ایک میجر کی ڈائری سے


میں جس وقت آرمی میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سلیکٹ ہوا تو ہر طرف سے مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ خاندان کا میں پہلا شخص تھا جو کمیشنڈ افسر بنا، میرے دوست احباب مجھے کندھوں پر اٹھا کر اپنی محبت اور خوشی کا اظہار کرنے لگے۔

ٹریننگ کا سلسلہ شروع ہوا، تو بہت مایوس ہوا میں جو سوچ رہا تھا وہ تو کچھ بھی نہیں، سوچ رہا تھا کہ گاڑی ہوگی گارڈز ہوں گے میں کالاچشمہ لگائے آرڈر دیتا جاؤں گا ہر طرف سے یس سر، یس سر کی آوازیں ہوں گی، لیکن یہاں تو ہمیں کوئی افسر سمجھتا نہیں ہے ایسے ڈانٹ پڑتی ہے جیسے میں ابھی اسکول کا بچہ ہوں اور وہ سالا ٹرینر نہیں جلاد ہے، آخر ہم افسرز کے ساتھ کوئی تو رعایت ہونی چاہیے، کم از کم صبح جاگنے میں ہم افسرز کی مرضی ہونی چاہیے، جب دل کرے اٹھا کریں لیکن ہمیں تو وہ آزادی بھی نصیب نہیں، کافی بار سوچا یار اس تذلیل سے بہتر ہے بھاگ جاؤں اور کہیں استاد کلرک لگ جاؤں، لیکن مجھے گھر والوں کی خوشی روکے رکھتی۔

اللہ اللہ کرکے ٹریننگ کی بھٹی سے باہر نکلے تو ایک اور امتحان منتظر تھا، سیاچن کا حکم ملا۔

اف باپ رے ان پہاڑوں پر کیسے چڑھوں گا اور مائنس 50 سینٹی گریڈ پر کیسے زندہ رہ پاؤں گا، چلیں اس کے بعد شاید مجھے آرام سے آفیس میں بیٹھ کر حکم چلانے کا موقع ملے گا۔ یہی سوچ کر دل کو تسلی دی اور سیاچن کے محاذ پر روانہ ہوگیا۔ ان بلند برفانی پہاڑوں پر اگر کسی کا تھوڑا پاؤں پھسلا تو سیدھا موت کی وادی میں پہنچ جاتا ہے۔

لیکن اب مجھے موت سے ڈر نہیں لگتا ہے، میں نے کئی بار موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ میں نے اپنے جوانوں کو برف میں دفن کیا، میری خواہشات اور خواب اب ٹھنڈے پڑ گئے ہیں، اب میں وہ والا شریر افسر نہیں رہا ہوں اب میرے جینے مرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہے، میرا ایک ہی خواب ہے میرا ایک ہی سپنا ہے، اپنے وطن کی حفاظت کرتے کرتے جام شہادت نوش کروں۔

سیاچن سے واپسی پر والدہ نے خوشخبری سنائی کہ بیٹا آپ کی شادی کی تاریخ طے کردی ہے لیکن مجھے ذرا بھی خوشی نہیں ہوئی میں نے تو سیاچن کی برفانی چوٹیوں پر اپنی محبوبہ کا انتخاب کر لیا تھا۔ ایک ایسی محوبہ جس کی خاطر میں جان گنوانے کو تیار تھا بدلے میں صرف ایک خواہش تھی کہ میری محبوبہ اپنی گود میں مجھے جگہ دے دے۔

اس کے بعد مجھے صحرائے تھر بدلی کی نوید سنائی گئی۔ جس کا نام سنتے ہی لوگوں کا رنگ پیلا پڑ جاتا ہے لیکن میں نے اپنے ٹرانسفر آرڈر کو آنکھوں پر رکھا اور ماں کے قدم چوم کر، اپنی ہمسفر سے رخصت ہو کر نئی منزل کی طرف اپنا سفر کی تیاری شروع کر دی۔

رخصت ہوتے وقت بیوی نے آنسو چھپاتے ہوئے پوچھا کہ دیر تو نہیں کر دو گے آنے میں، میں نے کہا دیر یا جلد آپ کے پاس آؤں گا ضرور یہ گارنٹی نہیں دے سکتا کہ جھنڈا اٹھائے یا جھنڈے میں لپٹے ہوئے آؤں گا۔

یہ سنتے ہی بیگم کے ضبط کا بند ٹوٹ گیا، گھنٹوں جو آنسو وہ چھپائے بیٹھی تھیں وہ ساون کی طرح برسنے لگے۔ میں نے گلے لگاتے کہا جانم میری ایک اور بھی محبوبہ ہے بالکل تمہاری طرح پیاری لیکن شاید تم سے بھی زیادہ عزیز مجھے وہ بلا رہی ہے میں کیسے انکار کر سکتا ہوں، بیگم نے آنسو پونچھتے کہا اس محبوبہ کے لئے سب کچھ قربان کر دیں میں کبھی شکوہ نہیں کروں گی۔ میرے حصے کی راتیں اس محبوبہ پر قربان جائیں، یہ سنتے ہی میری آنکھیں بھر آئیں لیکن مرد اور مجاہد روتے نہیں ہیں یہ سوچ کر ضبط سے کام لیا اور اپنی ہمسفر سے جدا ہوا۔

نئی جگہ رپورٹ کے بعد ابھی سفر کی تھکن بھی ختم نہیں ہوئی کہ حکم ملا کہ بارڈر کا دورہ کرکے آئیں اور جوانوں کا مورال بلند کریں۔ اس وقت مجھ خود پر فخر ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت اچھے کام کے لیے چنا ہے۔

