مثبت خبر: کراچی، کیلگری اور لاہور میں ایک ساتھ ”ہو جمالو“۔


ویسے تو دسمبر آتے ہی عاشق، کنوارے، ویلے اور خاص طور پر ان ہی دنوں میں کسی رقیب کا شکار بنے نوجوان شاعری کا سہارا لیتے ہوئے جو کچھ نہیں کہہ پاتے کسی شاعر کے کاندھے پر بندوق رکھ کر فائر کر دیتے ہیں۔ مطلب دسمبر بچھڑنے اور دکھ کا استعارہ ہے۔ سندھ میں مگر ڊسمبر کو اک نئی جہت دی گئی ہے جس وجہ سے سندھ کے لوگ دسمبر کا شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ جب سے سندھ اسمبلی نے دسمبر کے پہلے اتوار کو سندھی ثقافتی دن کے طور پر منانے کی قرارداد پاس کی ہے، سندھ میں اک اور عید کا اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ دن پوری دنیا میں میں رہنے والے سندھی جوش و خروش سے مناتے ہیں۔

امریکا، یورپ، عرب ممالک سے لے کر جاپان، چین اور دیگر جگہوں پر رہنے والے سندھی یہ دن بڑی خوشی سے مناتے ہیں۔ اب تو یہ واقعی اک تاریخی بات مانی جائے گی کے پاکستان کے اک صوبے سندھ کے ثقافتی تہوار کو کینیڈا کے اک صوبے البرٹا کی سرکار نے وہاں پر سرکاری طور پر منائے جانے والے ثقافتی تہواروں میں شامل کردیا ہے۔ کینیڈا میں کئی عشروں سے مقیم احمر ندیم میمن اور ان کی بیگم فریدہ میمن صاحبہ اور اک ساتھی مشہود احمد قاضی کی کوششوں کے وجہ سے یہ ممکن ہو پایا۔ چند دن پہلے البرٹا کے شہر کیلگری کے مشہور میک ڈوگال سینٹر میں منائے گئے سندھی ثقافتی دن کی تقریب میں البرٹا کی وزیر برائے ثقافت و سیاحت میڈم رکارڈو مرینڈا نے یہ اعلان کیا کے اب ہر سال سندھی ثقافت کا دن صوبہ میں سرکاری طور پر منایا جائے گا۔

پاکستان میں سیاحت کے لئے خیبر پختون خواہ اور شمالی علاقہ جات جبکہ ثقافت کے لئے پانچ دریاؤں والے پنجاب کا خطہ ہر وہ خوبی اپنے اندر سمائے ہوئے ہے جو کہیں بھی ہونی چاہیے مگر پنجاب کی مشہور تریں تہوار بسنت سمیت لوہڑی اور دیگر سینکڑوں تہوار بنیادپرستی کی سولی پر چڑھ چکے ہیں۔ سچ میں یہ ہی حالت سندھ کے تہواروں دیوالی، چیٹی چنڈ اور دیگر سے بھی ہے جو تقسیم کے ساتھ تقسیم ہوگئے۔ حالانکہ تہوار دھرتی کے ہوتے ہیں مذاہب کے نہیں۔

اس سچ کو اب کبھی بھلایا اور جھٹلایا نہیں جائے گا کہ ”سندھی ثقافتی دن“ کا نام پہلے دن ”سندھی ٹوپی اور اجرک کا دن“ تھا جو سابق صدر آصف علی زرداری کے افغانستان کے دورے پر سندھی ٹوپی پہننے پر ڈاکٹر شاہد مسعود کے انتہائی طنزیہ جملوں کے بعد ری ایکشن کے طور پر سندھ میں منایا گیا تھا۔ مگر اس وقت یہ دن واقعی نہایت دلچسپی سے منایا جاتا ہے۔

دسمبر کے پہلے ہفتہ اور اتوار کو سندھ کے تمام شہروں اور گاؤں میں یہ دن منایا گیا تو سندھ سے باہر پاکستان کے بڑے شہروں لاہور اور اسلام آباد میں دوسرے ہفتہ اور اتوار کو منایا گیا۔ اسلام آباد میں یہ تقریب پریس کلب میں جبکہ لاہور میں سب سے بڑے ہال الحمرا میں منعقد کی گئی۔ اس میں دلچسپ بات یہ تھی کہ اس تقریب کو سندھ گریجویٹس ایسوسی ایشن نامی اک ثقافتی تنظیم نے پنجاب اور سندھ سرکار کی مدد سے منعقد کیا تھا، اور تقریب میں شامل لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں سے آکر لاہور پہنچے تھے۔

