ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی بنام پاکستا نی عوام


از پالیمنٹ لاجز
14 دسمبر 2018 بمطابق
6 ربیع الثانی 1439 ہ

ڈیئر مسلمانان ِ مملکت خداداد!

سلام کے بعد ڈھیر ساری دعائیں۔ امید ہے کہ پچھلے دنوں ایوان زیریں میں میرا ”نعرہ مستانہ“ آپ سب نے سنا ہوگا۔ آپ یقین کرلیں یہ نعرہ مستانہ لگانے کے بعد مجھے ہزیمت ضرور اٹھانا پڑی، پَر مجھے شرمندگی پھر بھی محسوس نہیں ہوئی۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، جس نے اس کائنات کی عمارت بغیر کسی ستون کے کھڑی کردی ہے اور جس نے شہد کو جملہ بیماریوں کے لئے شفا اور مشروب خاص کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیا ہے، میں اپنی اس ہزیمت پر نادم نہیں ہوں۔ نعرہ کیا تھا، بس ایک خاص مشروب کے پینے اور خرید وفروخت پر قدغن لگانے کو جی چاہ رہا تھا جس کے فوائد نہایت کم اور نقصانات لامتناہی اور بے حساب ہیں۔

جس کے پینے سے عقل ِ سلیم جیسا عظیم راہنما مفلوج ہوجاتا ہے اور حضرت انسان تمام تر خباثتوں کے سمندر میں غوطہ لگانے پر قادر ہوجاتا ہے۔ جس کو نہ صرف دین ِ محمدی ﷺ میں اُم الخبائث کہا گیاہے اور ا س کے پینے اور ہر قسم کے کاوبار کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے بلکہ شریعت موسویؑ، عیسویؑ اور بدھ مت کی تعلیمات کی رو سے بھی اس کا پیناممنوع ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آخر میرے اس نعرہ مستانہ کو ا س قوم کے سینکڑوں کلمہ گو نمائندوں نے کیوں سنجیدہ نہیں لیا؟

میں نہیں جانتا کہ بالآخر میرے ہاں میں ہاں نہ ملانے والوں کا شمار کس کٹیگری کے مسلمانوں میں ہوتا ہے؟ افسوس اس بات پر بھی ہوا بلکہ تھوڑی بہت شرمندگی بھی، کہ اس محاذ پر میرے اپنوں نے بھی ساتھ نہیں دیا جو کہ ا یک عرصے سے مملکت خداداد کومدینہ جیسی ریاست بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ مدینہ جیسی پاک اور عادل ریاست کا خواب دیکھنے والوں کو کس کی نظر ِ بد لگ گئی کہ عین موقع پر ان کی غیرت نے بھی جواب دے دیا؟

عزیزانِ مِن! آپ کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ اس ناچیز کا تعلق بھی آج کل اسی جماعت سے ہے جو ایک مثالی ریاست قائم کرنے کی بات کرتی ہے۔ دل کی بات کہی جائے تو میرا نعرہ مستانہ بھی حقیقت میں مدنی ریاست کی پہلی اینٹ تھی جس کو اُسی دن یہ گناہگار نصب کرنا چاہ رہا تھا۔

میں نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ مدینہ منورہ کی ریاست دنیا کے سبھی ریاستوں سے افضل و برتر اس لیے تھی کہ اس میں تمام تر محاسن جمع تھے یعنی اُم المحاسن تھی۔ ا دھر میرا نعرہ مستانہ لگانے سے مقصود یہ تھاکہ یہاں بھی چونکہ اُم المحاسن ریاست کی تعمیر کے دن آچکے ہیں یوں اُم المحاسن کے قیام سے پہلے اُم الخبائث کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ لیکن افسوس، صد افسوس کہ میری امید بر نہیں آئی بلکہ الٹا مجھے لتاڑا گیا۔ بعض کرم فرماؤں نے تو اسی رات جناب حامد میر کے کیپیٹل ٹاک میں یہ کہہ کر میری روح کو بری طرح گھائل کردیا کہ ”ایسا نعرہ لگانے والے سستی شہرت چاہتے ہیں، جس نے پینی ہے وہ پھر بھی پیتا رہے گا اور جس نے نہیں پینی ہے وہ پھر بھی نہیں پیتا“۔ لاحول ولا قوۃ،

عزیزان وطن! بے شک میری اس کاوش کو بہت لوگوں نے (نعوذبا اللہ ) ایک گستاخی سمجھی ہوگی بلکہ اسے ریڈ لائن کراس کرنے سے تعبیر کیا ہوگا لیکن میں پھر بھی پرعزم ہوں اور یہ گستاخی آئندہ بھی کرتا رہوں گا بلکہ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پران ودیا کا یہ پیروکار توایسی گستاخی کا ارتکاب ایک طویل عرصے سے کرتا آ رہا ہے۔

اس حوالے سے ملک کے ایک موقر روزنامے میں میری تحریریں بھی طبع ہوئی ہیں اور متعدد دفعہ میں اپنی کمیونٹی کو ساتھ ملاکر احتجاجی مظاہروں میں بھی اس خبیث مشروب کے کاروبار پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر چکا ہوں۔ آپ لوگوں کو شاید یاد ہوگا کہ پچھلے سال اسی نعرے کی لاج رکھنے کی خاطر میں نے سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا تھا۔

خدا بھلا کرے سندھ ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان کا جنہوں نے پھر بھی میرے اس مطالبے کو سنجیدہ لیتے ہوئے پورے صوبے میں اس کی خرید وفروخت پر پابندی لگادی جس سے اس گورکھ  دھندے میں ملوث مافیا کی نیندیں حرام ہوگئیں۔

حیف، کہ پھر ان مافیاز نے عدالت کے احکامات کو مختلف ذرائع سے چیلنچ کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ عدالت کو بھی آخر کار سرنڈر کرنا پڑا۔ تعجب خیز بات تو انہی دنوں میں یہ بھی سامنے آئی کہ ایک طرف عدالت کے سامنے تمام غیر مسلم مذاہب کے نمائندے اپنا موقف پیش کررہے تھے کہ غیر مسلموں کے نام پر مذکورہ مشروب کی فراہمی اور لائسنسیں بند کردی جائے جبکہ دوسری طرف مسلمان و کلاء صاحبان عدالت میں غیر مسلموں کے نام پر اس پابندی کالعدم قرار دلوانے کے لئے کیس لڑ رہے تھے، جس پر مجھے حضرت اقبا ل بہت یاد آئے،

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

میرے عزیز ہم وطنو! میں اپنی بات کو مزید طول دینا نہیں چاہتا، فقط اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی خاطر آپ سے مخاطب ہوا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس کاز میں مجھے سپورٹ کرو گے اور آئندہ اسمبلی میں ایسے نمائندوں کو بھجوا دو گے جو اُم الخبائث سے نفر ت او ر ”اُم المحاسن یعنی مدنی ریاست“ کی تعمیر پر حقیقی معنوں میں یقین رکھتے ہوں گے ۔

والسلام، آپ سب کا مُحسن
رمیش کمار وانکوانی
( پیرو کار ِ ہندو مت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).