے مرتے ہوئے بھائی کے چہرے سے مکھیاں اڑاتی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ میرے وطن کی تاریخ کے رستے میں شورش، بے یقینی، جھوٹ اور بالادست قوتوں کے جبر کے مسلسل سمندر میں ترقی اور سکون کے چند جزیرے ادھر اُدھر ملتے ہیں۔ اور بس۔

پاکستانی مسلمان بنیادی طور پر شناختی بحران کے مارے ہوئے ہیں، اور اپنی سیاسی، سماجی اور معاشرتی وجودیت کی دلیل مذہب میں تلاش کرنے کا رجحان رکھتے ہیں۔ جبکہ یہ خطہ مہرگڑھ کی تہذیب کے حوالے سے تقریبا نو ہزار برس کی قدامت رکھتا ہے۔ اسلام کو آئے ابھی چودہ سو چند برس ہوئے۔ اس شناخت کے لیے مذہبی حوالہ میں کوئی قباحت نہیں، بشرطیکہ کہ یہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار والی نہ ہو۔ لطائف بھلے بنے ہوئے ہوں، مگر جزیرہ نما عرب کے ساتھ پاکستانی مسلمان کی محبت، خود جزیرہ نما عرب میں رہنے والوں سے زیادہ ہے۔

شناختی بحران کا یہ سلسلہ برصغیر میں اک تاریخ رکھتا ہے ہے۔ بالخصوص اس وقت سے جب متحدہ ہندوستان کے شہر بریلی، اور اک دور افتادہ گاؤں دیوبند میں بصورت دیگر معاشرتی اور ثقافتی طور پر پھیلے ہوئے مذہب کو منظم کرنے کا ڈول ڈالا گیا۔ یہ عمل آج ہمارے ہاں بریلوی اور دیوبند فرقوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اہلحدیث تو جزیرہ نما حجاز میں آلِ سعود کی حکومت کی دین ہیں، جبکہ شیعوں کی تاریخ ایران اور پھر عراق سے باقی تمام فرقوں سے زیادہ قدامت سے جڑی ہوئی ہے۔ اس میں کسی کو کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستانی شیعہ اپنی روحانی اور معاشرتی بیانیہ کی شناختیں ایران اور عراق سے کیوں جوڑتے ہیں۔ یہ تاریخ کا سفر تھا جو اب بھی جاری ہے۔

شناخت کا یہی بحران ہے جو پاکستانی مسلمانوں کو اک اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کے حوالہ سے ”مدینہ کی ریاست“ سے جوڑتا ہے۔ شناختی بحران نہ ہوتا تو پاکستانی مسلمان مدینہ سے اک شدت والی مذہبی عقیدت بھلے رکھتے، مگر اک ”پاکستانی فلاحی ریاست“ کی معاشرتی و سیاسی گفتگو میں مشغول ہوتے۔ یا کم از کم یہی سوچ، سمجھ اور سوال کر لیتے کہ موجودہ سیاسی سرحدوں کے درمیان جہاں مدینہ بذاتِ خود موجود ہے، ان سیاسی سرحدوں کے وارثین نے خود کتنا ایک مدینہ کی ریاست قائم کی ہے؟ اور کیا وہ خود اس میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں؟

اس سوال کا جواب آپ کو بے چارے جمال خشوگی کو زندہ کاٹنے کے عمل میں ہی مل جاتا ہے۔

میں جناب مولانا طارق جمیل صاحب کی ویسے ہی عزت کرتا ہوں جیسا کہ میں پاکستانی معاشرے میں موجود اک معاشرتی کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہر شخص کی کرتا ہوں۔

فرق مگر یہ ہے کہ مولانا، اور ان کے عشاق، معاشرتی و سیاسی کردار ادا کرنے کی اک کھڑکی سے چھلانگ لگا کر باہر میدان میں آتے ہیں، اور کچھ حرکات کر کے اسی کھڑکی سے فورا اپنی تقدیس و عقیدت کے قلعے میں چلے جاتے ہیں۔ اس کھڑکی کے ماتھے پر جلی حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ: ”یہاں معاملہ اسلامی مذہبی حوالہ جات کا ہے، لہذا بات کرنا، سوال اٹھانا اور تنقید کرنا نہ صرف منع ہے، بلکہ ادارہ اس کو غیراسلامی اور حرام قرار دیتے ہوئے آپ کو یہودی و مغربی ایجنٹ اور قادیانی وغیرہ قرار دینے کا اختیار بھی رکھتا ہے۔ “

نقار خانے میں طُوطی کی آواز ہی ہو بھلے، مگر محترمین، حال ہی میں شد و مد سے بیچی جانے والی مدینہ کی فلاحی ریاست کے نام کی چنا چاٹ پر غور تو کیجیے، خدارا۔ کہیں آپ کو اک بار پھر بونے بنانے کی مشق تو نہیں کی جا رہی بالکل ویسے کہ جیسے کبھی افغانستان و کشمیر میں جہاد تھا، پاکستان اسلام کا قلعہ وغیرہ تھا؟

میرے دل میں مولانا طارق جمیل صاحب کی عزت، ایک سو چالیس فیٹ کی دلکش حوروں کے بیان پر نہیں، بلکہ اس بنیاد پر ہے کہ وہ اک مکتب فکر کی بڑی شخصیت ہیں۔ تو لہذا، انہیں خود اس بات کا احساس مجھ سے زیادہ ہونا چاہیے کہ مدینہ کی جس ریاست کا خواب وہ تین سو کنال اور جعلی این او سی والے بنی گالوی محل کے مالک، انگریزوں کی کاسہ لیسی کرنے والے خاندان کے شاہ محمود قریشی، فاتح بنگال کے وارث اسد عمر، مشرفی دور میں قرضے معاف کروانے والی شیریں مزاری، جنوبی پنجاب کو ”نیویارک“ بنا دینے والے خسرو بختیار، غریبوں کی پٹائی کرنے والی اعظم سواتی، مشروب کے ساتھ شغل کرنے والی تصویر کے حامل جناب فواد چوہدری، نا اہل جہانگیر ترین، بچوں کے دودھ میں گڑبڑ کرنے والی زبیدہ جلال، نندی پور کے عقاب بابر اعوان اور شاہینِ اسلام شیخ رشید جیسوں کی اکثریت والی کابینہ کے ذریعہ سے دیکھ رہے ہیں، تو خدارا اس سے پاکستان اور پاکستانیوں کو معاف ہی رکھیں۔

عمران احمد خان نیازی صاحب کی حکومت ریاست مدینہ والی ہوتی ہو، یا بنی گالہ کی عظیم فلاحی مملکت، مولانا طارق جمیل صاحب جو مشہور لوگوں کو مزید مشہور کر کے خود بھی زیادہ مشہور ہوئے چلے جاتے ہیں، انہیں اس بات کا خیال کرنا چاہیے کہ میرے ملک میں بے مقصدیت اور جذباتیت کی اک سُونامی پہلے ہی بے مہار دوڑ رہی ہے، آپ کو اللہ اور میرے آقا محمدﷺ کا واسطہ ہے کہ ٹرک کی نئی بتی تخلیق نہ کیجیے۔

مدینہ کی جس ریاست کا خواب جناب عمران نیازی صاحب نے دکھایا اور آپ نے ان کی حکومت کو اللہ کا اذن بتایا، اس کی بنیاد میں آر ٹی ایس کا بند ہو جانا اور 90 فیصد سے زائد فارم 45 پر دستخط موجود نہ ہونے کے علاوہ، مجھ جیسے بدبودار دنیا داروں کی اکثریت ہے جو ریٹائر ہونے کے بعد پاکستان میں رہتے ہی نہیں۔
میں نے چونکہ پاکستان میں ہی رہنا ہے، تو مولانا، سارا پاکستان آپ کا حامی بھی ہو جائے، میں آپ کے خلاف مزاحمت کروں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).