اس وقت بنگلہ دیش کہاں کھڑا ہے اور پاکستان کہاں


مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں کون قصور وار تھا اور کون نہیں؟ اس بات کا تعین ہم آج تک نہیں کر سکے۔ سیاستدان، فوجی حکمران، مغربی پاکستان کی سول بیوروکریسی، شیخ مجیب الرحمٰن کی ہٹ دھرمی، ایک ہزار میل کی زمینی دوری، الگ زبان و ثقافت یا پھر ہندوستان کی سازش۔ ہو سکتا ہے یہ سب عوامل ہوں یا ان میں سے کچھ نہ بھی ہوں۔

اچھا اس بحث کو تھوڑی دیر کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں اس وقت بنگلہ دیش اور پاکستان کہاں کھڑے ہیں۔

بنگلہ دیش کا کل رقبہ 147570 مربع کلو میٹر اور کل آبادی 17 کروڑ کے قریب ہے۔ یوں اس سر زمین پر 1106 نفوس فی مربع کلو میٹر آباد ہیں۔ دوسری طرف پاکستان کا کل رقبہ 881913 مربع کلو میٹر ہے، اور آبادی 21 کروڑ کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔ اور اس طرح یہاں پر 244 افراد فی مربع کلومیٹر آباد ہیں۔ اس کا مطلب ہے بنگلہ دیش پر آبادی کا دباؤ ہم سے چار گنا سے بھی زیادہ ہے۔ اور اسی طرح رقبے اور وسائل کے لحاظ سے وہ ہم سے چار گنا کم ہیں۔

لیکن ہم سے اس قدر چھوٹا اور ماضی میں پسماندہ سمجھا جانے والا سیلاب زدہ خطہ ترقی کے ہر میدان میں ہمیں بہت تیزی سے پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان کی ( nominal) جی ڈی پی کا حجم اس وقت 308 ارب ڈالر ہے جبکہ بنگلہ دیش کی جی ڈی پی اس وقت 286 ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش یہ تھوڑا سا فاصلہ محض دو سال میں طے کرکے ہم سے بڑی اکانومی بن جائے گا۔

فی کس آمدنی اور سالانہ شرح ترقی میں وہ ہمیں پہلے ہی بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی 1751 ڈالر جبکہ پاکستان کی 1629 ڈالر ہے۔ اور ہماری سالانہ شرح ترقی 80۔ 5 %اور بنگلہ دیش کی اس وقت 86۔ 7 % ہے۔ بنگلہ دیش کی سالانہ برامدات اس وقت 41 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی اس سال تک 25 ارب ڈالر سے کم ہیں، اور بنگلہ دیش کی درامدات اس وقت 43 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی درامدات اس وقت 56 ارب ڈالر ہو چکی ہیں۔ اس طرح جہاں بنگلہ دیش کو اس وقت 2 ارب ڈالر کے بالکل معمولی تجارتی خسارے کا سامنا ہے، وہی پاکستان کا تجارتی خسارہ 21 ارب ڈالر کے خطرناک ہندسے کو چھو رہا ہے۔ یوں جلد ہی تجارتی خسارہ بھی بنگلہ دیش کے لئے قصہ پارینہ بن جائے گا۔

جہاں ہمارے پاس اس وقت مانگے تانگے کے 15 ارب ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں، وہی بنگلہ دیش کے پاس اس وقت 33 ارب ڈالر کا غیر ملکی زر مبادلہ موجود ہے۔ بنگلہ دیش پر کل غیر ملکی قرضہ اس وقت 35 ارب ڈالر کے قریب ہے، جبکہ پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا انبار اس وقت 87 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت بے روزگاری کی شرح 4 % کے قریب ہے وہی پاکستان میں بے روزگاری اس وقت 6 % کے قریب ہے۔ بنگلہ دیش کی کل آبادی کا محض 14 % اب زراعت سے وابستہ ہے اور 33 % آبادی اب صنعتوں سے منسلک ہو چکی ہے، ادھر پاکستان کی 18 % آبادی ابھی تک زراعت پیشہ ہے اور صرف 20 %صنعتوں سے وابستہ ہوئی ہے۔ آج جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش کا مالیاتی سیکٹر انڈیا کے بعد دوسرے نمبر پر آ چکا ہے، اور پاکستان لڑھک کر تیسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ اسی طرح تعلیمی اعتبار سے بھی ہم بنگلہ دیش سے بہت پیچھے کھڑے ہیں۔ اور ورلڈ پاسپورٹ انڈیکس کے مطابق بھی بنگلہ دیش اقوام عالم میں اس وقت ہم سے بہتر درجے پر کھڑا ہے۔