پروگرام کی ابتدا قومی ترانے، تلاوت، نعت شریف، بھجن، شاہ عبداللطیف بھٹائی اور وارث شاہ کے کلام سے کی گئی۔ سندھی فنکاروں شہنیلا علی اور استاد تعمیر حسین نے سندھی، سرائیکی اور پنجابی بولی میں قومی، لوک اور صوفیانہ نغمے سنائے۔ سندھ کے لوگوں نے پنجابی بولی اور ثقافت کے لئے کام کرنے والے پنجابی احباب کو خاص ایوارڈز پیش کیے، یہ واقعی اک شاندار تقریب تھی۔

سندھ گریجویٹس ایسوسی ایشن کے نائب صدر دوست حفیظ چنا کا کہنا تھا کہ ”سگا کی جانب سے لاہور میں یہ چھٹا سالانہ ثقافتی پروگرام تھا، ہم نے اس تقریب میں شرکت کے لئے وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی معاملات ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سمیت سندھ اور پنجاب کے ثقافت کے صوبائی وزراء فیاض الحسن چوہان اور سید سردار شاہ کو خاص دعوت دی تھی، مگر وہ اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے نہیں آسکے۔ ہم صوبوں کے درمیاں محبتیں بڑھانے کا کام کرنے جارہی ہیں۔ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ اس تقریب کے لئے پنجاب اور سندھ سرکار نے اک ساتھ مدد کی ہے۔ “

حفیظ چنا کا کہنا تھا کہ ”ہماری آدھی عمر سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزری ہے، اور ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں کہ جب سندھی بولنے والے چھوٹے شہروں سے کراچی آتے تھے تو صدر، عزیزآباد، بفرزون، کلفٹن اور کیماڑی جاتے تھے تو سندھی ٹوپی جیب مین چھپا کر اور اجرک بیگ میں ڈال دیتے تھے۔ دہشت اور ڈر کا یہ سماں تھا کہ کچھ علاقے سندھیوں کے لئے ’نوگوایریاز‘ بن چکے تھے۔ مگر اب صورتحال کافی تبدیل ہوچکی ہے، مضبوط سیاسی استحکام، پاک فوج اور رینجرز کی قوت نے کراچی کو پھر سے پرامن اور روشنیوں کو شہر بنایا ہے۔ کیا یہ بات مثبت تبدیلی کا عندیہ نہیں ہے کہ اب اک طرف کراچی پریس کلب کے سامنے ایک لاکھ سندھی لوگ ٹوپی اور اجرک پہن کر ’جیئے سندھ جیئے، سندھ وارا جیئن‘ پر بے خوف رقص کر رہے ہیں، اور دوسری طرف لاہور کے مال روڈ پر بھی اجرک اور ٹوپی پہنے لوگ جھومر ڈال رہے ہیں، یقیناً زبردستی وحدت کالونیاں بنانے سے قوم کو وحدت کی لڑی نہیں پرویا جاسکتا، مگر محبت سے اور پیار سے ایسا بالکل ممکن ہے۔ “

پنجابی پرچار کے روح رواں احمد رضا وٹو کا کہنا تھا کہ ”ہو سندھی اور اُسے اپنی دھرتی، ثقافت اور زبان سے پیار نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ اپنی دھرتی سے جُڑے یہ لوگ میرے ملک پاکستان کا فخر ہیں، پاکستان کی ثقافت سندھی ہے پنجابی ہے پختون ہے بلوچی ہے۔ سندھیوں نے اپنا آپ بِکھرنے نہیں دیا اور باقی قوموں کو بھی یہی سمجھاتے آئے ہیں۔ انہیں میں سے میرے کچھ دوست بھی ہیں جو مجھ سے پیار کرتے ہیں ہمیشہ اپنی بانہیں میرے لئے کُھلی رکھتے ہیں۔ سندھ گریجوایٹس ایسوسی ایٹیشن کے زیر اہتمام لاہور میں ہر سال سندھی کلچر ڈے مناتے ہیں مجھے اجرک پہناتے ہیں شیلڈ دیتے ہیں اور اپنے سندھی بہن بھائیوں کو ہمارے لئے فخر سے بتاتے ہیں یہ ہم جیسے ہمارے پنجابی دوست ہیں! اس سے بڑھ کے میرے لئے اور خوشی کیا ہو سکتی ہے۔ “

اس تقریب میں پنجابی شعراء، ادباء اور دیگر اہل علم نے بھی شرکت کی۔ پاکستان سرکار کو چاہیے کہ سندھ اسمبلی کی طرح قومی اسمبلی سے اک قرارداد پاس کروا کر اسی دن کو قومی سطح پر سندھی، بلوچی، پنجابی، پشتون، بلتی، کشمیری اور دیگر ثقافتوں کا قومی دن قرار دیدے، یہ اک اتنا بڑا کمال ہوجائے گا کے دنیا بھر کے لوگ اس تہوار کو دیکھنے کے لئے پاکستان آیا کریں گے اور یہ بات خود پاکستان کے استحکام اور ترقی کے لئے بہت مفید بات ثابت ہوگی۔ ”یقیناً اس میں سمجھنے والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).