علامہ عبدالعزیز پرہاروی رحمۃ اللہ علیہ۔۔۔حیات و خدمات


علامہ عبد العزیز پرہاروی حنفی علیہ الرحمہ تیرہویں صدی ہجری کے نامور اور محقق علماء میں سے تھے۔ آپ مفکر اسلام، شیخ القرآن والحدیث، عارف باللہ اور مجتہد تھے۔ آپ نے صرف ۳۳ سال کی عمر پائی اور علوم دینیہ، علوم عقلیہ، الٰہیات، کلام، منطق، طب اور فلکیات پر نہ صرف کامل مہارت حاصل کی بلکہ ان علوم میں گرانقدر کتب تحریر کی ہیں۔ آپ کی ولادت ضلع مظفر گڑھ میں کوٹ ادّو کے نزدیک واقع ایک معروف بستی پُرہار میں 1206ھ میں ہوئی۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ ماجد سے حاصل کی۔اور ان ہی سے قرآن مجید حفظ کیا۔اس کے بعد ملتان آکر خواجہ حافظ محمد جمال چشتی سے اکتسابِ فیض کیا۔
آپ بچپن میں نہایت ہی کند ذہن تھے اور انتہائی کوشش کے باوجود سبق یاد کرنے سے قاصر رہتے تھے۔ ایک دن انتہائی رنجیدہ ہوکر ایک کونے میں جا بیٹھے اور زارو قطار رونے لگے۔اتفاقاً حضرت حافظ محمد جمال اللہ ملتانی کی نظر آپ پر پڑی تو حضرت نے بکمال شفقت و عنایت آپ سے دریافت فرمایا کہ عبد العزیز کیوں رنجیدہ ہو؟ عرض کی، یا حضرت انتہائی کوشش کے باوجود سبق یا د نہیں ہوتا۔ حضرت نے فرمایا ہمارے پاس آؤ اور ہمارے سامنے سبق پڑھو۔ آپ نے حضرت کے سامنے سبق پڑھنا شروع کیا تو حضرت حافظ صاحب کی عنایت سے ان کی تمام مشکلیں حل ہوگئیں اور پھر یہ عالم ہوگیا کہ جو کتاب ایک مرتبہ پڑھتے کبھی نہ بھولتے۔ مشکل سے مشکل کتاب پڑھ کر بے اختیار اس کا مطلب و معنی بیان کرنے لگتے اور آہستہ آہستہ آپ کی ذکاوت طبع اور ذہن رسا کا چرچا دور دور تک پھیل گیا۔
آپ اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ بچوں سے نہایت شفقت اور پیار سے پیش آتے تھے۔ اپنے شاگردوں سے نہایت نرم سلوک کرتے۔ بزرگوں کا احترام کرتے۔ غریبوں سے تعلق قائم کرتے اور امراء سے دور رہنا پسند فرماتے تھے۔ آپ کی طبیعت میں سادگی تھی، آپ نے ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کیا۔ دین کی تبلیغ و اشاعت میں سخت لگن اور محنت سے کام کرتے تھے۔
آپ کا لباس بالکل سادہ اور صاف ستھرا رہتا تھا۔ غذا میں بھی سادگی پائی جاتی تھی، آپ کو زیادہ مرغن غذا سے نفرت تھی۔ زہد و تقویٰ آپ کا شعار تھا۔ جاگتے زیادہ سوتے کم تھے۔ آپ کی ذات سند و حجت، خدا ترسی و تقویٰ میں کامل اسوہ تھی۔آپ حق کے بارے میں نہایت سخت اور پر اعتماد تھے۔ دین کے معاملے میں بڑے کھرے اور بے لاگ تھے۔ اسی طرح دنیوی کاموں میں بھی کسی قسم کی نرمی اور لالچ کے قائل نہ تھے۔ آپ صاحب الرائے پختہ کار، حد درجہ خدا ترس، نہایت پاکباز اور وسیع العلم تھے۔ آپ علوم دینیہ پر گہری نظر رکھنے والے عالم تھے۔ آپ کا ذریعۂ معاش طب تھا۔ علم و فضل کی بدولت اغنیاء اور اہل دنیا کو خاطر میں نہ لاتے تھے جبکہ فقراء اور مساکین کا علاج مفت کرتے۔ ایک مرتبہ والئ ملتان مظفر خان نے آپ کو علاج کے لیے طلب کیا تو آپ نے سختی سے انکار کردیا۔ راجہ رنجیت سنگھ کے ملتان پر قابض ہونے کے بعد دیوان ساون مل کو صوبے دار مقرر کیا گیا اور اس کے ذریعے آپ کو اس نے اپنے دربار میں طلب کیا لیکن آپ نے وہاں جانے سے انکار کردیا۔ اہل ایمان ہونے کے ناطے آپ کی غیرتِ ایمانی نے یہ گوارا نہ کیا کہ کسی بے دین حکمران کے دربار میں جائیں۔ آپ اتنے خود دا ر تھے کہ ساری زندگی فقیرانہ گزاردی لیکن حکومت کی طرف سے کوئی عہدہ قبول نہ کیا اور نہ کسی امیر و اہل ثروت کی تعریف کرکے دولت کمائی۔لوگوں کے دلوں میں آپ کا بہت مرتبہ و مقام تھا۔ آپ کی شہرت تمام علاقہ میں پھیل چکی تھی۔
آپ نے علوم درسیہ کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی بھی تحصیل کی اور بہت سے ایسے علوم جو کہ مردہ ہوچکے تھے آپ نے ان کو زندہ فرمایا، ان کی اصلاح کی اور ان میں مزید اضافہ فرمایا۔ آپ نے ان علوم میں بے شمار کتب تحریر کیں۔ آپ کا علم ”علم لدنی” تھا۔ آپ خودفرماتے ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے 280علوم میں مہارتِ کاملہ عطا فرمائی ہے۔ جبکہ کسبی طور پر اس کا عشرعشیر بھی حاصل نہیں ہوا۔ یہ سب کچھ عطائے ربانی ہے۔ آپ کو اسطر نومیا، عقائد، میراث، اقتصاد، سیاسیات، الہیات، طبقات الارض، آثار، تفسیر، فلسفہ، لغت، تصوف،تجوید، صرف، نحو، جدل، اصول فقہ، انساب، اصول حدیث، اعداد، ریاضیات، فلکیات، عروض، قوافی، تاریخ، سیر، تعبیر، منطق، سنین، علم جفر، اصولِ قرآن، رموزِ قرآن، حدیث، فقہ، اصول جہاد، ادب، اصول حکمت، احکام و فرائض، انوار قرآن وغیرہ سمیت علوم میں اکمل ترین عبور حاصل تھا۔
آپ عقیدۂ اہلسنت کے حامل اور فقہ حنفی کے پیرو کار تھے۔ آپ نے علم العقائد کے متعلق مفید کتابیں تصنیف کرکے دلائل وبراہین سے عقائد اہلسنت کا بھر پور دفاع کیا۔ آپ کی کتب میں اہل بیت کی فضیلت اور محبت کا بیان ملتا ہے۔ آپ کو اہل بیت سے غایت درجہ محبت تھی۔
آپ نے تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری کیا تو آپ کے شب و روز کتب نویسی میں صرف ہوئے۔ آپ نے دنیا کے مختلف علوم و فنون پر بے شمار کتب تحریر کیں۔ ان میں سے اکثر و بیشتر کتب زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوسکں۔ آپ کی تصانیف سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ آپ کو تصنیف و تالیف کا بے حد شوق تھا۔ آپ اللہ سے دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میری مدد فرما اور اس راہ میں آسانیاں پیدا فرما۔ آپ اپنی تصنیف و تالیف میں مشغولیت کو عبادت کا درجہ دیتے تھے اور اسے اُخروی ثواب کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ آپ کا زورِ قلم تیز نہایت رفتا ر تھا۔ کتاب زلیخا دو جز سے کم پوری کتاب ایک دن میں لکھ ڈالی تھی۔ آپ نے تقریباً ہر فن میں بلند پایہ کتابیں لکھیں لیکن ان میں سے اکثر پیشتر زیورِ طباعت سے آراستہ نہ ہوسکیں۔