کتنی ماؤں کے لخت جگر کٹ گئے


دسمبر کی یخ بستہ صبح سورج کی کرنیں دھند کے جتھوں سے گتھم گتھا ہوتی زمین کا بوسہ لینے میں کامیاب ہوئی ہی تھیں کہ حذیفہ جلدی کرو حذیفہ جلدی کرو اٹھ جاؤ، یہ گونجتی آواز یک لخت چُپ ہوئی جب گاڑی کی گڑگڑاہٹ سے گھر کا گیراج بول اٹھا۔ تلخی بھرے لہجے میں وہ کہہ رہی تھی ہم سب تمہاری وجہ سے لیٹ ہو جاتے ہیں، ماما آج تو میں جلدی تیار ہؤا ہوں، تو یقینا تم نے ناشتہ نہیں کیا ہو گا۔ اب لہجے میں درشتگی پہلے جیسی تو نہ تھی لیکن تھی سہی۔

مامتا کے قرب کی مہک سونگھتے حذیفہ نے ماما کی پیشانی پہ بوسہ دیتے ہوئے کہا ماما آپ نے میرے لئے تیار کیا تو سمجھو ناشتہ میں نے کر لیا۔ غصے کو حلاوتوں میں بدلنے کے ڈھنگ میں مہارتوں کے حامل نے آخری بار اپنے قدم گھر کی ڈیوڑھی سے باہر نکالے اور ماما کی مصاحبت میں سکول کو چل دیا۔ ننھی نازک انگلیوں سے ٹھوڑی کو چھوتے ہی گویا ہؤا مما اب تو مسکرا ہی دو۔ چہلیں کرتے بیٹے کی یہ ادا ماضی کی خوبصورت پرچھائیوں میں اس کو اس کا بچپنا ڈھونڈنے گھسیٹ لے گئی، جب پوپلے جسم والے گُڈے نے مما پاپا بولنا سیکھا، اس کی چھوٹی سی عمر کے انگ انگ بدلتے نقوش کے صفحات یادوں کی پلکوں سے پلٹتی کو اس کی ننھی گول کمر پر تل کا نشان اسے کسی حد تک متبرک معلوم ہوتا تھا جس کی پیشین گوئی کسی بزرگ سید زادے نے اس کی گود ہری ہونے سے پہلے کر دی تھی۔

اور جب وہ مما کی آمد کے استقبال میں اظہار مسرت کرتے ہوئے ہاتھوں اور لاتوں کے ہوا میں سائیکل چلاتا۔ دودھ کے دانت نکلنے پہ پورے خاندان کی مبارکبادیں اس کی سماعتوں میں گونج رہی تھیں، اس کے روٹھنے کے انداز میں اس کے گول مٹول گال پُھول کر دلکش غبارے بن جایا کرتے تھے۔ انہیں یادوں کے سمندر میں مستغرق کو جیسے ہی وہ واقعہ یاد آیا جب بابا کے شیو باکس میں نہ جانے کیسے اس نے ریزر نکال کے اپنی گال پہ رگڑ دیا تھا اور اس کے گلابی گلابی خون کے دھبوں سے اس کی قمیص سرخ ہو گئی تھی، شکر ہے کہیں کچھ ہو نہ گیا میرے چاند کو ”اس واہمے نے اسے نہ جانے کتنے عرصے تک اسے غمزدہ رکھا تھا بالآخر خاندان کے بڑوں کو سمجھانا پڑا کہ صبر سے کام لے آج بھی سوچ کر اس کا بدن جھری جھری لئے بغیر نہ رہ سکا، دو جاڑے پہلے اس کو زبردستی نہلانے کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا اور آج وہ خود نہا دھو کر، دُھلا نکھرا یونیفارم پہن کر ایسے جلوہ افروز تھا کہ مستقبل کا ایک وجیہہ مرد نظرتا تھا۔

پھر یہی خیال اس کو مستقبل کی فضاؤں میں اڑا کر لے گیا کہ کیسے وہ اس کی ضعیفی کا سہارا بننے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کے لئے باعث فخر ہو گا۔ چشم تصور میں اس کے ماتھے پہ سہرا سجتا دیکھ کر اس کی بلائیں لیتی نے دلہن بہو کی تلاش میں کتنی خاندان اور خاندان سے باہر لڑکیوں کے نقوش ایک آن میں کھنگال ڈالے لیکن کوئی چہرہ ابھی تک تو اس کے لال کا ہم کفو نظر ہی نہ آیا تھا خستگیوں سے پختگیوں تک کے سفر کی ایک ایک بالشت ناپتی کو کلاس روم کی کھڑکیوں سے لڑھکتے قہقہوں نے چونکا دیا۔

گاڑی سکول گیٹ پہ رُک چکی تھی، اُجلے اُجلے لباس میں ملبوس تمام ہونیوں انہونیوں سے نابلد پُھول جیسے کھلتے بچوں کے چہروں کو ایسے بنظرغائر تک تک کر مسرور ہو رہی تھی جیسے باغباں گلشن کے غنچوں کی چٹک پر شاد ہو جاتے ہیں۔ دیکھ دیکھ کر شاد ہوتی کوہر چہرہ اسے وطن عزیز کے مستقبل کا دمکتا تارہ دکھائی دے رہا تھا ان ہشاش بشاش کواکب میں اسے انجینئرنگ کی شاہکاریاں بھی دکھائی دیں، تو کوئی اسے مستقبل کے ہم وطنو کے ساتھ مسیحائی کرتا نظر آیا، کوئی آنے والے وقتوں میں سرحدوں کا محافظ نظرا تو کسی کے ہاتھ ادب کی گلکاریوں میں طویل ہوتے محسوس ہوئے، کسی میں چھپے آنے والی نسلوں کی آبیاری کرتے معمار کی جھلک دکھائی دی۔

کوئی پھولوں کی لدی شاخ کی طرح جھولتا عبداللہ آنے والی نسلوں کو جھما دینے والا موسیقار نظر آیا توانیس اور امین گورے چٹے بھالو جیسے دو دوست ایسے محو گفتگو چلے جا رہے تھے جیسے اندھیروں میں ڈوبے ملک کو روشن کرنے کے لئے توانائی کے شعبے کے ماہرین ہوں۔ ادھر صراحی دار گردن والا ارسلان آ ٹپکا پکا سائنسدان لگ رہا تھا۔ چمپئی رنگ کا فواد گاڑی سے اترتا ماما سے الوداعی بوسہ لیتا چہکتا گزر گیا تھا۔ گٹھے بدن کا ابراہیم سر کے بالوں کی پتلی سی لٹ لہرا کر بابا سے شاید کوئی تقاضا کرتا آنے والے کل کا ماہر معاشیات دکھتا تھا۔ قہقہے لگاتے ابوذر کے دانت چنبیلی کی کلیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ چھوٹی ناک اور بڑی بڑی آنکھوں والا عرفان تو کوئی بڑا ادیب ہی بنے گا۔ انہی خیالوں میں کھوئی ہوئی کو مسعود کی کھلکھلاہٹ نے ان دیکھی مسرتوں کے خواب سے جگا دیا وہ جب کھلکھلا کے ہنستا تھا تو گویا اس کے گلے میں گھنگھرو چھنکتے ہوں۔

اپنے نصیب پہ نازاں سکول میں داخل ہوئی کہ جن ہاتھوں میں قوم و مُلک کا زمانہ آئندہ محفوظ ہو گا، اُن کو سنوارنے کی ذمہ داری اس کے مقدر میں آئی تھی۔ پھوٹتے قہقہے، جسم لہکتے، لب چہکتے، کہیں سے مدرسانہ صدائیں بلند ہوتیں تو کبھی گھنٹی کی گونج دار آواز پیریڈز کی تبدیلی کا اعلان کرتی۔ دوسرے پیریڈ میں میڈیکل کے مربیوں کے سامنے ایک ہال میں جہاں کسی ناگہانی بلا کے نتیجے میں فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جانی مقصود تھی، ایک ایک کو اپنے ہاتھوں سے بھیجتی کو کیا پتہ تھا لمحوں بعد وہاں زندگی کی خوبصورت ناری خوفناک صورت موت کے اژدہا کے منہ میں چیختی چلاتی نگل لی جائے گی۔

