اور اس فلائٹ دیری کی وجہ کون تھا؟


میں اور کون!

پی۔آئی ۔ اے جسے ہم پیار سے “پیا ” بھی کہتے ہیں ناجانے مجھ سے ہمیشہ “شریکوں” جیسا سلوک کیوں کرتا ہے؟

آج اسلام آباد سے کراچی کا قصد کیا تو دل میں کھٹکا تو تھا لیکن سفر میں ساتھیوں کا ساتھ تھا تو کچھ دھاڑس بندھی کہ دیکھ لیں گے

بورڈنگ کے مراحل میں مجھے ویل چیر پر دیکھ کر ہی ایک صاحبہ کو میری سلامتی کی فکر ہوئی بولی ساتھ کون ہے؟ میں نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کر دیا۔ اس پر بھی تسلی نہ ہو ئی تو بولی ٹائلٹ کیسے جاو گی؟ میں نے عرض کیا محترمہ ایک گھنٹہ 40 منٹ کے سفر میں ایسی کسی حاجت کا امکان نہیں بے فکر رہیں ۔ بندی پھر نہ مانی۔ اپنے ساتھ کھڑے ایک سال خودہ سے پورٹر سے بولی کہ ان سے تحریری رضامندی مع دستخط اور شناختی کارڈ نمبر لکھوا کر لاو۔
اب وہ صاحب نہ جانے کہاں سے ایک کاغذ قلم لائے ۔ اور وہ کاغذ بھی ایسا جس کی ایک طرف کچھ دفتری حساب کتاب کا پرنٹ تھا ۔ اب اس کو ادارے کی کفایت شعاری کہا جاے یا زبوں حالی میں نے اسی استعمال شدہ پرچے پر لکھا کہ  میں وہیل چیئر پر ہوں اور سفر کے دوران اگر فوت ہو جاتی ہوں تو PIA والوں کا کوئی قصور نہیں ہو گا ۔ اب محترمہ کچھ مطمئین دکھائی دیں اور بورڈنگ پاس مجھے تھما دیا۔
جب جہاز میں بیٹھنے کا وقت آیا تو Aisle chair ندارد ۔ Aisle chair کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ایک صاحب اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے بولے آپ کی سیٹ بالکل قریب ہے بس تھوڑا سا چلنا پڑے گا
عرض کیا میں نہیں چل سکتی
بولے، چلیں زرا دیر کو کھڑی ہو جائیں
یہ میڈم آپ کو سہارا دے کر لے جائیں گی
اب مجھے بھی غصہ آگیا ۔ بولی آپ کو بتایا ہے کہ میں ڈس ایبل ہوں نہ چل سکتی ہوں اور نہ ہی کھڑی ہو سکتی ہوں
پھر بولے ” تھوڑا سا بھی نہیں؟
اف !! اب تو میں پھٹ پڑی ، بولی آپ کو کیا لگتا ہے کہ PIA کی کرامت سے یہاں آتے ہی معذور لوگ چلنے لگتے ہیں؟ دو گھنٹے سے آپ کے علم میں ہے کہ ایک ویل چیر استعمال کرنے والا مسافر آپ کے ساتھ ہے جس کے لئے Aisle chair کی فراہمی کو یقینی بنانا آپ کا فرض ہے۔
لیکن وہ صاحب بلاوجہ مجھے غلط ثابت کرنے کے لیے بخث کرتے رہے
جہاز کا عملہ کافی معقول تھا
اور انہوں نے ground staff سے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جب تک Aisle chair کا بندوبست نہیں ہو گا جہاز نہیں اڑے گا۔ اس دوران بزنس کلاس میں بیٹھی ایک نیک دل خاتون نے اپنی سیٹ میرے لئے خالی کر دی جو کہ دروازے کے بالکل قریب تھی۔ اب ان سب کی دوڑیں لگیں اور 15 منٹ میں Aisle chair کہیں سے ادھار مانگ کر لے آئے ۔
اور یوں ہم اپنی سیٹ پر سدھارے۔
قصہ مختصر یہ کہ آخر کب تک ! یہ منفی رویے
یہ جہالت، کم علمی، فرائض سے غفلت، آخر کب تک ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).