ڈھاکا ابھی نہیں ڈوبا


آزادی ہند کی بنیاد پر دو ممالک کا وجود میں آنا اس بات کا ثبوت تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کو بالآخر فروغ ملے گا اور نو آبادیات کا سورج بس اب غروب ہوا ہی چاہتا ہے جس کی وجہ سے فرد کی فرد پر حکمرانی کو جائز تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن لیاقت نہرو پیکٹ اور آزاد ریاستوں کو بزور شمشیر اپنے ساتھ شامل کر کے دونوں ریاستوں نے اس بات کا عندیہ دے دیا تھا کہ نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی ابھی نہیں آئی۔بہرحال اس بات کی امید کی جا سکتی تھی کہ برابری اور مساوات کی بنیاد پر کم از کم دستور کا نفاذ ہوگا لیکن دیکھنے والی آنکھیں کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں اور چشم فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ ڈھاکا سے لاہور، مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے آنے والا رہنما چھ نکات کی بنیاد پر غدار ٹہرایا گیا۔

حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور ون یونٹ جیسی قبیح لعنت نے مشرقی حصے کےعوام کو اس قدر مشتعل کر دیا کہ برسوں کے ہمسائے چہرہ دیکھنے کے روادار بھی نہ رہے لیکن اس کی آخر کوئی ایک منطقی وجہ یہی تھی کہ جس کے بارے میں فیض احمد فیض نے یوں اشارہ کیا

ہم کہ ٹہرے اجنبی اتنی ملاقاتوں کے بعد

مکتی باہنی کی تشکیل اور ایک منظم پروپیگنڈے کے تحت بھارتی افواج کا مشرقی بنگال میں داخل ہونا ہی صرف ڈھاکا ڈوبنے کی وجہ نہیں بنا بلکہ ڈھاکا اس دن ڈوب گیا تھا کہ جب بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم کو برطرف کیا گیا، ڈھاکا اس دن بھی ڈوب گیا تھا کہ جب زبان کا مسئلہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے دستور ساز اسمبلی کو توڑ دیا گیا۔ مشرقی بازو ہم سے اس دن بھی جدا ہو گیا تھا کہ جب دستور ساز اسمبلی میں منتخب نمائندوں نے لاتوں مکوں اور گھونسوں کا آزادانہ استعمال کیا اور نائب اسپیکر کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بنگال کے جدا ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ایک مفلوج شخص نے عوام سے چھینا گیا حق رائے دہی اپنی مغربی سیکرٹری کو سونپ دیا کہ جس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہر سیاستدان کو اقتدار کی راہداریوں کا چکر کاٹنا پڑا۔ ہمارا بازو اسی دن کٹ گیا تھا کہ جب مولوی تمیز الدین کو اپنا آئینی حق مانگنے کے لئے رکشے میں سوار ہو کر چیف کورٹ آنا پڑا۔ ہر شخص کا ڈھاکا اس کا اٹوٹ انگ ہوتا ہے اور وہ اسی دن جدا ہو جاتا ہے کہ جب دستور معطل کرتے ہوئے گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگائی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب پاکستان کیوں ٹوٹا میں رقم طراز ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد حکمراں جماعت(مسلم لیگ) کا لاپرواہ رویہ، بیوروکریسی کا حدود سے تجاوز کرنا ہی ملک ٹوٹنے کی وجہ نہیں بنا بلکہ چند ایک سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی بھی سقوط ڈھاکا کے اسباب میں شامل تھی۔ ادھر ہم ادھر تم کا نعرہ آج بھی زندہ و پائندہ ہے اور افسوس تو یہ ہے کہ آج بھی ڈھاکا ڈوبنے کے قریب ہے ۔

نوے ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈال دینا ہی ڈھاکا ڈوبنے کا سبب نہیں تھا بلکہ ڈھاکا تو جب ٹوٹا کہ جب اپنا ہی ملک فتح کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کا لقب اختیار کیا گیا۔ کراچی کی سڑکوں پر فتح کا جشن منایا گیا اور لسانی فسادات کو ہوا دی گئی۔بازو اس دن جدا ہوا کہ جب ذرائع ابلاغ کو محاذ سے دور رکھا گیا اور اپنے ہی ملک کے بارے میں اطلاعات کے لئے بی بی سی کا سہارا لینا پڑا۔

سقوط ڈھاکا اس دن ہوا کہ جب کوئٹہ سے بھاگ کر جانے والا افسر شیخ مجیب کی ایماء پر جنرل ضیاء الرحمن کا دست راست بنا،کرنل شریف الحق دالیم کےا نکشافات چشم کشا ہیں لیکن ڈھاکا اب بھی جدا جدا کی صدائیں دے رہا ہے ۔بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ہونے والا قتل عام سب کو یاد ہے کہ جس کا بھانڈا شرمیلا بوس نے اپنی کتاب Dead reckoning میں پھوڑا مگر البدر اور الشمس کی قربانیاں کسی کو یاد نہیں ،اسی لئے کہا جاتا ہے کہ جو قومیں تاریخ سے سبق نہیں سیکھتیں، وہ تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں اور تاریخ انھیں فراموش کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔

دنیا اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ زور زبردستی کی بنیاد پر ریاستیں نہیں چلائی جاسکتیں مگر ہم ہیں کہ اب تک اونٹ کو رکشے میں بٹھانا چاہتے ہیں اور بضد بھی ہیں کہ دنیا ہماری قربانیوں کا اعتراف کرے۔

ڈھاکا اب بھی بچ سکتا ہے اگر حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو نصاب کا حصہ بنایا جائے اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے بجائے تمام اسباب و علل کا منطقی محاسبہ کیا جائے۔ ڈھاکا اب بھی ہمارا حصہ بن سکتا ہے اگر حبیب جالب کو یہ کہنے پر مجبور نہ کیا جائے

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

پاکستان کا قیام اس لئے وجود میں نہیں آیا تھا کہ جنگل میں بچھے سرخ قالین پر مقدس لوگ طواف کرتے رہیں بلکہ یہ ریاست بسانے کا مقصد یہی تھا کہ فرد کی فرد پر حکمرانی کو ختم کرتے ہوئے آئین و قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے مگر افسوس یہ نظریہ بھی اپنے انجام کو پہنچا۔اب تو سرمائے اور سرمائے کی اثر پذیری نے سقوط ڈھاکا کا لفظ بھی ہماری یادداشتوں سے محو کر دیا ہے مگر چند سر پھرے ہیں جو ابھی بھی یہ خواب دیکھتے ہیں کہ ڈھاکا ابھی نہیں ڈوبا گویا

پھول لے کر گیا آیا روتا ہوا

بات ایسی ہے کہنے کا یارا نہیں

قبر اقبال سے آرہی تھی صدا

یہ چمن مجھ کو آدھا گوارا نہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).