ایک اقتصادی جائزے کے مطابق بنگلہ دیش کے برابر آنے کی لئے بھی ہمیں 8 % سالانہ شرح ترقی حاصل کرنا ہو گی اور دس سال کا عرصہ چاہیے ہو گا۔
اب ذرا سوچیے اگر بنگالی آج تک ہمارے ساتھ رہتے تو وہ کتنے ترقی یافتہ ہوتے؟

ان کے رہنماؤں کو روز غداری کے سرٹیفیکیٹ ملتے۔ روز کئی شرپسند بنگالیوں کو اٹھا کر غائب کر دیا جاتا، اور روز کسی نہ کسی علاقے میں فوجی آپریشن ہو رہا ہوتا۔ بنگالی سائل اپنی عرضیاں ہاتھوں میں تھامے مغربی پاکستان سے آئے ہوئے بابووں کے دفتروں کے باہر ناک رگڑ رہے ہوتے۔ کوئی بھی صنعت یا کاروبار شروع کرنے سے پہلے اسلام آباد سے حتمی منظوری آنے کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے کوچ کر جاتے۔ مغربی پاکستان کے فرعون صفت صنعت کار کسی بھی وقت ایکا کر کے ان کی پٹ سن خریدنے سے انکار کر دیتے، جیسے ابھی مقامی کاشتکاروں سے گنا خریدنے سے انکاری ہیں۔

کبھی صاف پانی اور کبھی گیس کی فراہمی کے لئے روز دہائیاں دیتے۔ اپنے بچوں کے علاج معالجے کے لئے بھارت جانے پر مجبور ہوتے۔ ان کو سیلاب سے بچانے کے لئے رکھی گئی رقومات اسلام آباد میں ہی ڈکار لی جاتیں۔ جہاں کراچی کے بالکل قریب واقع تھر میں روز کئی بچے بھوک کا شکار ہو کر موت کے منہہ میں پہنچ جاتے ہیں، وہاں ایک ہزار میل دور بھوک سے بلکتے غریب بنگالیوں کو کون روٹی پہنچا پاتا۔

اب دوبارہ اس بحث کی طرف واپس آتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی کی علیحدگی کا کون ذمہ دار تھا۔ میرا خیال ہے۔ ہمارے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور فوجی اشرافیہ پر ہی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس طرح کی انوکھی مملکت جو زمینی طور پر ایک دوسرے سے ہزاروں کلو میٹر دور تھی اور ایک بالکل جدا تہذیب و ثقافت اور زبان کی حامل تھی۔ اور صرف ایک نظریے کی بنا پر ایک قوم بننے کا تجربہ کر رہی تھی۔ اس کو صرف انصاف، یکساں سماجی و معاشی ترقی کے مواقع اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام ہی متحد رکھ سکتا تھا۔

یہ ہمارے مشرقی پاکستانی بھائیوں کی محرومیاں اور ہماری طرف سے روا رکھی جانے والی نا انصافیاں ہی تھیں، جنہوں نے انہیں الگ ہو جانے کے لئے مجبور کر دیا۔ اپنی زبان کی الگ شناخت منوانے کے لئے بھی انہیں اپنا خون بہانا پڑا۔ ان کی سیاسی حیثیت کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا، اور بالآخر جب 1970 ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 سیٹیں عوامی لیگ نے جیت لیں تو مغربی پاکستان سے محض 80 سیٹیں جیتنے والے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے ان کا حق حکمرانی ماننے سے انکار کر دیا۔

جس میں اس وقت کے فوجی صدر جنرل یحییٰ خان نے مسٹر بھٹو کا ساتھ دیا۔ اس کے بعد ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ الگ ہو جاتے۔ جب الگ ہونا ہی ٹھہر گیا تھا تو کم از کم اس برے طریقے سے الگ نہ ہوتے، کم از کم اس انسانی المیے سے تو بچنے کی کوشش کر لی گئی ہوتی جو ہزاروں لوگوں کی جانوں کے اتلاف اور 90 ہزار پاکستانیوں کی ہندوستان کے ہاتھوں قید پر منتج ہوا۔

آج تک نصابی کتب میں بچوں کو بھارتی سازش اور مجیب الرحمٰن کی غداری کی افیم چٹائی جاتی ہے اور جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو ان کی آنکھیں کھلتی ہیں، جب دیگر ذرائع سے وہ مختلف حقائق سے آشنا ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنے کی راہیں تلاش کی جائیں۔ اور محروم طبقوں کو انصاف کی فراہمی، ان کو یکساں ترقی کے مواقع دینے، اور ملک کی ہمہ جہت ترقی کے لئے کام کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).