آپ کی تصانیف میں السلسبیل فی تفسیر التنزیل، الصمصام فی اصول تفسیر القرآن، النبراس شرح لشرح العقائد، الناھیہ عن طعن امیر المومنین معاویۃ رضی اللہ عنہ، کوثر النبی، مرام الکلام فی عقائد الاسلام، نعم الوجیز فی اعجاز القرآن العزیز، اثبات فی رفع سبابۃ فی التشہد (منظوم رسالہ)، زمرد اخضر، مشک عنبر، معجون الجواہر، الاکسیر، دیوان عزیزی (فارسی)، الیاقوت (علوم قدیمہ و جدیدہ کا جامع تعارف)، شرح حصن حصین(اوراد وظائف سے متعلق) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔آپ کی کتابیں نہ صرف بر صغیر میں پڑھی جاتی تھیں بلکہ بیرونِ ملک میں بھی آپ کی تصانیف کا شہرہ تھا۔

خطیب شاہی مسجد لاہور مولانا عبدالقادر آزاد لکھتے ہیں:”علامہ کی بعض کتب یورپ میں بھی پائی گئی ہیں۔ خاص طور پر آپ کی فلکیات کی کتاب سے انگریزوں نے کافی فائدہ حاصل کیا اور چاند کی معلومات کے بارے میں انگریزوں کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے”۔پنجاب یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر خیرات محمد ابن رسا لکھتے ہیں: ”علامہ پرہاروی کا منظوم عربی رسالہ جامعۃ الازہر قاہرہ مصر میں پڑھایا جارہا ہے”۔منشی عبدالرحمٰن ملتانی لکھتے ہیں:”علم نجوم اور فلکیات کے متعلق علامہ پرہاروی کا ایک رسالہ کیمرج یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے”۔ آپ کا علم بحر بیکراں تھا۔ آپ کی شخصیت کو آپ کے زمانے کے متعدد مشاہیر نے قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی آپ کی شخصیت کے مدح خواں تھے اور آپ کی تصانیف کی تلاش میں سرگرداں رہتے اور اپنے احباب کو خطوط بھیج کر علامہ پرہاروی کی کتاب تلاش کرنے کا کہتے۔ علامہ اقبال نے اپنے ایک دوست ایک مکتوب میں لکھا: مخدومی جناب میر صاحب! السلام علیکم! ایک بزرگ علامہ عبدالعزیز بلہاروی (پرہاروی) تھے.انہوں نے ایک رسالہ ”سرالسماء” کے نام سے لکھا جس کی تلاش مجھے ایک مدت سے ہے۔
آپ کے علمی آثار کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ شعرگوئی کے بارے میں انتہائی زرخیز ذہن اور عمدہ ذوق کے مالک تھے ۔آپ قوافی اور اوزانِ شعر سے بخوبی واقف تھے ۔ معجون الجواہر اور نعم الوجیز وغیرہ آپ کی تالیفات سے اس موضوع میں آپ کی استعداد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔آپ نے اپنی متعدد کتابوں اور تالیفات کی ابتداء اور ان کا اختتام منظوم کلام سے کیا۔ یہ آپ کا ایسا نادر وصف ہے جو برصغیر کے اہل علم کی مؤلفات میں انتہائی کم یاب ہے۔ تشہد میں اشارۂ سبابہ کے اثبات کے متعلق آپ کے ایک رسالہ سے آپ کی شعرگوئی کی قدرت واستعداد کاخوب اندازہ ہوتا ہے۔آپ کی تالیفات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبی ﷺ کی مدح و نعت کے متعلق اشعار کہتے اور ثناخوانِ رسالت حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار پر تضمین بھی کہتے۔
آپ کا وصال ۱۲۳۹ھ میں بستی پرہاراں شریف میں ہوا۔ آپ کو اسی مسجد و مدرسہ کے احاطہ میں دفن کیا گیا جہاں آپ طلباء کو درس دیتے تھے۔ آپ کا مرقد غیر پختہ حالت میں موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).