اچھڑو تھر (ہتھونگو سے خیرپور تک) یہ عام صحرا نہیں اس کی باریک ریت کے ٹیلے ایک جگہ ساکن نہیں ہیں یہ جگہ بدلتے رہتے ہیں، ہواؤں کے رخ کے ساتھ یہ ٹیلے اپنی جگہ تبدیل کرتے رہتے ہیں اس لیے یہاں کوئی مخصوص راستہ بھی نہیں، نہ ہی کوئی گاڑی جا سکتی ہے، سوائے اونٹوں کے، جو کبھی بھی راستہ نہیں بھولتے ہیں۔ لیکن اونٹ کی سواری ہر ایک کے بس کی بات نہیں، ہم جو کوائل اسپرنگ گاڑیوں میں سفر کرتے تھے ان کے لئے اونٹ کی سواری کسی امتحان سے کم نہ تھی، سواری بھی گھنٹہ ڈیڑھ نہیں ایک ہفتے کے لئے، پہلے روز تو میری آنتوں میں شدید درد ہو گیا جس کی وجہ سے ساری رات سو نہ سکا، اوپر سانپ اور بچھوؤں کا ڈر، جن کا علاج ستر کلومیٹر قریب میں ممکن نہ تھا۔

پانی تو نایاب تھا ایک ایک بوند سوچ سمجھ کر استعمال کرتے تھے، نہانا تو بہت بڑی عیاشی تھی ہمیں منہ دھونے کے لئے بھی پانی احتیاط سے استعمال کرنا پڑتا تھا، اور کھانے میں تینوں وقت دال اور روٹی، چائے کے لئے پتی تو میسر تھی لیکن دودھ نایاب بس قہوہ پر گذارا، گرمی 50 سینٹی گریڈ، درخت نام کی چیز نہیں باہر دھوپ جلاتی اور ٹینٹ میں حبس کا راج ہوتا۔ ان جوانوں کی حالت دیکھ کر میں اپنی تھکن بھول جاتا تھا، جو اس قہر آلود گرمی میں مکمل وردی میں بارڈر پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے۔ دل تو کرتا کہ ان کے ہاتھ چوموں لیکن نظم وضبط کی دیوار آڑے آ جاتی، لیکن تھر کی رات بہت سہانی تھی آسمان پر چودھویں کا چاند ہر طرف سناٹا پر سکون فضا خاموشی کا راج نہ گاڑیوں کا شور اور نہ دھواں، دور کہیں کسی بھیڑئے کی آواز سنائی دیتی۔

رات کو میں جوانوں کی محفل لگاتا خوب لطیفے ہوتے بچپن کے قصے اپنے اپنے علاقے کا تعارف کراتے اپنی آواز میں سب گانے سناتے، کوئی نورجہاں کی، چاندنی راتیں گاتا، تو کوئی ملی نغموں سے لہو گرماتا، (اس طرح میں اپنے جوانوں کا حوصلہ بلند کرتا رہا، ان کا دل بہلا کر ان کی تکالیف کا درد اپنے دل میں لیے میں دوسری پوسٹ پر جاتا۔ یاد رہے اس وقت میں ایک میجر تھا 18 گریڈ کا میجر)۔

واپس ہیڈ کوارٹر پہنچتے میرا پانچ کلو وزن کم ہو چکا تھا اور رنگ کا آپ خود اندازہ لگا لیں کہ اگر میں یونیفارم میں واپس داخل نہ ہوتا تو شاید میرے ماتحت بھی مجھے پہچان نہ پاتے۔

کچھ عرصہ بعد حکم ملا ایل او سی پر آپ کو تعین کیا جاتا ہے۔ بس ایسے سمجھیں جو اس محاذ پر جاتا ہے وہ واپسی کی امید ختم کر کے جاتا ہے 24 گھنٹے دشمن کی طرف سے گولے اور گولیاں فائر ہوتی رہتی ہیں، جن سے بچ گیا تو اوپر سے کڑکتی آسمانی بجلی جو ہر وقت نیچے کودتی رہتی تھی کسی کا گھر اجاڑنے کے لیے، اس سے بچ گیا تو خونخوار جانور اور خطرناک راستے ہمارے منتظر ہوتے تھے۔ لیکن ان سے وہ گھبرائے جسے موت کا ڈر ہو ہم نے تو کاکول میں یہی سیکھا کہ موت کو مات دینی ہے۔

پھر حکم ملا کہ سوات میں آپریشن کے لئے آپ نے جانا ہے۔ ہاں وہ سوات جہاں سولجرز کو ذبح کرکے ان کے سروں سے فٹ بال کھیلا جاتا تھا، جہاں مولوی اٹھ کر اپنی عدالت لگاتے تھے مدعی بھی خود وکیل بھی خود اور منصف بھی خود۔ کئی سپاہی اور مقامی لوگ شک کی بنیاد پر مارے گئے لیکن اس وقت نہ منظور پشتیں کو ظلم نظر آ رہا تھا اور نہ وزیر خان نے آواز بلند کی تھی۔ نہ ہی موم بتی مافیا نے ان شہداء کے لئے کوئی شمع جلائی۔

پہاڑی علاقوں میں آپریشن کی کامیابی کے چانسز بہت کم ہوتے ہیں، یہی وجہ تھی برطانیہ اور روس دونوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ والے تو 16000 کا لشکر مروا چکے ہیں صرف ایک ڈاکٹر زندہ بچ گیا تھا۔

لیکن ہم نے ہار و جیت سے بے نیاز ہو کر اپنی محبوبہ کی حفاظت کرنی تھی اس میں ہم مارے گئے تو بھی کامیاب اور اگر دشمن مارا گیا تو بھی ہم کامیاب۔ نقصان تو ہے ہی نہیں اس تجارت میں۔

آپ کا اپنا محمد صالح مسعود


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).