یکایک مطالعاتی سرگرمیوں کی شہد کی مکھیوں جیسی بھنبھناہٹ گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں تحلیل ہو گئی۔ موت کے آہنی شکنجے دہشتگردوں کا روپ دھارے اپنی غلیظ زبانوں سے تکبیر بلند کرتے نہتے معصوم بچوں کے خون کی ہولی کھیلنے لگے۔ کہیں سے چیخیں ابھریں، کہیں سے موت کے دہانے پہ ہراس و یاس کے دوراہے پہ سسکتی سسکیاں گھُٹ گھُٹ کر ہانپتی رہیں۔ کتابوں میں خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈتی آنکھیں دائمی نیند سلا دی گئیں۔ صبح کے اجلے خواب چکنا چور ہو کر لہو لہان ہو گئے۔

نرم و نازک اعضا کرچیاں کرچیاں ہو کر جا بجا بکھر گئے۔ کہیں قلم خون آلود ہؤا تو کہیں کاغذ لہو میں نہا گیا۔ کہیں سربریدہ نعش تو کہیں ننھا بازو پھڑکتا رہا۔ دبستان ادب کی کلیاں تڑپ تڑپ کر بکھرتی رہیں۔ فرش کی ٹائلوں نے عنابی رنگ زیب تن کیا۔ ننھی جانوں میں جذبہ ایثار کہاں سے عود کر آیا تھا کہ بڑے بھائی چھوٹوں کے سامنے آ کر اپنے تئیں انہیں اپنے پیچھے چھپا چھپا کرسینوں پہ گولیاں کھا رہے تھے۔ جب موت منہ کھولے سامنے کھڑی ہو اور ایسی خونخوار موت تو بڑے سے بڑے شجاع و شہنشاہ کے سارے شکوہ پانی کا بلبلہ ثابت ہوتے ہیں ایسے میں میڈم فرحت گلاب سے بچوں کو خون میں نہاتا دیکھ کر رہ نہ پائی اور تاریخ کے سینے میں شجاعت و بہادری کا جھنڈا گاڑتی اپنے بچوں کو بچانے بزدل دشمن کی بارود اگلتی گولیوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئی۔ آن کی آن میں مکتب مقتل بن کر سرخ چادر پہن چکا تھا۔

کتنی ماؤں کے لخت جگر کٹ گئے
کتنی بہنوں کے نور نظر کٹ گئے

بلا تشکیک افواج پاکستان نے جرائتمندی اور کمال منصوبہ بندی سے عسکریت پسندوں کو جہنم واصل کیا۔ پوری قوم شہدا کے والدین کے درد میں ہمدرد بن گئی، تعزیتی پیغامات اور محافل قرآن خوانی کا تانتا بندھ گیا۔ دکھ کی گہرائیوں کو شعرا نے منظوم کلام کے پیمانے لگا لگا کے ناپنے کی سعی کی، سیاسی قیادت کے مذمتی بیانات کے قافلے ٹی وی چینلز کی رنگ برنگی سکرینوں پر اونٹوں کی قطاروں کی طرح گزرتے رہے۔

جیسے ہی گردش ایام سال کا وہ نقشہ دہراتی ہے زخم ہرے ہو جاتے ہیں، پھر سے تعزیت و تسلیت کا اظہار والدین سے کیا جاتا ہے،

ننھی ننھی قلموں سے لکھی سرخ تاریخ کے ایک ایک لفظ سے ننھے شہدا کا ٹپکتا خون بتا رہا ہے کہ سولہ دسمبر کا دن تاریخ کے دامن پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رقم ہو گیا۔ آئیں فرزندان قوم کو ایسا خراج بخشین کہ دھرتی کی طرف اٹھتی میلی آنکھیں کھُل جائیں کہ یہ سرزمین ان محبان وطن کی ہے جو اس مٹی کی خاطر موت سے ڈرتے نہیں بلکہ ان کو سینے سے لگاتے ہیں اور نعشیں اٹھاتے باپ جنازوں کے پائے پکڑ پکڑ کے چیختی مائیں، بازو پھیلا پھیلا کے بین کرتیں بہنوں کی صدائیں، نفیس و کومل اجسام کو لحد میں اتارتے رشتہ دار، یادوں کی پگڈنڈیوں پہ رُلتے رُلاتے یار دھرتی کا صدقہ سمجھ کے صابر و فاخر ہیں۔ آئیں اس ماں کو پرسہ پیش کریں جس نے امش کا خون آلود جوتا ابھی تک سینے سے لگا رکھا ہے اور سلام ہے شہید حذیفہ کی ماں پر جو آج بھی بیٹے کے مقتل میں تدریسی سرگرمیاں سر انجام دے رہی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).