کیا ہمارے بچے اب 16 دسمبروں سے محفوظ ہیں


یہ ڈھاکہ اور پشاور والے 16 دسمبر کے قومی سانحے ہمیں کیوں دیکھنے پڑے؟ یہ بہت اہم سوال ہے جو ہم نے مکمل سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ اپنے آپ سے شاید ہی کبھی پوچھا ہو۔ ارباب اختیار نے ہمیشہ ہی بیرونی ہاتھ کا بہانہ استعمال کیا اور اپنے اندر کبھی نہیں جھانکا۔ جو پاکستان اور پاکستانی بچوں کی حفاظت کے ذمہ دار تھے وہ اتنی اخلاقی جرات کا مظاہرہ ہی نہ کر سکے کہ اپنی غلطی تسلیم کر پاتے، پاکستانی شہریوں سے معافی مانگنا تو بہت دور کی بات تھی۔

تحقیقاتی کمیشن بنائے گئے لیکن ان سے کوئی بڑی توقعات رکھنا ممکن نہ تھا۔ اول تو یہ کمیشنز کوئی قابل ذکر کام کر ہی نہیں سکے اور جو تھوڑا بہت انہوں نے کیا وہ بھی عوام کے سامنے کبھی لایا ہی نہیں گیا۔ اس خطے میں ریاست اور عوام کے درمیان اعتبار کا تو ویسے ہی فقدان ہے پھر ہمارے حکمرانوں کے مطلق العنانی رویوں کی وجہ سے ٹرسٹ کی خلیج ہر اگلے سال مزید بڑھتی ہی گئی۔ عوام کو کبھی بھی اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ انہیں اپنے ملک کی صورت حال کو جاننے کا حق دیا جائے۔

اتنے بڑے سانحات کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ وجوہات کی ایک لمبی لسٹ ہوتی ہو گی اور واقعات کا ایک لمبا تسلسل ہوتا ہو گا۔ ان وجوہات میں سے بہت ساری شاید ہماری اپنی پیدا کی ہوئی ہوں اس لیے انہیں درست کرنے کے لیے اپنے اندر جھانکنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ آئندہ کے لیے ہمارے بچے ایسے سانحات سے محفوظ ہو جائیں۔ ایسا تبھی ممکن ہو سکے گا جب سارے پاکستانیوں کی رائے کو برابر اہمیت دی جائے گی۔ جب ہماری ترجیحات میں سب سے پہلے انسان اور پھر پاکستانی شہری آئے گا اور ہماری باقی شناختوں کا احترام بھی برابری کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ ایسی برابری جو سب کو نظر آئے تاکہ احساس محرومی ختم ہو سکے اور دشمن اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔

ابھی تک کی صورت حال سے تو لگتا نہیں ہے کہ ہم نے ان سانحات سے کچھ سیکھا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں اور نوجوانوں کی تربیت ابھی بھی انسانی بنیادوں پر شروع نہیں کی ہے۔ ابھی بھی ہمارے ٹی وی پر وہی لوگ دندناتے پھرتے ہیں جو انسانوں کے درمیان برابری کے قائل نہیں ہیں اور محبت اور امن کی بجائے نفرت اور خونریزی کے بیج بوتے ہیں۔ ہمارے نوجوان لاکھوں کی تعداد میں انہی کے فالوورز ہیں کیونکہ ہم نے اپنے سکولوں کی غیر معیاری تعلیم کے ذریعے اپنے بچوں کو سوچنے اور سوال اٹھانے کی صلاحیت سے ہی عاری کر دیا ہے۔ درسی کتابوں میں غیر محتاط طریقے سے بیان کیے گئے اور مسخ شدہ حقائق انسانوں کے درمیان تفریق کو گہرا کرتے ہیں اور ہمارے نوجوانوں کو ایک جھوٹا غرور دیتے ہیں کہ جیسے ہم دوسرے انسانوں اور ملکوں سے برتر ہیں اور دوسروں کو زیر کر کے ہی ہم نے دم لینا ہے۔ یہ غرور ہمیں سوچنے اور مکالمہ کرنے نہیں دیتا۔

اب بھی ہم سیاسی مسئلوں کو طاقت سے حل کرنے پر بضد ہیں۔ اب بھی ہم اپنے مسائل کی جڑ تک پہنچنے کے لیے کچھ نہیں کر رہے بلکہ اپنی تمام ناکامیوں کے پیچھے بیرونی ہاتھ ڈھونڈ رہے ہیں۔ ہم عوام پر اعتماد نہیں کر رہے اور انہیں شامل کرنے کی بجائے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ہم نے مذہب اور ریاست کو مکس کیا ہوا ہے اس لیے شہریوں کے درجے بنے ہوئے ہیں اور مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر ان کی حیثیت طے ہوتی ہے۔ اس سے دوسرا بڑا مسئلہ یہ بنا ہوا ہے کہ آئین اور قانون کی حیثیت کم تر ہے اور ابن الوقت لوگ بہت سے معاملات میں ریاست کے معاملات کو اپنی پسندیدہ مذہبی تشریح کے مطابق طے کرتے ہے۔ ماضی قریب میں ریاست اور حکومتوں نے اپنے آپ کو بے بس پاتے ہوئے ان لوگوں کی تشریح کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔ مذہب چونکہ انسان کا ذاتی معاملہ نہیں ہے بلکہ ریاست اکثریتی مذہب کی ترجمان بنی ہوئی ہے اس لیے بہت سے لوگوں کو وہ مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے جس کو وعدہ فادر آف دی نیشن نے پاکستان بنتے وقت کیا تھا۔

ہم اب بھی جنگ اور بدامنی کی حالت میں رہتے ہیں۔ ہمارے ہمسائیوں میں چین اور سمندر کے علاوہ سبھی ہم سے ناراض ہیں اور ہماری تعلقات کی صورت حال ہر اگلے سال پہلے سے زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی اپنی اس ناکامی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہے۔

اب بھی ہمارے ہاں بچوں اور نوجوانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم گھر یا ملکی لیول پر ان کے بنیادی حقوق پورے کر ہی نہیں سکتے۔ ان کے لیے ہم خوراک، گھر، تعلیم صحت اور ایک قابل قبول معیار زندگی کا حق پورا کر ہی نہیں سکتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس انسان جنگ کے ایندھن کے طور وافر موجود ہے۔ جنگ کا وہی انسانی ایندھن ہمارے خلاف کسی وقت بھی استعمال ہو جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے طور طریقوں میں بنیادی تبدیلیاں نہیں لاتے تو ہمارے بچے اب بھی 16 دسمبروں سے محفوظ نہیں ہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik