چائے کی کہانی


چائے! کہتے ہیں کہ پہلے زمانے میں چائے بطور دوائی استعمال ہوتی تھی میرے خیال سے آج بھی لوگ اس کو بطور دوا ہی استعمال کرتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے زمانے میں خود سے کام لینے کے لئے پی جاتی تھی اور آج کل اوروں سے کام لینے کے لئے پلائی جاتی ہے۔

بقول انور مسعود صاحب چائے ہماری ثقافت میں بطور مہمان آئی تھی شاید اسی لیے آج کل لوگ اپنے مہمانوں کی چائے کے ساتھ ہی تواضع کرتے ہیں۔ میرا دوست کہتا ہے کہ چائے مہمان نوازی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اگر آپ نے اپنے مہمان کو چائے نہیں پلائی یا چائے کی کھوکھلی صلح جو کہ مہمان نوازی کا آخری درجہ سمجھی جاتی ہے بھی نہیں ماری تو پھر مہمان آپ کو اہل شیوخ کا بھی باپ سمجھتا ہے۔ جیسے رکشہ والا اپنی سواری کو نوٹوں کی نظر سے دیکھتا ہے ایسے ہی کچھ مہمان اپنے میزبانوں کو چائے کی نظر سے ہی دیکھتے ہیں۔

میرا ایک دوست مجھ سے کہنے لگا کہ سیٹھ آؤ میں آج آپ کو چائے پلاتا ہوں۔ ویسے تو وہ اہل شیوخ کا باپ ہی تھا لیکن میں بہت حیران ہوا اور چائے پینے کی حامی بھرتے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیا۔ میری حیرانی اس وقت دم توڑ گئی جب وہ مجھے اپنے ایک دوست کے گھر بطور مہمان لے گیا۔ اس طرح میرے اس دوست نے میرے دیے ہوئے کنجوسی کے طعنوں پہ پانی پھیر تے ہوئے اس دن مجھے چائے کے پانچ چھ کپ پلا دیے۔

ایسا ہر گز نہیں ہے کہ سارے ہی لوگ مہمان نوازی کے روپ میں چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں کچھ ایسے بھی دنیا میں ہیں جن کے لئے چائے کسی چرس سے کم نہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چائے کو بطور ہاضمہ پھکی استعمال کرتے ہیں جب تک پی نہ لیں ان کا نظام انہضام درست ہی نہیں ہوتا۔ میرا ایک دوست جو کہ چائے کا اتنا ٹھرکی تھا کہ وہ بیس کلومیٹر کا سفر طے کر کے ہمارے پاس صرف چائے پلانے کی غرض سے ہی آتا تھا۔ جب ہم پوچھتے کہ چائے پلانے سے تجھے کیا حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنا جواب کچھ یوں پیش کرتا کہ۔
” گرم چائے کا ایک گھونٹ آپ کے مخالفین کے دلوں میں بھڑکنے والی آگ پہ پانی کی طرح اثر کرتا ہے“

سیٹھ وسیم طارق
Latest posts by سیٹھ وسیم طارق (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).