الیکٹرانک پرنٹ سوشل میڈیا سانحہ اے پی ایس کی مارکیٹنگ کرنے میں مشغول ہیں


صبح سے دیکھ رہا ہوں الیکٹرانک پرنٹ سوشل میڈیا سانحہ اے پی ایس کی مارکیٹنگ کرنے میں مشغول ہیں۔
ڈھول بینڈ باجوں والے ترانوں پر ترانے ریلیز ہو رہے ہیں۔ شہادت شہادت کا غلغلہ ہے، قوم کے اتحاد کی نوید ،بیرونی ایجنڈے کی تکرار، والدین کے شکرانے کی کہانیاں، غرض ہر کوئی اسے اپنے پسندیدہ ریپر میں لپیٹ کر پیش کرنے کی سعی میں جتا ہے۔
یقین جانیں ! یہ سب جھوٹ ہے اس مارکیٹنگ سے ٹی آر پیز تو بڑھے گی لائیکس اور ویوز کی برسات تو ہو گی، لیکن اس سے ان والدین کو قرار نہیں آئے گا جن کے لخت جگر پڑھنے کی غرض سے سکول گئے تھے اور گھٹڑیوں میں واپس آئے۔سکول جانے والے بچوں کے والدین جانتے ہوں گے کہ ہر صبح سکول جانے سے قبل بچوں کی اپنی داستانیں ہوتی ہیں۔کسی بچے نے سکول سے چھٹی کی منت کی ہو گی، کسی نے ناشتہ نہیں کیا ہو گا ،کوئی لنچ بکس لینا بھول گیا ہو گا ،کوئی بنا جرسی کے چلا گیا ہو گا اور پیچھے ماں باپ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر تمام دن پریشان رہے ہوں گے، ہائے میرا بچہ بھوکا چلا گیا ،میرا بچہ لنچ نہیں لے کر گیا، ہائے میرے بچے کی طبیعت خراب لگ رہی تھی وہ سکول میں ٹھیک تو ہو گا ۔اب ایسے میں جب والدین کو خبر ملی ہو گی کہ سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے اور درجنوں بچوں کو سر میں گولیاں مار کر سینکڑوں کو یرغمال بنا لیا گیا ہے ۔اس وقت ان والدین کی حالت کیا ہو گی وہ شعور رکھنے والا ہر بندہ سمجھ سکتا ہے ۔ایسے میں جب کہا جائے کہ خبر ملتے ہی ماں باپ خوشی کے شادیانے بجانے لگے، اک ماں تو جائے نماز بچھا کر دعا میں مشغول ہو گئی کہ میرے بچے کو شہادت نصیب فرما تو ایسا جذباتی پروپیگنڈا کرنے والوں کو آپ انسان کا درجہ دیتے ہیں تو دیں میں تو ان کو غلیظ جانوروں سے بھی بدتر سمجھتا ہوں۔
کہتے ہیں اس واقعے کے بعد قوم متحد ہو گئی، کیا خاک متحد ہوئی ؟ اک صاحب نے ٹی وی پر بیٹھ کر مذمت کرنے سے انکار کر دیا ،اک شخص نے بھرے جلسے میں اس کی تاویلیں پیش کیں اور انہیں ڈرون کا رد عمل کہا، اکثریت نے علی الاعلان اسے غیر ملکی ایجنڈے کی کارروائی قرار دیا جب کہ واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان احسان اللہ احسان سے لے کر فضل اللہ تک سب پاکستانی تھے۔
اک طرف وہ دھڑا بھی ہے جو کہتا ہے کہ اس واقعے میں پاکستان کی فوج ملوث تھی۔ گویا فوج اپنے ہی بچوں کو مار رہی تھی دوسری طرف بھارت جیسا دشمن ملک بھی اس واقعے کی سفاکیت پر تھرا اٹھتا ہے ۔بھارتی فلم میکر اس واقعے کے افسوس میں ڈاکومینٹریز اور فلمیں بناتے ہیں۔ اس واقعے پر جہاں دشمن تک دشمنی بھلا کر غم منانے مصروف تھے ۔وہاں ہمارے اپنے اس کو ردعمل قرار دے رہے تھے ۔
آج اک جملہ بار بار نظر سے گزرا کہ اک شہید بچے کی ماں نے کہا کہ “یہ شہید شہید کی بکواس بند کرو میرا بچہ سکول گیا تھا میدان جنگ میں نہیں ” اب معلوم نہیں یہ بات سچ ہے یا فرضی لیکن اس جملے کی حقانیت سے مجھے انکار نہیں، اول تو اس واقعے کا ہونا ہی سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے، پھر اس واقعے کے بعد اس کی حمایت کرنے والوں سے صرف نظر کرنا اک اور گناہ تھا ۔بات یہیں نہیں رکی آپ نے اس واقعے کے ذمہ داروں میں سے اک احسان اللہ احسان کو مہمان کا درجہ دے کر ان معصوموں کے خون کا سودا کیا ہے جو ہرگز ہرگز قابل معافی جرم نہیں۔ اگر آپ اس واقعے کے حمایتیوں اور ذمہ داروں کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو آپ کو معصوموں کے خون بیچنے کا بھی کوئی حق نہیں۔بند کرو یہ شہادت شہادت کا راگ، جلا ڈالو بڑا دشمن بنا پھرتا ہے جیسے ترانوں کو اور پھانسی پر چڑھا دو ان بچوں کے والدین کو جن کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے ہر سال انہیں ادھیڑنے بیٹھ جاتے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).