16 دسمبر 2014 جیسے کالے دن موم بتیاں جلانے سے روشن نہیں ہوا کرتے


16 دسمبر 2014 جیسے کالے دن موم بتیاں جلانے سے روشن نہیں ہوا کرتے۔ ہاں البتہ ذہنوں دلوں اور ضمیروں کو روشن کر لیا جائے تو عین ممکن کہ آنے والے دنوں میں سولہ دسمبر 2014 جیسا سیاہ دن دوبارہ نہ آئے۔ ہماری اپنی کوتاہی، سکول کی ناقص سکیورٹی اور ریاست انتظامیہ کی انتظامیہ نا اہلی کی وجہ سے درندوں کی بربریت کا شکار ہونے والے ان معصوم بچوں کو شہداء کہہ کر ہم نہ جانے اپنے کون سے جذبے کی تسکین کرتے ہیں یا شاید اپنی شرمندگی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ان معصوم بچوں پر ہوئے ظلم پر احتجاج کرنے اور اس طرح کے تمام مظالم کی مذمت کرنے اور اپنے آپ کے ساتھ یہ عہد کرنے کی بجائے کہ ہم آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے کچھ ایسا اہتمام کر جائیں کہ وہ اپنی زندگیوں کو خوف کی بجائے امن و آشتی کے سائبان تلے بسر کریں، ہم موم بتیاں جلا رہے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی سہل پسندی کا راستہ اپنایا اور ان بچوں کو جن کا حق تھا کہ انہیں جینے دیا جاتا ان پھولوں کو جن کا حق تھا کہ انہیں کھلنے دیا جاتا انہیں بچوں کے بے دردی سے پرخچے اڑا دیے جانے پر ہم ان ناسوروں کو بددعائیں دیتے ہوئے اور بچوں کی بہادری کے نغمے گاتے ہوئے اپنے آپ کو کس بے شرمی سے ایک عظیم قوم تصور کرتے ہیں۔

ہم عوام بنیادی طور پر ایک کاہل اور سہل پسند قوم ہیں جو نہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو پہچاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی ان کو بروئے کار لانے کے لئے اقدامات کرتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک آسان راستہ ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ برا ہو جاتا ہے تو ہم اس کی وجوہات پر غور کرنے اور نقائص کو دور کرنے کی بجائے بڑی آسانی سے اسے قسمت کے کھاتے میں ڈال کر اپنے تئیں متقی اور صابر بن کر خود کو جنت کا اولین حق دار سمجھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔

ہمیں یہ تک معلوم نہیں کہ صبر کا اصل مفہوم کیا ہے۔ ہم نے ظلم و زیادتی سہہ کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جانے کو صبر سمجھ لیا ہے جب کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا صبر ہرگز نہ ہے۔ ورنہ قرآن پاک میں یہ آیت ہرگز موجود نہ ہوتی کہ ”بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔ “ اپنی سہل پسندی اور بے عملی کو جواز دینے کے لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت اور قسمت کے سامنے بے اختیار ہیں۔

اوہ خدا کے بندو اگر ایسے ہی بے اختیار ہو تو تم سے قیامت کے دن حساب کس چیز کا ہونا ہے؟ اگر تم کو کوئی اختیار دیے بغیر خدا تم سے حساب لیتا ہے تو وہ ظالم ہوا، تو کیا خدا ظالم ہے جو تم کو اختیار دیے بغیر حساب مانگے گا؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خدا تو رحیم و کریم ہے اور غفور ہے۔ ہم ہمیشہ سے اپنی بد عملی کو جواز دینے کے لئے مذہب کا غلط استعمال کرتے آئے ہیں۔ جب تک ہم اپنے اختیارات کو تسلیم نہیں کرتے، حقوق کو نہیں پہچانتے، فرائض کو پورا نہیں کرتے، اور ہر چیز کے لئے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنا احتساب نہیں کرتے تب تک معاملات میں سدھار ممکن نہیں۔

