ظالم نے اتنا مارا کہ پیٹھ سے کھال ادھیڑ کر رکھ دی


وہ چار پائی پر الٹا گھٹنوں کے بل اوندھا پڑا تھا۔ پیٹھ سے کپڑا ہٹا ہُوا تھا اور اس کی پیٹھ پر زخموں کے گہرے نشان تھے۔ بے چارہ اپنے زخموں کی وجہ سے نہ بیٹھ سکتا تھا نہ سیدھا لیٹ سکتا تھا۔ دس بارہ سال اس کی عمر ہو گی اور گھر کی حالت سے لگتا تھا کہ انتہائی غریب گھرانا ہے۔ یہ منظر سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں دیکھا گیا۔

اس لرزہ خیز منظر نے دل چیر کر رکھ دیا۔ خبر کے مطابق یہ بچہ شیخوپورہ کے علاقے جنڈیالہ شیر خان کا ہے۔ اسے مسجد کے گلے (چندہ بکس) سے پیسے چوری کرنے کے الزام میں ظالم امام مسجد اور اس کے ساتھیوں نے مسجد کے صحن میں ننگا کر کے اتنا مارا کہ اس کی پیٹھ سے کھال ادھیڑ کر رکھ دی۔

ایک غریب محنت کش کے بیٹے ذوہیب کے ساتھ یہ انسانیت سوز سلوک رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ کیا ملک میں قانون نہیں ہے ؟ ہم مہذب انسانوں کے ساتھ رہتے ہیں یا جنگل کے خونخوار درندوں کے بیچ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس بچے نے اپنے بیان میں کہا کہ اس نے چوری نہیں کی۔ اس کی ماں کہتی ہے کہ جب اسے مارا جا رہا تھا تو اس کی چیخیں مسجد سے گھر تک آ رہیں تھیں۔ حالاں کہ مسجد گھر سے کافی دور ہے۔ وہ انصاف مانگ رہی ہے۔

کیا اسے انصاف دلانے کے لئے کوئی آواز اٹھائے گا؟ کتنے سوالات ہیں جو جو ذہن میں گونج رہے ہیں۔ ابھی تو اس کا جرم ثابت بھی نہیں ہوا تھا، چلیں فرض کرتے ہیں کہ اس نے چوری کی تھی تو کیا ایسی صورت میں اسے پولیس کے حوالے نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ اس طرح کے بہیمانہ تشدد کا کیا جواز تھا۔

یہ پہلو بھی ذہن میں رکھنا چاہئیے کہ وہ فقط دس سال کا بچہ تھا کوئی عاقل و بالغ شخص نہیں تھا۔ اس حوالے سے بھی سوچا جا سکتا ہے کہ بچے سے غلطی ہو گئی۔ کوئی رعایت تو بنتی ہے۔ اب دوسرا پہلو دیکھئیے۔ بچہ لگائے جانے والے الزام کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہا ہے۔ وہ کوئی پختہ جرائم پیشہ شخص بھی نہیں ہے۔ ایسے وحشیانہ تشدد کے سامنے تو بڑے بڑے مجرم بھی اقرار جرم کر لیتے ہیں پھر وہ کیوں انکار کر رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ وہ بے قصور ہے۔

بے قصور ہو یا قصور وار ہو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت تو کسی کو نہیں ہے۔ دنیا میں ہر جگہ سزا دینے سے پہلے جرم ثابت کرنا پڑتا ہے۔ کسی فرد کو بہر حال یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود ہی مدعی بنے، خود جج بن کر فیصلہ سنائے اور پھر جلاد بن کر سزا بھی دے دے۔

اس لاقانونیت اور بربریت پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ہمارے ارد گرد روزانہ ایسے واقعات ہوتے ہیں اور ہم محض افسوس کا اظہار کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے حکومت سے امید رکھنا عبث ہے۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک ایسے مظالم کے خلاف نہیں اٹھے گا ظالم ظلم کرتے رہیں گے۔

جس گھر، گلی، محلے یا علاقے میں ایسا کوئی ظلم ہو وہاں اس کے خلاف ردِعمل ضروری ہے۔ پھر جہاں بھی کسی کو علم ہو ایسے واقعات کی مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔ ہمارے ہاں لوگ جرم ثابت ہونے کا تو انتظار ہی نہیں کرتے۔ جہاں کسی نے کسی پر الزام لگایا فوراً اسے مجرم مان کر سزا دینے پر تل جاتے ہیں۔

ایسے متشدد رویے کسی مہذب قوم کا شعار نہیں ہوتے۔ شدت پسندی نہ جانے کس کس رنگ میں ہمارے خون میں رچی ہوئی ہے۔ نہ جانے کب وہ وقت آئے گا جب ہم برداشت اور تحمل کا سبق سیکھیں گے۔ کب ایسا ہو گا کہ کوئی عاقل و بالغ شخص کسی دس سالہ بچے پر چوری کا شبہ ہونے پر اسے انتقام کا نشانہ بنانے کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سپرد کرے گا اور اگر جرم ثابت نہیں ہوتا تو اسے بے گناہ سمجھے گا۔ کب؟ آخر کب؟۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).