ع سے عورت، م سے مرد، پ سے پاکستان


میں نےاس مضمون میں ڈاکٹر خالد سہیل کے مضمون “عین عورت اور میم مرد کا رشتہ “کو پاکستان کے حالات کے تناظر میں آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے –

ایک تخلیقی عمل کے دو مختلف روپ ایک دوسرے سے صنفی اعتبار سے قطعی مختلف بلکہ ضد جیسے آگ اور پانی مگر ایک دوسرے کے پاس آنے کو بیقرار ملنے کی جستجو اور ایک دوسرے کو پانے کا اضطراب تخلیق کے یہ دو مختلف روپ در حقیقت ایک ہی قوس و قزح کے مختلف رنگ ہیں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں – یہ دو مختلف وجود ع سے عورت م سے مرد جو مختلف رشتوں اور ناموں سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں ایک ہی مٹی سے گُندھے ہیں اور تخلیق ِمقصد بھی ایک ہی ہے یعنی پیار محبت ایثار اور ایک دوسرےکا احترام-

یہ دو روحیں ع سے عورت اور م سے مرد جو ایک جیتا جاگتا وجود بھی رکھتی ہیں ایک دوسرے سے ایک پل بھی جدا ہونا نہیں چاہتیں لیکن ہم نے (بالخصوص پاکستانی معاشر ے میں ) انہیں الگ کرنے کی جدا کرنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں – ہم نے سمجھدار ع سے عورت اور م سے مرد کو کبھی مذہب کے نام پر کبھی معاشرے کی ڈیمانڈ پر کبھی احتیاط کی آڑ لیکر ایک دوسرے سے جدا کرنے کی کوشش کی ہے اور کسی حد تک اس میں کامیا ب بھی ہوئے –

آج کا تعلیم یافتہ م سے مرد اور ع سے عورت جس گھٹن کا شکار ہیں عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا- ہم نے ع سے عورت اور م سے مرد کو اتنا کمزور لاغر اور بیمار باور کرانے کے کوشش کی کہ اگر یہ دونوں کہیں تنہائی میں ملیں گے تو ان کے بیچ میں شیطان ہو گا جو ان کو بہکائے گا اور یہ وہ فاش غلطی کریں گے جس کی ذلت سے ان کا سر ہمیشہ کے لئے جھک جائے گا اور تو اور آدم کو بہکانے کا سہرا بھی اسی ع سے عورت کے سر باندھا گیا اور فرمان جاری کیا گیا کہ اسے پردے میں رکھا جائے ورنہ یہ م سے مرد کو بہکائے گی گویا ع سے عورت ایسا جسم ہے جس کی تخلیق بغیر دماغ کے کی گئی ہے جسے دیکھ کر چھو کر ع سے عقلمند مرد کے ہوش اُڑ جاتے ہیں اور وہ گناہ کی دلدل میں پھنس جاتا ہے- اس گناہ اور ثواب کے ترازو میں ہم نے ہر پل ع سے عورت اور م سے مرد کو بہکا رکھا ہے –

حیرت تو ہے کہ دانائی و شعور کی اس دنیا میں جہاں انسان سمندر کی تہوں میں زندگی تلاش کر چکا ہے اور چاند پر بسنے کا خواہش مند ہے ہم ان دونوں کے درمیان مذہب سماج گناہ و ثواب کی ننگی تلوار لے کر چوکس کھڑے ہیں کہ خبردار ع سے عو رت اور م سے مرد ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں نہ بات نہ کریں بلکہ نظراٹھا کے دیکھنے کی بھی کوشش نہ کریں ورنہ حرام اور حلال کا فتویٰ تیار ہے – ع سے عورت اور م سے مرد میرے اس معا شرے میں سہمے ہوئے گھبرائے ہوئے کچلے ہوئے وہ دو وجود ہیں جو بنے ہی ایک دوسرے کے لئے ہیں –

ابھی چند مہینوں پہلے پاکستا ن میں نو عمر لڑکی کو اس کی ماں نے زندہ جلا دیا کہ اس نے اپنی پسند کے لڑکے سے بھاگ کر شادی کی تھی اس سے بھی بڑا المیہ یہ تھا کہ جب اسکی ماں سے سوال کیا گیا کہ اسکی ممتا یہ سفاکی کرتے ہوئے لرزی نہیں تو اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا مجھے کوئی افسوس نہیں کیونکہ لوگ مجھے طعنے دیتے تھے- اس میں ع سے عورت کا کوئی قصور نہیں اس لیے کہ اسے بتایا سکھایا اور رٹایا ہی یہ گیا ہے کہ اس کی اپنی کوئی حیثیت کوئی پہچان اور شناخت نہیں ہے اس دائرے سے جو عورت باہر جائے گی وہ ایسے ہی انجام کی مستحق ہوگی-

وہ معاشرے جو شعور و عقل کی منزل کو پہنچ گئے ہیں انہوں نے ع سے عورت اور م سے مرد کو آزاد وجود تسلیم کر لیا ہے وہ کھل کے سانس لے رہے ہیں زندگی جی رہے ہیں خدا کرے کہ ہم سوچنا ہی شروع کردیں کہ ع سے عورت اور م سے مرد آزاد پیدا ہوئے ہیں – اور ایک دوسرے کی قید میں آنے کے لئے بے قرار ہیں انہیں مذہب سماج اور احتیاط کی زنجیروں سے آزاد کر دیں انہیں کھل کر جینے دیں، محبت کرنے دیں اور محترم رہنے دیں کہ وہ شعور کی اس منزل کو پہنچیں جہاں ایک دوسرے کو بدن نہیں، انسان سمجھیں – ع سے عورت اور م سے مرد دو مختلف بدن مگر دو برابر انسان –


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).