نظریۂ پاکستان اور زمینی حقائق: فرزند اقبال کی ایک تاریخ ساز تحریر


برصغیر میں مسلم امت کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے جن تحریکوں نے کام کیا، ان میں تحریک مجاہدین اور تحریک خلافت دو نمایاں تحریکیں ہیں۔ بدقسمتی سے ان دونوں تحریکوں کی مساعی نتیجہ خیز نہ ہو سکیں اور یہ تحریکیں نا کامی سے دو چار ہوئیں۔ ا ن کے بعد تحریکِ پاکستان ایک ایسی تحریک تھی جو کامیاب بھی ہوئی اور اس کے اثرات بھی پوری دنیا پر محسوس کیے گئے۔ دراصل پہلی دو تحریکوں اور بعد کی تحریک کے طریقۂ کار میں جوہری فرق تھا۔

پہلی دونوں تحریکوں نے وقت کے بدلے ہوئے تقاضوں سے بے توجہی برتی، تقلیدی اجتہادات پر انحصار کیا اور محض جوش جذبے پر عمل کی بنیاد رکھی جبکہ تحریکِ پاکستان نے ان دونوں کی روش کے برعکس راستہ اختیار کیا اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کے نتیجے میں پاکستان قائم ہو گیا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان آج تک اپنے اس بنیادی نظریے کی تطبیق اور نفاذ سے محروم چلا آ رہا ہے جس کے سبب ملک میں کوئی مستحکم نظام قائم نہیں ہو سکا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکا۔

تحریک پاکستان سے پیشتر برصغیر میں دو تحریکیں ”اسلام“ کے نام پر چلیں۔ پہلی تحریک ”وہابی تحریک“ کہلائی جس نے اس اجتہاد پر عمل کیا کہ برصغیر انگریزوں کے تسلط کے بعد ”دارالاسلام“ نہیں رہا بلکہ ”دارالحرب“ بن چکا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کے سامنے دو ہی راستے ہیں : یہاں سے کسی مسلم ملک کی طرف ”ہجرت“ کرجائیں یا ”جہاد“ کے ذریعے اپنا کھویا ہوا سیاسی اقتدار حاصل کریں۔ ”ہجرت“ ممکن نہ تھی، لہٰذا ”جہاد“ کیا گیا لیکن شکست کھائی۔ مسلمانوں پر غدر کا الزام لگا۔ 1870 ء میں ”جہادیوں“ کے ٹرایل ہوئے۔ بعضوں کو تختۂ دار پر لٹکایا گیا، باقی جزائر انڈیمان میں ہمیشہ کے لیے ملک بدر کردیے گئے۔ یوں یہ تحریک اپنے انجام کو پہنچی۔

دوسری تحریک ”خلافت تحریک“ کہلائی جس نے اس اجتہاد پر عمل کیا کہ چونکہ برطانوی حکمرانوں نے ترکی خلافت کو بروئے کار لانے کا جو وعدہ مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا پورا نہیں کیا، اس لیے مسلمان برصغیر سے ”ہجرت“ کرکے کسی ہمسایہ مسلم ملک میں چلے جائیں۔ چنانچہ پنجاب اور سندھ کے مسلم کاشتکاروں نے اپنی زمینیں کوڑیوں کے بھاؤ ہندو ساہوکاروں کو بیچ کر اہل و عیال سمیت افغانستان کا رخ کیا۔ افغان حکومت نے اپنے ملک میں اُن کا داخلہ بند کردیا۔ نتیجے میں واپسی پر ان مظلوموں پر جو گزری بیان کرسکنا مشکل ہے۔ دوسری طرف ترکوں نے خود ہی اپنی خلافت منسوخ کردی۔ ہندوؤں کے ساتھ اتحاد بار آور ثابت نہ ہوا۔ لہٰذا یہ تحریک اپنی موت آپ مرگئی۔

دونوں تحریکوں نے برصغیر میں ”اسلام“ کے وجود کا احساس پیدا کیا، اگرچہ دونوں ناکام ہوئیں۔ ”تحریک پاکستان“ بھی ”اسلام“ کے نام پر چلی اور اپنے مقاصد کی تحصیل میں کامیاب ہوئی۔ کیوں؟ دونوں گزشتہ تحریکوں کی ناکامی کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں :

(ا) وقت کے بدلے ہوئے تقاضوں سے بے توجہی

(ب) تقلیدی اجتہادات پر انحصار

(ج) محض جوش و جذبے پر عمل کی بنیاد رکھی گئی۔

ہماری اجتماعی سوچ میں دراصل ”جدیدیت“ کی ابتدا سرسید احمد خان کے افکار سے ہوتی ہے۔ اُن کی تعلیمی اصلاحات اور سیاسی نظریات پر قدامت پسندوں نے ان پر کفر کے فتوے لگائے۔ تعلیم کے میدان میں اُن کی اصلاحات راجہ رام موہن رائے کی اصلاحات سے ایک صدی بعد نافذالعمل ہوئیں، جس کے سبب مسلمان ہندوؤں سے جدید تعلیم کے حصول میں ایک سوبرس پیچھے رہ گئے تھے۔ سرسید کے علاوہ حالی، شبلی اور اکبر الٰہ آبادی کو اسی طرح جدید یین قرار دیا جاسکتا ہے جیسے سید جمال الدین افغانی اور اُن کے ترکی، مصری یا ایرانی ہمعصر مفکروں اور سیاسی مدبروں کو جدیدیین کہا جاتا ہے۔

