ہم سرکاری خطبہ قبول نہیں کریں گے: مولانا زاہد الراشدی


پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل اور جامعہ نصرت العلوم گجرانوالہ کے شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی نے حکومت کی جانب سےعلماء، خطبا اور آئمہ مساجد کو سرکاری خطبہ دینےکا پابند بنانے کی پالیسی کو ناقابل عمل اور غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے۔ اسلام اور اسلامی احکامات سے گریزاں حکومت علما اور آئمہ مساجد کو پابند کرنے کی بجائے اپنی ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جو ملکی دستور نے انہیں تفویض کی ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ممتاز عالم دین مولانا زاہد الراشدی نے حکومت کی جانب سے ملک بھر میں آئمہ مساجد اور خطبا کو یکساں تحریری خطبہ جمعہ فراہم کرنے کی پالیسی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو تین دن سے ایک خبر گشت کر رہی ہے کہ حکومت پاکستان نے ملک بھر میں مساجد کے آئمہ اور خطبا کو اس بات کا پابند بنانے کا فیصلہ کیا ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے بھیجا گیا خطبہ پڑھیں گے اور اپنی طرف سے مسجد میں کوئی تقریر نہیں کریں گے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی دو تین مرتبہ ایسی کوشش ہو چکی ہے لیکن یہ ناقابل عمل بات ہے اور درست بھی نہیں ہے۔ درست اس لئے نہیں ہے کہ یہ ہماری روایات کے خلاف ہے۔ خلافت راشدہؓ، خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت تک کبھی ایسا نہیں ہوا، جب خالص اسلامی حکومتیں تھیں تب بھی ایسا نہیں ہوا، امیر المومنین ہوتے تھے، خلافت تھی۔

اگرچہ ہندوستان میں بادشاہت تھی لیکن ملک کا نظام قرآن و سنت تھا اور عدالتوں میں بھی قرآن و سنت کے مطابق فیصلے ہوتے تھے، حتی کہ اکبر کے دور میں جب اس نے الحاد کا راستہ اختیار کیا تھا تب بھی عدالتوں کے فیصلے قرآن سنت کے مطابق ہی ہوتے تھے، اُس دور میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آئمہ اور خطبا کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہو کہ وہ حکومت کی جانب سے بھیجے گئے خطبات پڑھیں، یہ ہماری روایات اور تاریخ کے منافی ہے اور خلافت راشدہؓ میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ ہے کہ اگر حکومت خود اسلام پر عمل پیرا ہو تو دینی معاملات میں کسی حد تک اس کی بات سنی جا سکتی ہے لیکن اگر حکومت خود اسلام سے گریزاں ہو، ہمارا حکومتی نظام، ہماری اسٹیبلشمنٹ، ہماری رولنگ کلاس گذشتہ 70 سال سے رسے تڑوا رہی ہے کہ کسی طرح اسلام کے نظام سے جان چھوٹ جائےاور دستور نے جن باتوں کا پابند کیا گیا ہے ان پر بھی یہ تیار نہیں ہے۔ مولانا زاہد الراشدی کا کہنا تھا کہ دستور ان کو پابند بناتا ہے کہ ملک میں سودی نطام ختم کریں، یہ حیلے بہانے اور مختلف جوڑ توڑ کر کے اب تک اس دستوری فیصلے کو جسے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھی تائید حاصل ہے سے منحرف اور انکاری ہیں۔ دستور ان کو پابند بناتا ہے کہ ملک کے تعلیمی نظام میں قرآن و سنت اور اسلامی شریعت کی تعلیم کا اہتمام کریں لیکن یہ اس سے بھی جان چھڑا رہے ہیں۔ دستور ان کو پابند بناتا ہے کہ عربی زبان، جو ہماری دینی زبان ہے، کی ترویج کا اہتمام کریں یہ اس سے پیچھا چھڑا رہے ہیں۔ ملک کا دستور انہیں پابند کرتا ہے کہ ملک میں اسلامی معاشرہ اور اسلامی تہذیب کے فروغ کی کوشش کریں یہ اس کے مقابلے میں مغربی تہذیب، مغربی ثقافت، عریانی اور فحاشی کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ ملک کا دستور انہیں پابند بناتا ہے کہ حرام چیزوں پر پابندی لگائیں یہ شراب کو پابند کرنے پرتیار نہیں ہیں بلکہ شراب کے حوالے سے گذشتہ دنوں قومی اسمبلی میں جس ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہا گیا ہے کہ ہم شراب پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں ہیں، ایسی فضا میں یہ کس طرح کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت ہیں ؟

انہوں نے کہا کہ میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ دستور اسلامی ہے اور پاکستان دستوری طور پر ایک اسلامی ریاست ہے لیکن موجودہ حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے۔ اپنے اعمال کی وجہ سے دستور سے انحراف اور بغاوت کی وجہ سے اور دستوری تقاضوں کو پامال کرنے کی وجہ سے یہ حکومت اسلامی نہیں ہے۔ اسلامی حکومت ہوتی تو بات اور تھی۔ یہ خود تو اسلام کی پابندی کرنےاور دستور کا کوئی حکم ماننے کو تیار نہیں ہیں، یہ اپنی نجی مجلسوں میں اسلامی احکامات کا مذاق اڑاتے ہیں جبکہ ملک کے آئمہ اور خطبا کو پابند کرنا چاہتے ہیں کہ دین، نماز، خطبہ جمعہ اور خطبہ عید کے معاملے میں ان کی پابندی قبول کریں، یہ کیسے ممکن ہے؟

مولانا زاہد الراشدی کا کہنا تھا کہ میں حکمرانوں سے عرض کروں گا کہ تمہاری ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ کیا ان کی ذمہ داری وہی ہے جو یہ ادا کر رہے ہیں؟ آپ نے دستور کی اسلامی دفعات پر عملدرآمد میں اب تک کوئی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے؟ آپ نے تو دستورکا یہ حکم بھی ابھی تک نہیں مانا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں لا کر قانون سازی کی جائے، آپ تو اس کے لئے بھی تیار نہیں ہیں اور ہمیں کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کا خطبہ آپ سے پوچھ کر دیں۔ کوئی انصاف کی بات اور خدا کا خوف کریں، یہ بات درست نہیں ہے۔ حکمرانوں کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو باہر سےانہیں ایجنڈا بھیجتے ہیں ان سے کہنا چاہئے کہ ہمارے ملک کا دستور، ہمارا مذہب، ہماری قوم اور رائے عامہ اس کے لئے تیار نہیں ہے خواہ مخواہ ہمیں پُش نہ کیا جائے، انہیں جواب دینا چاہئے کہ ہمیں ہماری قومی روایات، اسلامی احکامات اور ہمارے تاریخی تسلسل کے خلاف مجبور نہ کیا جائے، حکمران بھی قوم پر دباؤ مت ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).