جس کو ہم صبر کا نام دیے ہوئے ہیں وہ دراصل ہماری بے حسی ہے۔ ہم اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ دوسروں کو پہنچنے والی تکلیف تو دور کی بات ہمیں اپنے آپ کے ساتھ ہونے والے مظالم اور زیادتیوں کا احساس تک نہیں رہا۔ آپ خود سوچئے کیا وہ معصوم بچے کسی محاذ پر تھے، کسی جنگ میں شامل تھے، کسی غزوہ میں شریک تھے؟ جن کی شہادت پر حریت کے نغمے گائے جائیں؟ وہ تو ہنستے کھیلتے سکول گئے تھے جیسے روز جاتے رہے ہوں گے اور اس کالے دن ان کو مار ڈالا گیا۔

ایسے میں ہم ان کو شہید کہہ کر کیسے ان پر فخر کر سکتے ہیں؟ ان کو مظلوم مان کر ظلم کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتے! ”بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جو بچوں سے لڑ تا ہے“ جیسے گیت گا کر کیسے ہم اپنے ضمیروں کو مطمئن کر سکتے ہیں؟ کیا وہ نہتے معصوم لڑنے کی طاقت رکھتے تھے ان بم اور ہتھیار بردار جلادوں سے؟ بہادر بچے، وطن کے لئے قربان ہونے والے بچے، دشمن کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے بچے اور اس کے علاوہ بھی ان معصوموں کے لیے کیا کیا کہا جاتا ہے۔

جبکہ وہ تو ابھی شاید ان الفاظ کا مطلب بھی نہیں سمجھتے ہوں گے۔ ہم کس بے حسی سے ان بلی کتے یہاں تک کہ کاکروچ تک سے ڈر جانے والے چھوٹی چھوٹی عمروں کے بچوں کو مجاہد اور سپہ سالار کہے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم یہ بودے نعرے لگا کر اپنی شرمندگی کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔ گزرے برسوں میں ٹی وی پر مارننگ شوز میں اس منظر کے ٹیبلو چلائے جاتے رہے کہ کیسے انہوں نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہوگا۔

جبکہ کوئی بھی ذی شعور اور حساس انسان تصور کی آنکھ سے دیکھ سکتا ہے کہ وہ کیا قیامت خیز منظر ہوگا۔ اور ان عوامی اور سرکاری ہر دو طرح کی ڈرامہ بازیوں کو دیکھ کر ان ماؤں کے کلیجوں پر کیسے ہاتھ پڑتا ہوگا جن کے جگر گوشے ان کے کلیجے سے نوچ پھینکے گئے۔ خدارا کالے دنوں کو سنہری دنوں کی طرح منانا چھوڑ دیجئے۔ دن گزرتے رہیں گے، یہ دکھ نہیں گزرے گا!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دنوں کا دکھ

(سانحہء پشاور۔ سولہ دسمبر)

عجب دن آ پڑے ہیں
بوڑھی صدیاں رات رو کر دیکھتی ہیں
صبح کے کاندھے پہ پھولوں کے جنازے ہیں
نہ اِن کا بَوجھ اُٹھتا ہے نہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔ سکوتِ مرگ سے بھی سخت سکتہ
سِسکیوں کی راہ کو مسدود کرتا ہے
عجب سکتے کا پتّھر ہے
دنوں کو توڑتا گھایل دلوں پر آ پڑا
اب جو کسی کی چیخ سے دو نیم بھی ہوتا نہیں
کب سے یہاں سورج نہیں نکلا

کتابوں میں لکھے الفاظ مجھ سے پوچھتے ہیں
وقت کی تقویم میں کیسے یہ کالے دن لکھے تھے روشنی کے نام پر آ کر اندھیرے روشنی کا قتل کرتے ہیں
مقدّس جسم اُدَھڑتے ہیں
تو وَحشت کے پرانے پتّھروں کے واسطے ’یعنی نئی پوشاک سِلتی ہے
عجب دن آ پڑے ہیں
وقت کی تقویم سے باہَر کے دن ہیں
اُور مِرے شانوں پہ رکّھے ہیں
نہ ان کا بَوجھ اُٹھتا ہے نہ آنکھیں نَم اُٹھا کر دو قدم چلتی ہیں
سکتہ ہے۔

شہزاد نیّرؔ
امید ہے تبدیلی کے نعرے والی نئی حکومت اس دن کو موم بتیاں جلا کر منانے کی بجائے کوئی بہتر لائحہ عمل اختیار کرے گی۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).