اِنھی شخصیتوں نے مسلمانوں میں قومی شاعری اور قومی فکر کی بنیاد رکھی جسے اقبال نے درجۂ کمال تک پہنچایا۔ اقبال دراصل اُصول حرکت، عقل استقرائی اور عقل اختباری کی روشنی میں اسلامی تمدن اور اسلامی عقاید کو از سر نو متعین کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے سرسید، حالی، شبلی، اکبر اور دیگر مسلم اہل فکر نے اس صورت حال کو اس طرح نہیں سمجھا تھا، جیسے اقبال نے سمجھا۔

جدید معنوں میں ”دوقومی نظریہ“ کے اصل بانی سرسید ہی تھے، کیونکہ اُنھوں نے مسلمانوں کو کانگرس میں شامل ہونے سے منع کیا اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ برصغیر میں ہندو اور مسلم دو مذہبوں کی بنیاد پر ”دو قومیں“ آباد ہیں۔ لہٰذا اِس سرزمین میں اگر جمہوریت کے اُصول نافذ کیے گئے تو مسلم قوم تب تک خسارے میں رہے گی جب تک سیاسی اقتدار دونوں قومیں آپس میں برابر برابر بانٹ نہیں لیتیں۔ مگر ہندو بحیثیت مجموعی اکثریت میں ہیں، اس لیے وہ ایسا کبھی قبول نہ کریں گے۔

سرسید کے اسی خدشے پر اقبال نے اظہار خیال کرتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا کہ برصغیر کے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے کم از کم وہاں تو وہ اپنا حقِ خود ارادیت استعمال کرتے ہوئے علیحدہ ریاست کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ اب ہمارے بعض دانشور فرماتے ہیں کہ خطبہ الٰہ آباد میں تو علامہ نے ہندوستان کے اندر مسلم ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا تھا۔ یہ دانشور یا تو کسی سیاسی انداز فکر کی حالات کے پیش نظر بتدریج ارتقاء کے قائل نہیں یا اُنھوں نے اقبال کے خطوط بنام جناح (جو قائداعظم نے خود شائع کیے ) پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کی۔

اسی طرح وہ قائداعظم کے کیبنٹ مشن پلان قبول کرنے کو پاکستان کے نصب العین کے موقف سے اُن کا انحراف کرنا قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ایسے اقدام کو سیاسی سٹریٹجی تصور کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ بعدازاں وہ پاکستان کی تحصیل کی خاطر قائداعظم کے اعلانِ راست اقدام کو بھی نظرانداز کردیتے ہیں۔ ایسی تحقیق بہرصورت بے مقصد ہے کیونکہ پاکستان وجود میں آچکا ہے اور اگر واقعی بامقصد ہے تو اُسے کنفیوژن پھیلانے کے لیے ہی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔

بقول ڈاکٹر فضل الرحمن سرسید تاریخ اسلام کے سب سے بڑے نکتہ چین تھے اور ان کے بعد اقبال۔ بلکہ بقول سید نذیر نیازی قاہرہ کے علما کو باقاعدہ درخواست دی گئی کہ اقبال کے پیش کردہ نظریات کو اسی طرح مردود قرار دیا جائے جیسے ان سے پیشتر سرسید کے خیالات کو کفریات قرار دیا گیا تھا۔ مسلم قومیت کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے قیام پر اقبال کی زندگی میں اُن کا جو ”مناظرہ“ (قومیں اوطان سے بنتی ہیں یا عقاید سے ) مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا تھا اس کے سبب علماے ہند نے اقبال کو کبھی معاف نہیں کیا۔

مولانا حسین احمد مدنی نے اپنی کتاب جو علامہ کی وفات کے بعد علماشائع ہوئی میں ارشاد فرما رکھا ہے کہ اقبال ساری عمر غلط فہمیوں کا شکار رہے اور ”ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا۔ “ یعنی انگریز حاکموں کی ایما پر ہندوستان کے ٹکڑے کرانا چاہتے تھے۔ غالباً اسی بنا پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (مصنف وقائع اقبال) تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کی نادر شخصیت میں بعض ایسی خامیاں تھیں جن سے نجات حاصل کرسکنے کا انھیں موقع نہ ملا۔

معلوم ہوتا ہے ان سب حضرات کا اقبال پر نکتہ چینی کا سبب دراصل مسلم قومیت کی بنا پر ان کا تصور جدید اسلامی ریاست تھا۔ راقم کے اس خیال کی تائید مولانا نجم الدین اصلاحی کے ارشاد سے ہوتی ہے کہ ہم ڈاکٹر صاحب مرحوم کو ایک شاعر اور فلسفی سے زیادہ اہمیت دینے کو شرعی جرم سمجھتے ہیں اور یہ کہ پاکستان میں قانون سازی کا اُصول فکر اقبال کی روشنی میں تو ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان جس ”اسلام“ کے نام پر بنا ہے وہ مرحوم ہی کے فلسفہ کا دوسرا نام ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5